کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ جدید دور میں نازی خیالات کے حامل افراد یا نئے نازی اپنے بچوں کی پرورش کیسے کرتے ہیں۔ اس موضوع پر ایک نئی دستاویزی فلم نے انتہائی دائیں بازو کے منظر نامے کے بہت سے حقائق کو بے نقاب کر دیا ہے۔
اشتہار
اس دستاویزی فلم کا نام ’چھوٹے گَیرمانن‘ ہے اور اس کے ذریعے یہ پتہ چلانے کی کاوش کی گئی ہے کہ نئے نازی افراد والدین کے طور پر اپنے بچوں کو ذہنی طور پر انتہا پسندانہ نظریات کا حامل کیسے بناتے ہیں۔ اندازہ ہے کہ نئے نازی والدین کی طرف سے ان کے بچوں کی اس طرح تربیت کا عمل جرمنی میں تقریباﹰ بیس ہزار بچوں کو متاثر کر رہا ہے۔
’چھوٹے گَیرمانن‘ یا انگریزی میں ’لِٹل جرمنز‘ نامی اس دستاویزی فلم کا نام ان خوفناک حقائق کی طرف کوئی اشارہ نہیں کرتا، جن سے اس فلم میں پردہ اٹھایا گیا ہے۔ یہ دستاویزی فلم جرمنی کے معروف فلم ساز فرانک گائگر اور محمد فاروق منش نے مل کر بنائی ہے۔ اس میں جرمنی میں انتہائی دائیں بازو کی جن شخصیات سے متعلق تفصیلات شامل کی گئی ہیں، ان میں معروف پبلشر، صحافی اور سیاسی کارکن گوئٹس کُوبِیچَیک اور انتہائی دائیں بازو کی جرمن سیاسی جماعت نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی (این پی ڈی) کی سابقہ خاتون سیاستدان زِیگرِیڈ شُسلر بھی شامل ہیں۔
اس فلم میں ان شخصیات کو ان کے بچپن کی خوابوں اور تعلیم سے متعلق مثالی تصورات کی وضاحت کے لیے کہا گیا اور فلم سازوں نے اس فلم میں اپنی طرف سے ان جرمن باشندوں کے جوابات پر نہ تو کوئی تبصرہ کیا ہے اور نہ ہی ان کے جوابات پر کوئی استدلال کیا ہے۔ لیکن انہی جوابات پر ان ماہرین کے تجزیاتی تبصرے بہرحال اس فلم کا حصہ ہیں، جو جرمنی میں دائیں بازو کی انتہا پسندی پر تحقیق کے ماہر ہیں اور ایسے تبصرے کرتے ہوئے ان ماہرین کو سکرین پر نہیں دکھایا گیا۔
کئی طرح کی تفصیلات
اس دستاویزی فلم میں ان انٹرویوز کے علاوہ یہ تفصیلات بھی دکھائی گئی ہیں کہ انتہائی دائیں بازو کے نظریات کے حامل افراد کے نابالغ بچے ایک یوتھ کیمپ میں اپنا وقت کس طرح کی مصروفیات میں گزارتے ہیں۔ ایک کہانی ایک ایسی عورت کی بھی ہے، جس کا نام ’اَیلزا‘ ہے۔ وہ اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتی، اس لیے اس کی شخصیت کی تفصیلات اینیمیشن کی صورت میں دکھائی گئی ہیں۔
انتہائی دائیں بازو کی سوچ کے حامل افراد کی ایک برادری میں بڑی ہونے والی یہ لڑکی اپنے ارد گرد کے سماجی ماحول سے فرار چاہتی تھی اور اس کی کہانی وہ سب حقائق واضح کر دیتی ہے کہ نئے نازی گھرانوں میں بچوں کی پرورش کس طرح کے حالات میں کی جاتی ہے۔
