نئے نازی پراپرٹی نہ خریدیں، پانچ مشرقی جرمن صوبے مل کر سرگرم
29 ستمبر 2020
جرمنی کے پانچ مشرقی صوبے مل کر نئے نازیوں کو املاک خریدنے اور میوزک کنسرٹس کرنے سے روکنے کی کوشش میں ہیں۔ اس سوچ کے تحت یہ پانچوں صوبے ایسی املاک خود خریدنے لگے ہیں، جنہیں انتہائی دائیں بازو کے نئے نازی خرید سکتے ہیں۔
اشتہار
جرمنی کے وفاقی صوبوں کی موجودہ تعداد 16 ہے۔ تیس برس قبل ماضی کی دونوں حریف جرمن ریاستوں (مغربی حصے کی وفاقی جمہوریہ جرمنی اور مشرقی حصے کی جرمن ڈیموکریٹک ریپبلک) کے دوبارہ اتحاد کے ساتھ جغرافیائی طور پر موجودہ متحدہ جرمنی کی جو وفاقی ریاست وجود میں آئی تھی، وہ یورپی یونین کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست بھی ہے۔
اشتہار
مشرقی صوبوں کی تعداد پانچ
اکتوبر 1990ء میں سابقہ مشرقی جرمن ریاست کے وفاقی جمہوریہ جرمنی میں شامل ہونے والے حصے نئے مشرقی صوبے کہلاتے ہیں، جن کی تعداد پانچ ہے اور جہاں آج بھی بے روزگاری پرانے مغربی صوبوں کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہے اور دائیں بازو کی انتہا پسندانہ سوچ بھی۔
ان پانچوں مشرقی ریاستوں میں انتہائی دائیں بازو کی سوچ کے حامل نئے نازیوں نے اپنے کئی گروپ قائم کر رکھے ہیں اور وہ وقفے وقفے سے اپنے نیو نازی روک میوزک کنسرٹ بھی منعقد کرتے ہیں۔ ان صوبوں کی حکومتوں نے اب مل کر ایسی کوششیں شروع کر دی ہیں، جن کے تحت نئے نازیوں کو ریئل اسٹیٹ خریدنے یا کرائے پر لینے اور میوزک کنسرٹس کے انعقاد سے روکنے کی کوشش کی جا ئے گی۔
'نیو نازی سوچ صوبائی سرحدوں پر ختم نہیں ہو جاتی‘
جرمنی کی ان پانچوں مشرقی ریاستوں کے وزرائے داخلہ نے پیر 28 ستمبر کو مل کر یہ عہد کیا کہ وہ اپنے ہاں غیر منقولہ املاک کی منڈی پر نظر رکھیں گی تاکہ نئے نازی گروہ اور تنظیمیں پراپرٹی مارکیٹ میں اپنے قدم نہ جما سکیں اور انہیں انتہائی دائیں بازو کے نیٹ ورک پھیلانے سے بھی روکا جا سکے۔ اس سلسلے میں ان جرمن صوبوں نے مل کر قبل از وقت انتباہ کرنے والا ایک انتظامی نظام قائم کرنے پر بھی اتفاق کیا۔
وفاقی صوبے تھیورنگیا کے وزیر داخلہ گیورگ مائر نے کہا، ''دائیں بازو کی انتہا پسندانہ سوچ صوبائی سرحدوں پر ختم نہیں ہو جاتی۔ اس لیے تمام مشرقی صوبوں کو آپس میں معلومات کے زیادہ بہتر تبادلے کی ضرورت ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ کرائے پر دی جانے والی املاک کے مالکان کی بھی حوصلہ افزائی کی جائے گی کہ وہ اپنی پراپرٹی کرائے پر دیتے وقت اس بات پر بھی گہرا غور کیا کریں کہ ان کے ممکنہ کرائے دار کس طرح کی سوچ کے حامل ہیں۔
گیورگ مائر کے مطابق، ''جب کوئی ریئل اسٹیٹ دائیں بازو کے انتہا پسندوں کے ہاتھ آ جاتی ہے، تو ان کے گروہی ڈھانچے مضبوط ہونا شروع اور نیٹ ورک قائم ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔‘‘
