کووڈ انیس سے ساری دنیا متاثر ہو رہی ہے۔ اقتصادی اور معاشرتی مصروفیات کے ساتھ ساتھ مذہبی فرائض کی ادائیگی میں بھی مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس صورتحال میں سازشی نظریات کو فروغ دینے سے مسائل بڑھ سکتے ہیں۔
اشتہار
نئے کورونا وائرس کی وجہ سے لگنے والی بیماری کووڈ انیس کے باعث پوری دنیا میں خوف پھیل چکا ہے۔ کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس خود کو ویٹیکن میں ایک عمارت میں محدود کر چکے ہیں۔
تمام تر مذہبی سرگرمیاں معطل کی جا چکی ہیں جبکہ پوپ فرانسس ایسٹر کی تقریبات میں بھی شریک نہیں ہوں گے۔ جدید دور میں پہلی مرتبہ ہو گا کہ بارہ اپریل کو ایسٹر کی تقریبات میں پاپائے روم بذات خود موجود نہیں ہوں گے۔
ادھر جرمنی میں بھی حکومت نے تمام مذہبی رہنماؤں سے کہہ دیا ہے وہ اس عالمی وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کی خاطر کلیساؤں، مساجد، مندروں، کنیساؤں اور دیگر عبادت گاہوں میں مشترکہ عبادات نہ کریں۔ اسی طرح کے اقدامات دیگر یورپی ممالک میں بھی کیے جا چکے ہیں۔
یورپ کی طرح امریکا اور دیگر خطوں میں بھی کووڈ انیس نے مذہبی سرگرمیوں کو متاثر کیا ہے۔ بالخصوص مسیحی اور یہودی مذہبی رہنماؤں نےاپنی تمام تر مصروفیات آڈیو اور ویڈیو کانفرنسوں تک محدود کر دی ہیں۔ بھارت کے علاوہ دنیا کے کئی ممالک میں منایا جانے والا رنگوں کا ہندو تہوار ہولی بھی متاثر ہوا ہے۔
اسی طرح جرمنی میں مسلمانوں کی مرکزی کونسل نے بھی اعلان کر دیا ہے کہ نئے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کی خاطر اگر کوئی مقامی مسجد نماز جمعہ منسوخ کر دیتی ہے، تو اس کی اجازت ہے۔ جرمنی کے معروف مسلم اسکالر مہنند خورشید نے اس تناظر میں کہا کہ اسی خوف کی وجہ سے سعودی عرب نے بھی اہم مذہبی مقامات کو بند کر دیا ہے۔
ڈوئچے ویلے سے گفتگو میں خورشید نے کہا کہ موجودہ خطرات کے تناظر میں تمام مذاہب کو عبادت اور دیگر فرائض کی ادائیگی میں کچھ نہ کچھ تبدیلیاں لانا ہوں گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ انسانوں کو بچانے کی خاطر عادات بدلنے کی ضرورت ہے اور بالخصوص اس کڑے وقت میں تمام لوگوں کو اپنی اپنی ذمہ داریاں نبھانا ہوں گی۔
مذہبی حساسیت اور وابستگی
مذہب ایک ایسا معاملہ ہے، جس میں بعض اوقات عقل و دانش کو فراموش کر دیا جاتا ہے۔ مذہبی فرائض کی ادائیگی میں لوگ جذباتی بھی ہوتے ہیں اور حساس بھی۔ تاہم کبھی کبھی یہ معاملہ سنگین بھی ہو سکتا ہے۔ اس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ مذہبی رہنماؤں کی طرف سے منع کیے جانے کے باوجود لوگوں نے اجتماعی عبادات ترک نہ کیں اور کووڈ انیس میں مبتلا افراد کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔
جنوبی کوریا میں لوگوں نے حکومتی وارننگ کو نظر انداز کیا اور اور ایک مسیحی فرقے نے مشترکہ عبادات جاری رکھیں ، جس کی وجہ سے جنوبی کوریا میں نئے کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔
کورونا وائرس کا مقابلہ گائے کے پیشاب سے کرنے کی کوشش
’آل انڈیا ہندو یونین‘ نے بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں ہفتے کے دن کورونا وائرس سے بچنے کی خاطر گائے کا پیشاب پینے کی ایک خصوصی تقریب کا اہتمام کیا، جس میں کم ازکم دو سو ہندو افراد شریک ہوئے۔
تصویر: AFP/J. Andrabi
گائے کا پیشاب پینے کی تقریب
’آل انڈیا ہندو یونین‘ نے بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں ہفتے کے دن کورونا وائرس سے بچنے کی خاطر گائے کا پیشاب پینے کی ایک خصوصی تقریب کا اہتمام کیا، جس میں کم ازکم دو سو ہندو افراد شریک ہوئے۔
تصویر: AFP/J. Andrabi
’طبی لحاظ سے فائدہ مند‘
بھارت میں کچھ ہندو گروپوں کا اصرار ہے کہ گائے کا پیشاب طبی لحاظ سے فائدہ مند ہے، اس لیے اسے پینے سے کورونا وائرس سے بچا جا سکتا ہے۔ اسی لیے اس تقریب میں خواتین کی ایک بڑی تعداد بھی موجود تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Qadri
گائے بھی مقدس اور پیشاب بھی
تقریب میں شامل ایک خاتون گائے کا پیشاب پیتے ہوئے۔ ہندو مت میں گائے کو مقدس قرار دیا جاتا ہے اور یہی وجہ سے کہ کچھ قدامت پسند ہندوؤں میں اس طرح کے فرسودہ خیالات رائج ہیں۔
تصویر: AFP/J. Andrabi
کوئی طبی شواہد نہیں
تقریب میں شامل ایک ہندو پیشاب پیتے ہوئے۔ تاہم طبی ماہرین بارہا کہہ چکے ہیں کہ ایسے کوئی شواہد نہیں کہ گائے یا اونٹ کا پیشاب کینسر یا کسی دوسری بیماری کا علاج ثابت ہو سکتا ہے۔ عرب ممالک میں کچھ حلقے اونٹ کے پیشاب کو بھی طبی لحاظ سے شافی قرار دیتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Qadri
ایسی مزید پارٹیاں ہوں گی
گائے کا پیشاب پینے کی پارٹی 'آل انڈیا ہندو یونین‘ کے نئی دہلی میں واقع صدر دفتر میں منعقد کی گئی تھی۔ منتظمین نے کہا ہے کہ اسی طرح کی پارٹیاں دیگر بھارتی شہروں میں بھی منعقد کی جائیں گی۔
تصویر: Reuters/D. Siddiqui
’یہ پیشاب کورونا وائرس کو توڑ‘، مہاراج
’آل انڈیا ہندو یونین‘ کے سربراہ چکراپانی مہاراج نے اس تقریب کے دوران کورونا وائرس کے فرضی کیریکیچر (خاکے) کے ساتھ ایک تصاویر بھی بنوائی، جن میں وہ گائے کے پیشاب کا پیالہ تھامے نظر آ رہے ہیں۔ انہوں نے اس پیشاب کو کورونا وائرس کا توڑ قرار دیا ہے۔
تصویر: Reuters/D. Siddiqui
’انگریزی دوا کی ضرورت نہیں‘
اس پارٹی میں شریک ہونے والے اوم پرکاش نے روئٹرز سے گفتگو میں کہا، ''ہم گزشتہ اکیس برسوں سے گائے کا پیشاب پیتے آ رہے ہیں اور ہم گائے کے گوبر سے نہاتے بھی ہیں۔ ہمیں کبھی بھی انگریزی دوا لینے کی ضرورت نہیں پڑی ہے۔‘‘
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Qadri
’کینسر کا علاج‘