اس دستاویزی فلم کی جرمن سینما گھروں میں نمائش آج جمعرات نو مئی سے شروع ہو رہی ہے۔ ڈی ڈبلیو نے اس فلم کے فلم سازوں میں سے ایک فرانک گائگر کے ساتھ بات چیت کی:
ڈی ڈبلیو: آپ کو اس فلم میں نئے نازیوں کے بچوں کی پرورش کے طریقے پر توجہ دینے کا خیال کیسے آیا؟
فرانک گائگر: ہمیں یہ خیال اس بات کا پتہ چلنے کے بعد آیا کہ ایک لڑکی تھی، جو ذیابیطس کی مریضہ تھی لیکن اس کے والدین نہیں چاہتے تھے کہ وہ اس مرض کے خلاف انسولین استعمال کرے۔ پھر جب متعلقہ شہر کے نوجوانوں سے متعلقہ امور کے سرکاری دفتر سے رابطہ کیا گیا، تو یہ خاندان جرمنی کے ایک وفاقی صوبے سے دوسرے میں منتقل ہو گیا، صرف اس بات سے بچنے کے لیے کہ ان کی بیٹی کا والدین کی مرضی کے برعکس علاج نہ کیا جائے۔
ہم یہ جاننا چاہتے تھے کہ اس سوچ کے پیچھے کس طرح کی ذہنیت کارفرما ہے۔ تو پتہ یہ چلا کہ اس لڑکی کا خاندان انتہائی دائیں بازو کی سوچ پر پختہ یقین رکھنے والا ایک ایسا گھرانہ تھا، جو نسلوں سے اپنی اسی روایتی سوچ پر عمل پیرا تھا۔
نیو نازی گروپ کی جانب سے قتل کے واقعات کی تحقیقات
تصویر: picture-alliance/dpa
قاتل برسوں حکام کی نظروں سے اوجھل رہے
’نیشنل سوشلسٹ انڈر گراؤنڈ‘ گروپ ’این ایس یو‘ کے ارکان کئی سالوں تک جرمنی میں لوگوں کو قتل کرتے رہے ہیں۔ ان واقعات میں مبینہ طور پر اووے منڈلوس، اووے بوئنہارڈ اور بیاٹے چَیپے ملوث رہے۔ ان تینوں پر الزام ہے کہ انہوں نے آٹھ ترک نژاد، ایک یونانی نژاد اور ایک خاتون پولیس اہلکار کو غیر ملکیوں سے نفرت کی وجہ سے قتل کیا تھا۔ 2011ء تک یہ افراد حکومت کی نظروں سے اوجھل رہنے میں کامیاب رہے۔
تصویر: privat/dapd
بینک ڈکیتی کا ناکام واقعہ
دائیں بازو کے دہشت گرد گروپ کا سراغ نومبر 2011ء پر لگا تھا۔ اس روز اووے منڈلوس اور اووے بوئنہارڈ نے ایک بینک لوٹا تھا۔ یہ ان کی پہلی ناکام کارروائی تھی۔ پولیس اس گاڑی تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی تھی، جس پر یہ دونوں فرار ہوئے تھے۔ تفتیش کے مطابق ان دونوں نے گاڑی کو نذر آتش کرنے کے بعد خود کشی کر لی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
بیاٹے چَیپے نے خود کو حکام کے حوالے کر دیا
چیپے، اووے منڈلوس اور اووے بوئنہارڈ مشرقی جرمن شہر سویکاؤ میں رہائش پذیر تھے۔ خود کشی کے واقعے کے بعد اس گھر میں دھماکہ ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ ثبوت مٹانے کے لیے انہوں نے گھر کو آگ لگائی تھی۔ چار روز بعد چیپے نے خود کو پولیس کے حوالے کر دیا تھا۔ اس کے بعد سے یہ مشتبہ خاتون دہشت گرد حراست میں ہے۔
تصویر: Getty Images
قتل کے واقعات سے پردہ اٹھا