نئے نازیوں کا دہشت گرد گروپ
سن 2011ء میں جرمنی کو اس وقت بڑا دھچکا لگا تھا جب یہ انکشاف ہوا تھا کہ نئے نازیوں کا نیشنل سوشلسٹ انڈر گراؤنڈ (NSU) نامی ایک دہشت گرد گروہ دس افراد کے نسل پرستانہ قتل کا مرتکب ہوا تھا۔
اہم بات یہ کہ اس گروہ کے تین مرکزی ارکان نے مشرقی جرمن صوبے سیکسنی کے شہر خیمنِٹس سے سماجی طور پر بالکل الگ تھلگ رہتے ہوئے اپنی کارروائیاں مربوط کی تھیں۔
رائش بُرگر کون ہیں؟
مشرقی جرمن صوبے سیکسنی انہالٹ کے وزیر داخلہ ہولگر شٹاہل کنیشت کے مطابق انتہائی دائیں بازو کے شدت پسندوں کے 'رائش بُرگر‘ کہلانے والے گروپ کے ارکان کو بھی نئے علاقوں میں قدم جمانے سے روکنے کی ضرورت ہے۔
کیمنِٹس کے انتہائی دائیں بازو اور نازی سیلیوٹ کرتا بھیڑیا
جرمنی میں کئی مقامات پر تانبے سے بنے بھیڑیے کے ایسے مجسمے نصب کیے گئے ہیں جو نازی دور کے سیلیوٹ کے حامل ہیں۔ اب ان مجسموں کو مشرقی شہر کیمنٹس میں بھی نصب کیا گیا ہے، جہاں ان دنوں اجانب دشمنی کی وجہ سے خوف پایا جا رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
’بھیڑیوں کی واپسی‘
جرمنی میں تانبے کے 66 مجسموں کی ایک سیریز تخلیق کی گئی، یہ نازی سیلیوٹ کا انداز بھی اپنائے ہوئے ہیں، یہ جرمنی میں ممنوع ہے۔ مجسمہ ساز رائنر اوپولکا کے بقول یہ تخلیق نسل پرستی کے خطرے کی علامت ہے۔ تاہم انتہائی دائیں بازو کے نظریات کے ہمدرد خود کو بھیڑیے سے تشبیہ دینے لگے ہیں۔ مہاجرت مخالف AFD کے رہنما ہوئکے نے کہا ہے کہ ہٹلر کے پراپیگنڈا وزیر گوئبلز نے 1928ء میں بھیڑیے کی اصطلاح استعمال کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
کیمنٹس میں دس بھیڑیے
فنکار رائنر اوپولکا نے اپنے یہ مجسمے ایسے مقامات پر لگائے ہیں جہاں اجانب دشمنی اور نسل پرستانہ رویے پائے جاتے ہیں۔ ان کو ڈریسڈن میں پیگیڈا تحریک کی ریلیوں کے دوران نصب کیا گیا تھا۔ میونخ کی عدالت کے باہر بھی یہ مجسمے اُس وقت نصب کیے گئے تھے جب انتہائی دائیں بازو کی خاتون بیاٹے شاپے کو قتل کے جرم میں سزا سنائی گئی تھی۔ شاپے نیو نازی گروپ این ایس یو کے دہشت گردانہ سیل کی رکن تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
انتہائی دائیں بازو کے بھیڑیے
کیمنٹس شہر میں گزشتہ جمعے کو انتہائی دائیں بازو کی ایک نئی ریلی کا انتظام کارل مارکس کے مجسمے اور تانبے کے بھیڑیے کے سامنے کیا گیا۔ اس ریلی میں انتہائی دائیں بازو کے کارکنوں نے بھیڑیے کے پہناوے میں جارح رویہ اپنا رکھا تھا اور بعض نے آنکھوں کو چھپا رکھا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
’کیمنٹس میں جرأت ہے‘