طبی ماہرین کے علاوہ بھارت میں رہنے والے اکثریتی ہندوؤں کا کہنا ہے کہ گائے کا پیشاب یا گوبر طبی لحاظ سے کسی بیماری کا علاج نہیں ہو سکتا۔ تاہم حکمران ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کے متعدد رہنما وکالت کرتے ہیں کہ گائے کا پیشاب ایک دوا ہے اور اس سے بالخصوص کینسر کا علاج ممکن ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Qadri
’کورونا وائرس کے خلاف اہم ہتھیار‘
ریاست آسام میں وزیر اعظم نریندر مودی کی سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے ایک سیاستدان نے حال ہی میں اسمبلی کے اجلاس کے دوران کہا تھا کہ کورونا وائرس سے بچنے کی خاطر گائے کا پیشاب اور گوبر سود مند ثابت ہو سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/D. Siddiqui
عالمی وبا سے دنیا پریشان
کووڈ انیس کو عالمی وبا قرار دیا جا چکا ہے، جس کی وجہ سے کم ازکم پانچ ہزار افراد ہلاک جبکہ ایک لاکھ پینتالیس ہزار کے لگ بھگ متاثر ہو چکے ہیں۔ گزشتہ دسمبر چین سے پھوٹنے والی اس وبا کا ابھی تک کوئی علاج دریافت نہیں کیا جا سکا ہے۔ تاہم طبی ماہرین کی کوشش ہے کہ اس بیماری کے خلاف جلد از جلد کوئی دوا تیار کر لی جائے۔
تصویر: Reuters/D. Ruvic
10 تصاویر1 | 10
اسی طرح ایران میں مقدس تصور کیا جانے والا شہر قم بھی اس وائرس کے پھیلاؤ میں نمایاں رہا۔ ایرانی باشندوں نے اس وائرس کو سنجیدگی سے نہ لیا اور متعدد آیت اللہ حضرات نے قرنطینہ میں جانے سے انکار کر دیا۔ یہ لوگ بھی ملک بھر میں اس وائرس کو پھیلانے کا سبب بنے۔ اگرچہ اب ایران میں تمام ایسے مقامات بند کر دیے گئے ہیں، جو مقدس تصور کیے جاتے ہیں تاہم دیر اتنی ہو چکی ہے کہ اب ایران کو اپنے ہاں اس وبا سے نمٹنے میں شدید مشکلات درپیش ہیں۔
کورونا وائرس اور سازشی نظریات
اس طر ح کے مشکل اور نازک وقت میں سازشی نظریات کا پھیلایا جانا عام سی بات ہوتی ہے۔ مسلم اسکالر خورشید اس صورتحا ل سے واقف ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ کچھ اقوام میں مسلم مذہبی رہنما اس عالمی وبا کو ’عذاب الٰہی‘ قرار دے رہے ہیں، جودرست نہیں ہے اور وہ درحقیقت اپنی مذہبی اتھارٹی کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ کووڈ انیس ایک متعدی بیماری ہے اور احتیاطی تدابیر سے اس پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ تاہم یورپی ملک اٹلی اور امریکا میں بھی کچھ انتہا پسند مسیحی فرقے کورونا وائرس سے بچاؤ کے سائنسی طریقوں سے متفق نظر نہیں آتے۔ ان میں سے کچھ نے انڈرگراؤنڈ چرچ بنانے کی کوشش بھی کہ جیسا کہ کیمونزم کے دور میں بھی کیا گیا تھا۔
کورونا وائرس سے بچنے کے ليے احتیاطی تدابیر
دنیا کے کئی ممالک میں کورونا وائرس سے بچنے کے لیے اب ماسک کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس سلسلے ميں کئی اور طریقے بھی موثر ثابت ہو سکتے ہیں، جن میں سے چند ایک ان تصاویر میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/Stringer
کچھ نہ ہونے سے بہتر ہے