سویکاؤ کے گھر کی راکھ سے حکام کو ایسا مواد حاصل ہوا، جس سے ’نیشنل سوشلسٹ انڈر گراؤنڈ‘ نامی اس دہشت گرد گروپ کے بارے میں پتہ چلا۔ یہ ایک 15 منٹ طویل ویڈیو تھی۔ اس میں 2000ء اور 2007ء کے درمیان ان تینوں کی جانب سے کیے جانے والے حملوں کے مقامات اور نشانہ بننے والے افراد کو دیکھا جا سکتا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
’این ایس یو‘ کا اعترافِ جرم
شوقیہ طور پر بنائی جانے والی ایک ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ مشہور کارٹون کیریکٹر ’پنک پینتھر‘ غیر ملکیوں کے خلاف نفرت کا پیغام دے رہا ہے۔ اپنی گرفتاری سے قبل بیاٹے چیپے نے اس ویڈیو کی کاپیاں تقسیم بھی کی تھیں
تصویر: dapd
2011ء کا ناپسندید ترین لفظ ’ Dönermorde ‘
جرمنی میں ڈونر ایک مرغوب غذا ہے اور اس کا تعلق ترکی سے جوڑا جاتا ہے۔ 2011ء تک ذرائع ابلاغ کے کئی اداروں کی جانب سے ان واقعات کو Dönermorde یا ڈونر قتل کہا جاتا رہا۔ حالانکہ تب تک ان واقعات کا پس منظر اور مقاصد واضح نہیں تھے۔ یہ افواہیں تھیں کہ شاید مقتولین کا تعلق کسی منشیات فروش گروہ سے ہو۔ حقیقت منظر عام پر آنے کے بعد Dönermorde سال کا ناپسندیدہ ترین لفظ قرار دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
آہنی کیلوں سے بھرے بم کا حملہ
جون 2004ء میں کولون شہر میں ایک بم حملہ کیا گیا، جس میں آہنی کیلیں استعمال کی گئی تھیں۔ اس واقعے میں 22 افراد زخمی ہوئے تھے۔ اسی سال جون میں اس وقت کے جرمن وزیر داخلہ اوٹو شلی نے کہا تھا، ’’سلامتی کے اداروں کی اب تک کی تحقیقات کے مطابق یہ کوئی دہشت گردی نہیں بلکہ جرائم پیشہ گروہوں کی ایک کارروائی تھی حالانکہ اس واقعے کے پیچھے بھی نازی انڈر گراؤنڈ گروپ کا ہی ہاتھ تھا۔
تصویر: picture alliance/dpa
برلن میں مقتولین کے لیے دعائیہ تقریب
23 فروری 2012ء کو جرمن دارالحکومت برلن میں ایک خصوصی تقریب میں نازی گروپ کے ہاتھوں قتل ہونے والے افراد کی یاد تازہ کی گئی۔ اس تقریب میں ترکی سے تعلق رکھنے والے پھول فروش مرحوم انور سمسیک کی بیٹی سیمیہ سمسیک کی جذباتی تقریر نے سب کو غمزدہ کر دیا تھا۔ اس موقع پر جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے نیو نازی گروپ کی جانب سے کی جانے والی قتل کی وارداتوں سے متاثر ہونے والے خاندانوں سے معذرت کی تھی۔
تصویر: Bundesregierung/Kugler
متاثرہ خاندانوں سے یکجہتی کا اظہار
چار نومبر 2011ء کو اس گروپ کے بے نقاب ہونے کے ٹھیک ایک سال بعد جرمنی کے متعدد شہروں میں دائیں بازو کی انتہا پسندی اور ان کا شکار ہونے والے افراد کے خاندانوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا گیا۔ اس موقع پر منقعد ہونے والی تقریبات میں ان واقعات کی مکمل تفتیش اور حقائق کو منظر عام پر لانے کا مطالبہ کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