رواں برس ماہِ ستمبر کے اوائل میں انتہائی دائیں بازو کی ریلیوں کی وجہ سے کیمنٹس کے تشخص پر انگلیاں بھی اٹھیں۔ اس دوران مرکزِ شہر میں نسل پرستی اور قوم پرستی کی مذمت کے جہاں بینر لگائے گئے وہاں ایک بڑے میوزیکل کنسرٹ کا اہتمام بھی کیا گیا۔ اس کنسرٹ میں 65 ہزار افراد نے شرکت کر کے واضح کیا کہ اُن کی تعداد دائیں بازو کے قوم پرستوں سے زیادہ ہے۔
تصویر: Reuters/T. Schle
شہر کے تشخص پر نشان
کیمنِٹس کی شہری انتظامیہ نے انتہائی دائیں بازو کی ریلیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان سے فاصلہ اختیار کر رکھا ہے۔ سٹی ایڈمنسٹریشن کے کئی اہلکاروں کے مطابق انتہائی دائیں بازو کی ریلیوں سے کیمنِٹس کا تشخص مستقلاً مسخ ہو سکتا ہے۔ شہری انتظامیہ نے مطالبہ کیا ہے کہ ایسے انتہا پسندوں کے خلاف عدالتی عمل کو سرعت کے ساتھ مکمل کیا جائے جنہوں نے نفرت کو فروغ دے کر تشدد اور مظاہروں کو ہوا دی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
5 تصاویر1 | 5
اس گروہ کے ارکان اپنی سوچ میں موجودہ وفاقی جرمن ریاست اور اس کی حکومت کے عوام کا حقیقی نمائندہ ہونے کو تسلیم نہیں کرتے۔ یہ نئے نازی دعویٰ کرتے ہیں کہ جرمنی کی ریاستی سرحدیں آج بھی وہی ہیں، جو 1937ء میں تھیں۔
جرمنی میں تحفط آئین کا وفاقی دفتر کہلانے والی داخلی انٹیلیجنس ایجنسی کے مطابق انتہائی دائیں بازو کے نئے نازیوں نے گزشتہ برس صرف صوبے سیکسنی میں ہی خرید کر یا کرائے پر لے کر 27 املاک کا کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔
نیو نازی گروپ کی جانب سے قتل کے واقعات کی تحقیقات
تصویر: picture-alliance/dpa
قاتل برسوں حکام کی نظروں سے اوجھل رہے
’نیشنل سوشلسٹ انڈر گراؤنڈ‘ گروپ ’این ایس یو‘ کے ارکان کئی سالوں تک جرمنی میں لوگوں کو قتل کرتے رہے ہیں۔ ان واقعات میں مبینہ طور پر اووے منڈلوس، اووے بوئنہارڈ اور بیاٹے چَیپے ملوث رہے۔ ان تینوں پر الزام ہے کہ انہوں نے آٹھ ترک نژاد، ایک یونانی نژاد اور ایک خاتون پولیس اہلکار کو غیر ملکیوں سے نفرت کی وجہ سے قتل کیا تھا۔ 2011ء تک یہ افراد حکومت کی نظروں سے اوجھل رہنے میں کامیاب رہے۔
تصویر: privat/dapd
بینک ڈکیتی کا ناکام واقعہ
دائیں بازو کے دہشت گرد گروپ کا سراغ نومبر 2011ء پر لگا تھا۔ اس روز اووے منڈلوس اور اووے بوئنہارڈ نے ایک بینک لوٹا تھا۔ یہ ان کی پہلی ناکام کارروائی تھی۔ پولیس اس گاڑی تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی تھی، جس پر یہ دونوں فرار ہوئے تھے۔ تفتیش کے مطابق ان دونوں نے گاڑی کو نذر آتش کرنے کے بعد خود کشی کر لی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
بیاٹے چَیپے نے خود کو حکام کے حوالے کر دیا
چیپے، اووے منڈلوس اور اووے بوئنہارڈ مشرقی جرمن شہر سویکاؤ میں رہائش پذیر تھے۔ خود کشی کے واقعے کے بعد اس گھر میں دھماکہ ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ ثبوت مٹانے کے لیے انہوں نے گھر کو آگ لگائی تھی۔ چار روز بعد چیپے نے خود کو پولیس کے حوالے کر دیا تھا۔ اس کے بعد سے یہ مشتبہ خاتون دہشت گرد حراست میں ہے۔
