’اب کوئی بھی جماعت اسلام آباد کو بند نہیں کر سکتی‘
6 ستمبر 2024یہ جلسہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے، جب سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی نے بھی اسلام آباد میں پُرامن اجتماع اور امن عامہ بل کثرتِ رائے سے منظور کر لیا ہے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ دارالحکومت ایک ایسا حساس علاقہ ہے، جہاں ہر کسی کو جلسے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ پاکستان تحریک انصاف نے اسلام آباد میں ہر صورت جلسے کرنے کا اعلان کیا ہے اور قومی اسمبلی میں بھی اس بل کو مسترد کرتے ہوئے اس کے خلاف ووٹ دیا ہے۔
پی ٹی آئی کو این او سی مل گیا
اسلام آباد میں منعقد ہونے والا جلسہ 22 اگست کو ہونا تھا لیکن اسی روز اسلام آباد میں مذہبی جماعت کے اجتجاج کے پیش نظر انتظامیہ نے این او سی منسوخ کر دیا تھا اور تحریک انصاف نے بھی این او سی منسوخ ہونے پر عمران خان کی ہدایت پر جلسہ موخر کر دیا تھا۔ انتظامیہ کی طرف سے پی ٹی آئی کو اسی روز آٹھ ستمبر کو جلسہ کرنے کے لیے اجازت نامہ بھی جاری کر دیا گیا تھا۔
فیض حمید کی گرفتاری عمران خان کے لیے کتنا بڑا خطرہ؟
22 اگست کا جلسہ ملتوی ہونے کے بعد پی ٹی آئی کی قیادت میں اختلافات بھی سامنے آئے تھے اور اس بات پر حیرت کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ جلسہ منسوخی کے لیے عمران خان سے اجازت لینے کے لیے اعظم سواتی صبح سات بجے اڈیالہ جیل کیسے پہنچ گئے، جس کا پارٹی چئیرمین بیرسٹر گوہر کو بھی علم نہ تھا۔
انتظامیہ کی طرف سے، جو این او سی جاری کیا گیا ہے، وہ 41 مختلف شرائط کے ساتھ ہے، جس میں جلسہ کی اندرونی و بیرونی سکیورٹی کی ذمہ داری پی ٹی آئی کو دی گئی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شیخ وقاص اکرم کہتے ہیں کہ یہ جلسہ ہر حالت میں ہو گا اور اب اس بل کے پاس ہونے کے بعد اگر حکومت این او سی منسوخ بھی کر دے تو بھی جلسہ لازمی ہو گا۔ انہوں نے کہا، ''ہم قانون پر عمل کرنے والے شہری ہیں اور اب تک، جن شرائط کا انتظامیہ نے کہا ہے، ہم ان کی پابندی کریں گے۔‘‘
پاکستان مسلم لیگ(ن) کی رکن قومی اسمبلی زیب جعفر کہتی ہیں کہ اسلام آباد ملک کا دارالحکومت ہے، جہاں غیر ملکی سفارت کار اور اہم حکومتی دفاتر ہیں، '' آئے روز کے ہونے والے جلسوں کی وجہ سے اس شہر کا امن خراب ہو رہا ہے۔ ماضی میں جب جب پی ٹی آئی کے جلسے ہوئے تو پورے شہر میں امن عامہ کا مسئلہ ہوا، جلاؤ گھیراؤ کیا گیا، جس کی وجہ سے ملک کا تشخص پامال ہوا۔‘‘
دوسری جانب اس حوالے سے بات کرتے ہوئے پی ٹی آئی کی رکن قومی اسمبلی اور اہم رہنما شاندانہ گلزار خان نے کہا کہ تحریک انصاف اور عمران خان پرامن احتجاج پر یقین رکھتے ہیں جبکہ حکومت اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئی ہے۔
اسلام آباد میں پرامن اجتجاج و امن عامہ بل میں کیا ہے؟
سینیٹ و قومی اسمبلی سے پاس ہونے والے اس بل کے تحت ڈپٹی کمشنر اسلام آباد میں جلسے کی اجازت دے گا۔ اگر ڈپٹی کمشنر اجازت نہیں دیتا تو چیف کمشنر سے اجازت لی جا سکے گی۔ چیف کمشنر کے فیصلے کے خلاف سکریٹری داخلہ کے پاس نظرثانی درخواست دی جا سکے گی۔
حکومت اسلام آباد کے نواحی علاقے سنگجانی یا کسی بھی علاقے کو متعین کرے گی، جس کا باقاعدہ گزٹ نوٹی فیکیشن جاری کیا جائے گا۔ اسلام آباد میں کسی بھی اجتماع یا جلسے کے لیے کم از کم سات روز پہلے (ڈپٹی کمشنر) ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو درخواست دینا ہو گی۔ درخواست اس جلسے یا ان کا کوئی کوآرڈینیٹر تحریری صورت میں دے گا۔ جلسے کا مقام، شرکاء کی تعداد اور جلسے یا اس کا وقت اور مقاصد بتانا ہوں گے۔ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے پاس جلسے پر پابندی کا اختیار ہو گا۔
اس بل کو پیش کرنے والے مسلم لیگ(ن) کے رکن اسمبلی بیرسٹر دانیال چوہدری نے بل کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اس قانون کے بعد اب کوئی بھی جماعت اسلام آباد کو بند نہیں کر سکتی۔ ماضی میں ایسے اجتجاج کی وجہ سے ملک کو اقتصادی طور پر شدید نقصان پہنچا۔