تفتیش میں بد انتظامی
نیو نازی انڈر گراؤنڈ گروپ کے معاملے میں حکام اور ادارے بری طرح ناکام رہے۔ اس حوالے سے اہم فائلیں تلف کرنے کا واقعہ سامنے آیا۔ اطلاعات کے مطابق آئینی تحفظ کے جرمن ادارے نے نيشنل سوشلسٹ يا نازی انڈر گراؤنڈ گروپ کا راز فاش ہونے کے بعد اُن کی فائلوں کو مبینہ طور پر تلف کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔ اس کے بعد اس محکمے کے سربراہ ہائنز فروم نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
تصویر: Getty Images
مہمت کوباسک کی یادگار
ڈورٹمنڈ شہر کے میئر اولرش زیراؤ کے بقول ’ڈورٹمنڈ کا شمار جرمنی کے کثیر الثقافتی شہروں میں ہوتا ہے۔ یہاں دائیں بازو کی انتہا پسندی کی مخالفت بھی کھل کر کی جاتی ہے‘۔ یہ بات انہوں نے نازی گروپ کے ہاتھوں قتل ہونے والے مہمت کوباسک کی یادگار کا افتتاح کرتے ہوئے کہی۔ یہ یادگار مہمت کی اس دکان کے بہت ہی قریب قائم کی گئی ہے، جہاں چار اپریل 2006ء کو انہیں قتل کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مقدمے کی کارروائی اور صحافیوں کی مشکلات
اس مقدمے کی کارروائی کے حوالے سے ایک تنازعہ اس وقت کھڑا ہوا، جب عدالتی کمرے میں غیر ملکی صحافیوں کو کوئی نشست نہیں مل سکی تھی۔ یہ کارروائی 17 اپریل کو شروع ہونا تھی تاہم عدالت نے صحافیوں اور ذرائع ابلاغ کے اداروں سے کہا کہ وہ ایک مرتبہ پھر سماعت کے دوران کمرے میں بیٹھنے کی اجازت حاصل کرنے کے لیے درخواست دیں۔ ان معاملات کا تصفیہ ہو جانے کے بعد چھ مئی سے اس مقدمے کی سماعت شروع ہو گئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
12 تصاویر1 | 12
یہ خاندان جدید طب اور اس کی سہولیات کو ’یہودیوں کا پیدا کردہ طریقہ علاج‘ قرار دے کر اسے مسترد کرتا تھا۔ یہ خاندان ’نیو جرمن میڈیسن‘ کہلانے والے اس طریقہ علاج پر یقین رکھتا تھا، جو رائک گیئرڈ ہامر نامی شخص نے تیار کیا تھا۔ (اس نقلی طریقہ علاج کے بانی کو کئی افراد کی موت کے بعد لمبی مدت کی سزائے قید سنا دی گئی تھی اور اس کا 2017ء میں انتقال ہو گیا تھا۔)
اس خاندان کے کئی بچے تھے، نئے نازیوں کی ذہنیت کے عین مطابق، سات بچے تو عام سی بات ہے۔ تو ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ اس گھرانے کے بچوں میں سے کتنوں کی پرورش والدین کے نظریات کے عین مطابق کی جا رہی تھی۔ ہمیں جو جواب ملا، وہ پریشان کن تھا۔
ڈی ڈبلیو: تو ایسے بچوں کی تعداد کتنی تھی؟