تصویر: Getty Images
قتل کے واقعات سے پردہ اٹھا
سویکاؤ کے گھر کی راکھ سے حکام کو ایسا مواد حاصل ہوا، جس سے ’نیشنل سوشلسٹ انڈر گراؤنڈ‘ نامی اس دہشت گرد گروپ کے بارے میں پتہ چلا۔ یہ ایک 15 منٹ طویل ویڈیو تھی۔ اس میں 2000ء اور 2007ء کے درمیان ان تینوں کی جانب سے کیے جانے والے حملوں کے مقامات اور نشانہ بننے والے افراد کو دیکھا جا سکتا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
’این ایس یو‘ کا اعترافِ جرم
شوقیہ طور پر بنائی جانے والی ایک ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ مشہور کارٹون کیریکٹر ’پنک پینتھر‘ غیر ملکیوں کے خلاف نفرت کا پیغام دے رہا ہے۔ اپنی گرفتاری سے قبل بیاٹے چیپے نے اس ویڈیو کی کاپیاں تقسیم بھی کی تھیں
تصویر: dapd
2011ء کا ناپسندید ترین لفظ ’ Dönermorde ‘
جرمنی میں ڈونر ایک مرغوب غذا ہے اور اس کا تعلق ترکی سے جوڑا جاتا ہے۔ 2011ء تک ذرائع ابلاغ کے کئی اداروں کی جانب سے ان واقعات کو Dönermorde یا ڈونر قتل کہا جاتا رہا۔ حالانکہ تب تک ان واقعات کا پس منظر اور مقاصد واضح نہیں تھے۔ یہ افواہیں تھیں کہ شاید مقتولین کا تعلق کسی منشیات فروش گروہ سے ہو۔ حقیقت منظر عام پر آنے کے بعد Dönermorde سال کا ناپسندیدہ ترین لفظ قرار دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
آہنی کیلوں سے بھرے بم کا حملہ
جون 2004ء میں کولون شہر میں ایک بم حملہ کیا گیا، جس میں آہنی کیلیں استعمال کی گئی تھیں۔ اس واقعے میں 22 افراد زخمی ہوئے تھے۔ اسی سال جون میں اس وقت کے جرمن وزیر داخلہ اوٹو شلی نے کہا تھا، ’’سلامتی کے اداروں کی اب تک کی تحقیقات کے مطابق یہ کوئی دہشت گردی نہیں بلکہ جرائم پیشہ گروہوں کی ایک کارروائی تھی حالانکہ اس واقعے کے پیچھے بھی نازی انڈر گراؤنڈ گروپ کا ہی ہاتھ تھا۔
تصویر: picture alliance/dpa
برلن میں مقتولین کے لیے دعائیہ تقریب
23 فروری 2012ء کو جرمن دارالحکومت برلن میں ایک خصوصی تقریب میں نازی گروپ کے ہاتھوں قتل ہونے والے افراد کی یاد تازہ کی گئی۔ اس تقریب میں ترکی سے تعلق رکھنے والے پھول فروش مرحوم انور سمسیک کی بیٹی سیمیہ سمسیک کی جذباتی تقریر نے سب کو غمزدہ کر دیا تھا۔ اس موقع پر جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے نیو نازی گروپ کی جانب سے کی جانے والی قتل کی وارداتوں سے متاثر ہونے والے خاندانوں سے معذرت کی تھی۔
تصویر: Bundesregierung/Kugler
متاثرہ خاندانوں سے یکجہتی کا اظہار