یہ ابھی تک ثابت نہیں ہو سکا ہے کہ ماسک وائرل انفیکشن کو روکنے میں مؤثر ثابت ہوتے ہیں يا نہيں۔ ایسا بھی کہا جاتا ہے کہ ناک پر چڑھانے سے قبل ماسک ميں پہلے سے بھی جراثیم پائے جاتے ہيں۔ ماسک کا ايک اہم فائدہ یہ ہے کہ کوئی دوسرا شخص آپ کی ناک اور منہ سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ بیماری کی صورت میں یہ ماسک دوسرے افراد کو آپ سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔
تصویر: Getty Images/Stringer
جراثیم دور کرنے والے سیال مادے کا استعمال
اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کی ہدايات میں عالمی ادارہٴ صحت نے چہرے کے ماسک کا ذکر نہیں کیا لیکن ان ہدايات میں سب سے اہم ہاتھوں کو صاف رکھنا ہے۔ اس کے لیے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے جراثم کش سیال مادے کے استعمال کو اہم قرار دیا ہے۔ یہ ہسپتالوں میں داخلے کے مقام پر اکثر پايا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Pilick
صابن اور پانی استعمال کریں
ہاتھ صاف رکھنے کا سب سے آسان طریقہ صابن سے ہاتھ دھونا ہے۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ اس انداز میں بڑی توجہ سے ہاتھ دھوئے جائيں۔
تصویر: picture alliance/dpa/C. Klose
کھانسی یا چھینک، ذرا احتیاط سے
ڈاکٹروں کی یہ متفقہ رائے ہے کہ کھانسی کرتے وقت اور چھینک مارتے ہوئے اپنے ہاتھ ناک اور منہ پر رکھنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ اس موقع پر ٹِشُو پیپر بھی منہ پر رکھنا بہتر ہے۔ بعد میں اس ٹِشُو پیپر کو پھینک کر ہاتھ دھو لینے چاہییں۔ نزلہ زکام کی صورت میں اپنے کپڑے معمول سے زیادہ دھونا بھی بہتر ہوتا ہے۔ ڈرائی کلین کروا لیں تو بہت ہی اچھا ہے۔
تصویر: Fotolia/Brenda Carson
دور رہنا بھی بہتر ہے
ایک اور احتیاط یہ ہے کہ سارا دن دفتر میں کام مت کریں۔ بخار کی صورت میں لوگوں سے زیادہ میل جول درست نہیں اور اس حالت میں رابطے محدود کرنا بہتر ہے۔ بیماری میں خود سے بھی احتیاطی تدابیر اختیار کرنا مناسب ہے۔
تصویر: picture alliance/empics
بیمار ہیں تو سیر مت کریں، ڈاکٹر کے پاس جائیں
بخار، کھانسی یا سانس لینے میں دشواری ہے تو طبی نگہداشت ضروری ہے۔ بھیڑ والے مقامات سے گریز کریں تاکہ بیماری دوسرے لوگوں ميں منتقل نہ ہو۔ ڈاکٹر سے رجوع کر کے اُس کی بتائی ہوئی ہدایات پر عمل کرنا لازمی ہے۔
تصویر: Reuters/P. Mikheyev
بازار میں مرغیوں یا دوسرے جانوروں کو مت چھوئیں
کورونا وائرس کے حوالے سے یہ بھی ہدایت جاری کی جاتی ہيں کہ مارکیٹ یا بازار میں زندہ جانوروں کو چھونے سے اجتناب کریں۔ اس میں وہ پنجرے بھی شامل ہیں جن میں مرغیوں یا دوسرے جانوروں کو رکھا جاتا ہے۔
تصویر: DW
گوشت پوری طرح پکائیں
گوشت کو اچھی طرح پکائیں۔ کم پکے ہوئے یا کچا گوشت کھانے سے گریز ضروری ہے۔ جانوروں کے اندرونی اعضاء کا بھی استعمال احتیاط سے کریں۔ اس میں بغیر گرم کیا ہوا دودھ بھی شامل ہے۔ بتائی گئی احتیاط بہت ہی ضروری ہیں اور ان پر عمل کرنے سے بیماری کو دور رکھا جا سکتا ہے۔ صحت مند رہیں اور پرمسرت زندگی گزاریں۔