فرانک گائگر: ہم نے اس فلم میں یہ تعداد جان بوجھ کر نہیں بتائی۔ اس لیے کہ ہم چاہتے تھے کہ دیگر متاثرہ خاندان اور ان کے بچے بھی خود کو سامنے لائیں۔ لیکن ہمارا خیال ہے کہ ایسے بچوں کی تعداد 20 ہزار تک ہے، جو عرف عام میں اس ’قومی‘ تحریک کا حصہ ہیں۔ ہمیں یہ تعداد ’ایگزٹ، ڈوئچ لینڈ‘ نامی اس غیر سرکاری تنظیم کے ذریعے پتہ چلی، جو ایسے لوگوں کی مدد کرتی ہے، جو جرمنی میں انتہائی دائیں بازو کے منظر نامے سے نکل کر معمول کی سماجی جمہوری زندگی گزارنا چاہتے ہیں اور جس کے اپنی سوچ ترک کر دینے والے کئی سابقہ نئے نازیوں کے ساتھ بھی قریبی روابط ہیں۔
کیمنِٹس کے انتہائی دائیں بازو اور نازی سیلیوٹ کرتا بھیڑیا
جرمنی میں کئی مقامات پر تانبے سے بنے بھیڑیے کے ایسے مجسمے نصب کیے گئے ہیں جو نازی دور کے سیلیوٹ کے حامل ہیں۔ اب ان مجسموں کو مشرقی شہر کیمنٹس میں بھی نصب کیا گیا ہے، جہاں ان دنوں اجانب دشمنی کی وجہ سے خوف پایا جا رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
’بھیڑیوں کی واپسی‘
جرمنی میں تانبے کے 66 مجسموں کی ایک سیریز تخلیق کی گئی، یہ نازی سیلیوٹ کا انداز بھی اپنائے ہوئے ہیں، یہ جرمنی میں ممنوع ہے۔ مجسمہ ساز رائنر اوپولکا کے بقول یہ تخلیق نسل پرستی کے خطرے کی علامت ہے۔ تاہم انتہائی دائیں بازو کے نظریات کے ہمدرد خود کو بھیڑیے سے تشبیہ دینے لگے ہیں۔ مہاجرت مخالف AFD کے رہنما ہوئکے نے کہا ہے کہ ہٹلر کے پراپیگنڈا وزیر گوئبلز نے 1928ء میں بھیڑیے کی اصطلاح استعمال کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
کیمنٹس میں دس بھیڑیے
فنکار رائنر اوپولکا نے اپنے یہ مجسمے ایسے مقامات پر لگائے ہیں جہاں اجانب دشمنی اور نسل پرستانہ رویے پائے جاتے ہیں۔ ان کو ڈریسڈن میں پیگیڈا تحریک کی ریلیوں کے دوران نصب کیا گیا تھا۔ میونخ کی عدالت کے باہر بھی یہ مجسمے اُس وقت نصب کیے گئے تھے جب انتہائی دائیں بازو کی خاتون بیاٹے شاپے کو قتل کے جرم میں سزا سنائی گئی تھی۔ شاپے نیو نازی گروپ این ایس یو کے دہشت گردانہ سیل کی رکن تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
انتہائی دائیں بازو کے بھیڑیے
کیمنٹس شہر میں گزشتہ جمعے کو انتہائی دائیں بازو کی ایک نئی ریلی کا انتظام کارل مارکس کے مجسمے اور تانبے کے بھیڑیے کے سامنے کیا گیا۔ اس ریلی میں انتہائی دائیں بازو کے کارکنوں نے بھیڑیے کے پہناوے میں جارح رویہ اپنا رکھا تھا اور بعض نے آنکھوں کو چھپا رکھا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
’کیمنٹس میں جرأت ہے‘
رواں برس ماہِ ستمبر کے اوائل میں انتہائی دائیں بازو کی ریلیوں کی وجہ سے کیمنٹس کے تشخص پر انگلیاں بھی اٹھیں۔ اس دوران مرکزِ شہر میں نسل پرستی اور قوم پرستی کی مذمت کے جہاں بینر لگائے گئے وہاں ایک بڑے میوزیکل کنسرٹ کا اہتمام بھی کیا گیا۔ اس کنسرٹ میں 65 ہزار افراد نے شرکت کر کے واضح کیا کہ اُن کی تعداد دائیں بازو کے قوم پرستوں سے زیادہ ہے۔