چار نومبر 2011ء کو اس گروپ کے بے نقاب ہونے کے ٹھیک ایک سال بعد جرمنی کے متعدد شہروں میں دائیں بازو کی انتہا پسندی اور ان کا شکار ہونے والے افراد کے خاندانوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا گیا۔ اس موقع پر منقعد ہونے والی تقریبات میں ان واقعات کی مکمل تفتیش اور حقائق کو منظر عام پر لانے کا مطالبہ کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
تفتیش میں بد انتظامی
نیو نازی انڈر گراؤنڈ گروپ کے معاملے میں حکام اور ادارے بری طرح ناکام رہے۔ اس حوالے سے اہم فائلیں تلف کرنے کا واقعہ سامنے آیا۔ اطلاعات کے مطابق آئینی تحفظ کے جرمن ادارے نے نيشنل سوشلسٹ يا نازی انڈر گراؤنڈ گروپ کا راز فاش ہونے کے بعد اُن کی فائلوں کو مبینہ طور پر تلف کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔ اس کے بعد اس محکمے کے سربراہ ہائنز فروم نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
تصویر: Getty Images
مہمت کوباسک کی یادگار
ڈورٹمنڈ شہر کے میئر اولرش زیراؤ کے بقول ’ڈورٹمنڈ کا شمار جرمنی کے کثیر الثقافتی شہروں میں ہوتا ہے۔ یہاں دائیں بازو کی انتہا پسندی کی مخالفت بھی کھل کر کی جاتی ہے‘۔ یہ بات انہوں نے نازی گروپ کے ہاتھوں قتل ہونے والے مہمت کوباسک کی یادگار کا افتتاح کرتے ہوئے کہی۔ یہ یادگار مہمت کی اس دکان کے بہت ہی قریب قائم کی گئی ہے، جہاں چار اپریل 2006ء کو انہیں قتل کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مقدمے کی کارروائی اور صحافیوں کی مشکلات
اس مقدمے کی کارروائی کے حوالے سے ایک تنازعہ اس وقت کھڑا ہوا، جب عدالتی کمرے میں غیر ملکی صحافیوں کو کوئی نشست نہیں مل سکی تھی۔ یہ کارروائی 17 اپریل کو شروع ہونا تھی تاہم عدالت نے صحافیوں اور ذرائع ابلاغ کے اداروں سے کہا کہ وہ ایک مرتبہ پھر سماعت کے دوران کمرے میں بیٹھنے کی اجازت حاصل کرنے کے لیے درخواست دیں۔ ان معاملات کا تصفیہ ہو جانے کے بعد چھ مئی سے اس مقدمے کی سماعت شروع ہو گئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
12 تصاویر1 | 12
نیو نازی میوزک کنسرٹس
نئے نازیوں کے میوزک کنسرٹس کے بارے میں ایک مسئلہ یہ ہے کہ انہیں ملکی عوام کے 'اجتماع کے حق‘ سے متعلق بہت فراخ دلانہ قانون کے باعث ممنوع قرار نہیں دیا جا سکتا۔
صوبے سیکسنی کے وزیر داخلہ رولانڈ وؤلر نے کہا کہ انتہائی دائیں بازو کے میوزک کنسرٹس کے منتظمین اکثر عین وقت پر اپنے کنسرٹ کی جگہ بدل دیتے ہیں، جس کے بعد وہاں پولیس کی طرف سے مؤثر نگرانی کافی مشکل ہو جاتی ہے۔
رولانڈ وؤلر کے مطابق، ''ہمیں ان چھوٹے چھوٹے بلدیاتی اداروں کے انتظامی ڈھانچوں کو مضبوط بنانا ہو گا، جو پس منظر سے پوری واقفیت کے بغیر مقامی سطح پر ایسے کنسرٹس کے انعقاد کی درخواستوں پر فیصلے کرتے ہیں۔‘‘
صوبے برانڈن برگ کے وزیر داخلہ میشائل شٹُوئبگن کے مطابق نئے نازیوں کے میوزک کنسرٹس یا میلوں پر پابندی لگانا کوئی بہت اچھا حل نہیں ہو گا، اس کے لیے بلدیاتی اداروں کی طرف سے اجازت ناموں کی شرائط مزید سخت کی جانا چاہییں اور ایسے انتہا پسند گروپوں کے بارے میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی سطح پر معلومات کا تبادلہ بھی مزید مؤثر بنایا جانا چاہیے۔
جرمنی کے یہ پانچ مشرقی صوبے تھیورنگیا، سیکسنی، سیکسنی انہالٹ، برانڈن برگ اور میکلن برگ بالائی پومیرانیا ہیں۔
م م / ک م (ڈی پی اے، کے این اے، ای پی ڈی)
جرمنی کے سولہ صوبوں کی تصویری سیر کیجیے
جرمنی کے دوبارہ اتحاد کو پچیس برس ہو گئے ہیں۔ یہاں آپ کی خدمت میں جرمنی کے سولہ وفاقی صوبوں کی تصویری جھلکیاں پیش کی جا رہی ہیں۔
باویریا
جنوبی صوبہ باویریا جرمنی میں سیاحوں کی سب سے مشہور منزل ہے۔ سالانہ ساڑھے سات لاکھ غیرملکی سیاح یہاں آتے ہیں۔ یہ صوبہ اپنی روایات اور خوبصورت مناظر کی وجہ سے عالمگیر شہرت رکھتا ہے۔ اس کی آبادی تقریباﹰ 12.5 ملین اور دارالحکومت میونخ ہے۔
باڈن وُرٹمبرگ
اس صوبے کا موٹو یہ ہے: ’’ہم معیاری جرمن زبان بولنے کے علاوہ سب کچھ کر سکتے ہیں۔‘‘ اس صوبے میں مختلف علاقائی لہجوں کے ساتھ جرمن زبان بولی جاتی ہے۔ اس کی آبادی 10.7 ملین ہے اور دارالحکومت اشٹُٹ گارٹ ہے۔
برلن
جرمنی کے سولہ صوبوں میں سے تین شہر ایسے ہیں جو سٹی اسٹیٹ کے طور پر صوبے کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان میں برلن بھی شامل ہے۔ یہ شہر جرمنی کا وفاقی دارالحکومت بھی ہے اور اس کی آبادی 3.4 ملین نفوس پر مشتمل ہے۔ یہ شہر مسلسل تبدیلیوں سے گزر رہا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ سیاح اس سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔
ہیمبرگ
شمالی شہر ہیمبرگ بھی ان تین شہروں میں شامل ہے، جو صوبوں کا درجہ رکھتے ہیں۔ ہیمبرگ کی آبادی 1.7 ملین ہے۔ اس شہر کے ریڈ لائٹ ایریا کو ’دا گریٹ فریڈم اسٹریٹ‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے اور یہ جرمنی کے علاوہ دنیا بھر میں مشہور ہے۔
بریمن
بریمن جرمنی کا وہ تیسرا شہر ہے، جو ایک صوبہ بھی ہے لیکن یہ جرمنی کا سب سے چھوٹا وفاقی صوبہ ہے۔ اس کے رہائشیوں کی تعداد تقریباﹰ چھ لاکھ چونسٹھ ہزار ہے۔ یہاں کے لوگ روایات پسند تو ہیں لیکن ان کے دل دنیا کے لیے کھلے ہیں۔
لوئر سیکسنی
اس صوبے میں صرف چند بڑے شہر ہیں لیکن یہ دیہی علاقوں سے بھرا پڑا ہے۔ رقبے اور مختلف طرح کے مناظر کے لحاظ سے یہ جرمنی کا دوسرا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ اس کی آبادی تقریباﹰ آٹھ ملین ہے اور دارالحکومت کا نام ہینوور ہے۔
نارتھ رائن ویسٹ فیلیا
یہ جرمنی کا سب سے زیادہ آبادی والا صوبہ ہے جس کی آبادی اٹھارہ ملین ہے۔ یہ صوبہ اپنے ثقافتی تنوع کے ساتھ ساتھ ’خوش دل اور محنتی لوگوں کے صوبے‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس صوبے کا سب سے بڑا شہر کولون ہے لیکن صوبائی دارالحکومت ڈسلڈورف ہے۔