تصویر: Reuters/T. Schle
شہر کے تشخص پر نشان
کیمنِٹس کی شہری انتظامیہ نے انتہائی دائیں بازو کی ریلیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان سے فاصلہ اختیار کر رکھا ہے۔ سٹی ایڈمنسٹریشن کے کئی اہلکاروں کے مطابق انتہائی دائیں بازو کی ریلیوں سے کیمنِٹس کا تشخص مستقلاً مسخ ہو سکتا ہے۔ شہری انتظامیہ نے مطالبہ کیا ہے کہ ایسے انتہا پسندوں کے خلاف عدالتی عمل کو سرعت کے ساتھ مکمل کیا جائے جنہوں نے نفرت کو فروغ دے کر تشدد اور مظاہروں کو ہوا دی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
5 تصاویر1 | 5
جہاں تک ایلزا کا تعلق ہے تو یہ جرمن لڑکی، جو اب ایک نوجوان عورت ہے، بچپن سے ہی اپنے ذہن میں انتہائی دائیں بازو کے نظریات بٹھائے جانے کے باوجود اپنے لیے ایک نیا راستہ تلاش کرنے میں کامیاب رہی۔
ڈی ڈبلیو: آپ نے اس دستاویزی فلم میں بار بار اس پہلو پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے کہ نئے نازی اپنے بچوں کی پرورش کیسے کرتے ہیں، کس لیے؟
فرانک گائگر: اس لیے کہ ہمارے لیے یہ وضاحت کرنا بہت ضروری تھا کہ نئے نازی اپنے اپنے گھرانوں میں ایک ’وطن‘ کے طور پر جرمنی کے اس تصور کو کس طرح زندہ رکھنا چاہتے ہیں، جو انہوں نے اپنے والدین سے سیکھا تھا۔ اسی لیے وہ اپنے بچوں کو بھی اپنے طور پر ایک ایسے بچپن کو موقع ہر حال میں دینا چاہتے ہیں، جو ان کے نزدیک ’محفوظ بچپن‘ ہوتا ہے۔
ایک اور بات جو اس فلم کے نتیجے میں دیکھنے میں آئی، وہ یہ تھی کہ ’لٹل جرمنز‘ میں جتنے بھی کیسز کا مطالعہ کیا گیا، ان سب گھرانوں میں خاندان کا سربراہ والد ہی ہوتا ہے، جو ایک بہت مضبوط اور حکم دینے والی شخصیت کا مالک ہوتا ہے اور جس کی عمومی سوچ یہ بھی ہوتی ہے کہ جذبات کچھ نہیں ہوتے اور واحد قابل قبول جذبہ صرف ملک یا ’وطن‘ سے محبت کا جذبہ ہوتا ہے۔
نازی جرمنی: ہٹلر دورِ حکومت کے چوٹی کے قائدین
جرمن نیشنل سوشلسٹ ورکرز پارٹی نے اپنے نظریات، پراپیگنڈے اور جرائم کے ساتھ بیس ویں صدی کی عالمی تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ آئیے دیکھیں کہ اس تحریک میں کلیدی اہمیت کے حامل رہنما کون کون سے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جوزیف گوئبلز (1897-1945)
ہٹلر کے پراپیگنڈا منسٹر کے طور پر نازی سوشلسٹوں کا پیغام ’تھرڈ رائش‘ کے ہر شہری تک پہنچانا ایک کٹر سامی دشمن گوئبلز کی سب سے بڑی ذمہ داری تھی۔ گوئبلز نے پریس کی آزادی پر قدغنیں لگائیں، ہر طرح کے ذرائع ابلاغ، فنون اور معلومات پر حکومتی کنٹرول سخت کر دیا اور ہٹلر کو ’ٹوٹل وار‘ یا ’مکمل جنگ‘ پر اُکسایا۔ گوئبلز نے 1945ء میں اپنے چھ بچوں کو زہر دینے کے بعد اپنی اہلیہ سمیت خود کُشی کر لی تھی۔
تصویر: picture-alliance/Everett Collection
اڈولف ہٹلر (1889-1945)
1933ء میں بطور چانسلر برسرِاقتدار آنے سے پہلے ہی جرمن نیشنل سوشلسٹ ورکرز پارٹی (نازی) کے قائد کے ہاں سامی دشمن، کمیونسٹ مخالف اور نسل پرستانہ نظریات ترویج پا چکے تھے۔ ہٹلر نے جرمنی کو ایک آمرانہ ریاست میں بدلنے کے لیے سیاسی ادارے کمزور کیے، 1939ء تا 1945ء جرمنی کو دوسری عالمی جنگ میں جھونکا، یہودیوں کے قتلِ عام کے عمل کی نگرانی کی اور اپریل 1945ء میں خود کُشی کر لی۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
ہائنرش ہِملر (1900-1945)
نازیوں کے نیم فوجی دستے ایس ایس (شُٹس شٹافل) کے سربراہ ہِملر نازی جماعت کے اُن ارکان میں سے ایک تھے، جو براہِ راست ہولوکوسٹ (یہودیوں کے قتلِ عام) کے ذمہ دار تھے۔ پولیس کے سربراہ اور وزیر داخلہ کے طور پر بھی ہِملر نے ’تھرڈ رائش‘ کی تمام سکیورٹی فورسز کو کنٹرول کیا۔ ہِملر نے اُن تمام اذیتی کیمپوں کی تعمیر اور آپریشنز کی نگرانی کی، جہاں چھ ملین سے زائد یہودیوں کو موت کے گھاٹ اُتارا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
روڈولف ہَیس (1894-1987)
ہَیس 1920ء میں نازی جماعت میں شامل ہوئے اور 1923ء کی اُس ’بیئر ہال بغاوت‘ میں بھی حصہ لیا، جسے اقتدار اپنے ہاتھوں میں لینے کے لیے نازیوں کی ایک ناکام کوشش کہا جاتا ہے۔ جیل کے دنوں میں ہَیس نے ’مائن کامپف‘ لکھنے میں ہٹلر کی معاونت کی۔ 1941ء میں ہَیس کو ایک امن مشن پر سکاٹ لینڈ جانے پر گرفتار کر لیا گیا، جنگ ختم ہونے پر 1946ء میں عمر قید کی سزا سنائی گئی اور جیل ہی میں ہَیس کا انتقال ہوا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اڈولف آئش مان (1906-1962)
آئش مان کو بھی یہودیوں کے قتلِ عام کا ایک بڑا منتظم کہا جاتا ہے۔ ’ایس ایس‘ دستے کے لیفٹیننٹ کرنل کے طور پر آئش مان نے بڑے پیمانے پر یہودیوں کو مشرقی یورپ کے نازی اذیتی کیمپوں میں بھیجنے کے عمل کی نگرانی کی۔ جرمنی کی شکست کے بعد آئش مان نے فرار ہو کر پہلے آسٹریا اور پھر ارجنٹائن کا رُخ کیا، جہاں سے اسرائیلی خفیہ ادارے موساد نے انہیں پکڑا، مقدمہ چلا اور 1962ء میں آئش مان کو پھانسی دے دی گئی۔
تصویر: AP/dapd
ہیرمان گوئرنگ (1893-1946)
ناکام ’بیئر ہال بغاوت‘ میں شریک گوئرنگ نازیوں کے برسرِاقتدار آنے کے بعد جرمنی میں دوسرے طاقتور ترین شخص تھے۔ گوئرنگ نے خفیہ ریاستی پولیس گسٹاپو کی بنیاد رکھی اور ہٹلر کی جانب سے زیادہ سے زیادہ نا پسند کیے جانے کے باوجود جنگ کے اختتام تک ملکی فضائیہ کی کمان کی۔ نیورمبرگ مقدمات میں گوئرنگ کو سزائے موت سنائی گئی، جس پر عملدرآمد سے ایک رات پہلے گوئرنگ نے خود کُشی کر لی۔