رائن لینڈ پلاٹینیٹ
کہا جاتا ہے کہ رائن لینڈ پلاٹینیٹ وائن، جنگلوں اور پیدل چلنے والوں کا صوبہ ہے۔ جرمنی کے چاروں بڑے دریا اس صوبے سے ہو کر گزرتے ہیں۔ اس صوبے میں چار ملین سے زائد لوگ آباد ہیں اور اس کا دارالحکومت مائنز نامی شہر ہے۔
ہَیسے
اگر کوئی جرمنی کے بارے میں جاننا چاہتا ہے تو اسے اس صوبے کا سفر لازمی کرنا چاہیے۔ یہ گرِم برادران کی جادوئی کہانیوں کا مرکز بھی ہے اور جرمنی کا مالیاتی مرکز کہلانے والا شہر فرینکفرٹ بھی اسی کا حصہ ہے۔ فرینکفرٹ وفاقی ریاست ہَیسے کا سب سے بڑا شہر ہے لیکن صوبائی دارالحکومت ویزباڈن ہے۔ اس صوبے کی آبادی چھ ملین سے زائد ہے۔
زارلینڈ
انتہائی دلچسپ ماضی کا حامل یہ چھوٹا سا صوبہ جرمنی کے مغربی وسط حصے سے نیچے جنوب کی طرف واقع ہے۔ اس کی سرحدیں دو ملکوں فرانس اور لکسمبرگ سے ملتی ہیں۔ اس کی آبادی ایک ملین سے زائد ہے اور دارالحکومت کا نام زاربرُوکن ہے۔
شلیسوِگ ہولشٹائن
اگر یہ کہا جائے کہ یہ صوبہ ایک سمندری صوبہ بھی ہے تو غلط نہ ہوگا۔ اس صوبے کے شاندار جزائر، ساحل اور بندرگاہیں آپ کو اس کی سیر کے لیے مجبور کر دیتے ہیں۔ اس کی آبادی 2.8 ملین ہے اور دارالحکومت کِیل نامی شہر ہے۔
میکلن بُرگ بالائی پومیرانیا
میکلن بُرگ بالائی پومیرانیا نامی یہ صوبہ بحیرہء بالٹک کے جرمن ساحلی علاقے کا حصہ ہے۔ یہ صوبہ ماضی میں مشرقی جرمنی کا حصہ تھا لیکن 1990ء میں جرمنی کے دوبارہ اتحاد کے بعد وفاقی ریاست میں شامل ہونے والے پانچ نئے صوبوں میں سے ایک ہے۔ اس کی آبادی تقریباﹰ 1.7 ملین ہے اور ریاستی دارالحکومت کا نام شویرِین ہے۔
برانڈن بُرگ
دوبارہ اتحاد کے بعد جو صوبے متحدہ وفاقی جرمنی کا حصہ بنے، ان میں برانڈن بُرگ بھی شامل ہے۔ برلن کے رہائشی اکثر ایک روزہ سیر کے لیے اس صوبے میں آتے ہیں تاکہ قدرتی حسن سے لطف اندوز ہو سکیں۔ اس کی آبادی 2.5 ملین ہے اور دارالحکومت برلن کے نواح میں واقع شہر پوٹسڈام ہے۔
سیکسنی
یہ صوبہ جرمنی کے مشرق میں واقع ہے اور اس کی آبادی تقریباﹰ چار ملین ہے۔ یہ صوبہ خوبصورت فن تعمیر کی حامل عمارتوں کی وجہ سے مشہور ہے اور اس کی ایک مثال اس کا دارالحکومت ڈریسڈن ہے۔
سیکسنی انہالٹ
یہ صوبہ بھی اپنے ہاں فن تعمیر کے بے مثال نمونوں کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے جبکہ اس میں واقع اٹھارویں صدی کے مشہور باغات بھی دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کی آبادی تقریباﹰ 2.4 ملین ہے اور دارالحکومت کا نام ماگڈے بُرگ ہے۔
تھیُورِنگیا
اس صوبے کا متبادل نام ’جرمنی کا سبز دل‘ ہے۔ یہ صوبہ جرمنی کے وسط میں واقع ہے اور اس کی آبادی تقریباﹰ 2.3 ملین ہے۔ اس کا دارالحکومت اَیرفُرٹ ہے۔ ماضی میں یہ صوبہ کمیونسٹ مشرقی جرمن ریاست کا حصہ تھا۔