تصویر: picture-alliance/Ch. Mohr
8 تصاویر1 | 8
ادھر بھارت میں بھی کچھ گروہ کورونا وائرس کو ایک 'عذاب‘ قرار دے رہے ہیں، جس کی وجہ چین میں 'جانداروں کو کھانے کی عوامی عادت‘ بتائی گئی ہے۔ بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں گزشتہ ویک اینڈ پر ہی ایک ایسی مشترکہ پارٹی کا اہتمام بھی کیا گیا، جس میں دو سو افراد نے 'کورونا وائرس سے بچنے کے لیے‘ گائے کا پیشاب پیا اور گوبر سے بنی اشیائے خوراک کھائیں۔
آل انڈیا ہندو یونین سے وابستہ کٹر نظریات کے حامل ان ہندوؤں کا اصرار ہے کہ گائے چونکہ مقدس ہے، اس لیے اس کا پیشاب اور گوبر بھی 'نہ صرف پاک بلکہ طبی فوائد‘ کا حامل ہے۔ تاہم طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے کام حفظان صحت کے اصولوں کے خلاف ہیں، جن سے بیماریاں پھیل سکتی ہیں۔
طبی اور سائنسی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس عالمی وبا کے پیش نظر توہم پرستی اور اساطیری نظریات کے بجائے عقل سے کام لیتے ہوئے حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ یہ وائرس انسانوں سے انسانوں میں منتقل ہو رہا ہے اور اگر لوگ سماجی اجتماعات اور باہمی میل میلاپ سے گریز کریں گے، تو اس بیماری کو مات دینا آسان ہو جائے گا۔ لیکن اس کے لیے انسانوں کو اپنی سماجی عادات بدلنا ہوں گی، اور یہ کام کچھ مشکل تو ہے مگر ناممکن نہیں۔
کرسٹوف شٹراک، عاطف بلوچ (م م)
کورونا وائرس کے بارے میں مفروضے اور حقائق
کورونا وائرس کی نئی قسم سے بچاؤ کے حوالے سے انٹرنیٹ پر غلط معلومات کی بھرمار ہے۔ بہت زیادہ معلومات میں سے درست بات کون سی ہے اور کیا بات محض مفروضہ۔ جانیے اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: DW/C. Walz
کیا نمکین پانی سے ناک صاف کرنا سود مند ہے؟
عالمی ادارہ صحت کے مطابق ایسا کوئی ثبوت موجود نہیں کہ نمکین محلول ’سلائن‘ وائرس کو ختم کر کے آپ کو کورونا وائرس سے بچا سکتا ہے۔
غرارے کرنے سے بچاؤ ممکن ہے؟
کچھ ماؤتھ واش تھوڑی دیر کے لیے مائکروبز کو ختم کرنے میں مددگار ہوتے ہیں لیکن عالمی ادارہ صحت کے مطابق ان سے غرارے کرنے سے بھی کورونا وائرس کی نئی قسم سے نہیں بچا جا سکتا۔
لہسن کھانے کا کوئی فائدہ ہے؟
انٹرنیٹ پر یہ دعویٰ جنگل میں آگ کی طرح پھیلتا جا رہا ہے کہ لہسن کھانے سے کورونا وائرس بے اثر ہو جاتا ہے۔ تاہم ایسے دعووں میں بھی کوئی حقیقت نہیں۔
پالتو جانور کورونا وائرس پھیلاتے ہیں؟
انٹرنیٹ پر موجود کئی نا درست معلومات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بلی اور کتے جیسے پالتو جانور کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا سبب بنتے ہیں۔ اس بات میں بھی کوئی صداقت نہیں۔ ایسے پالتو جانور اگرچہ ’ایکولی‘ اور دیگر طرح کے بیکٹیریا ضرور پھیلاتے ہیں۔ اس لیے انہیں چھونے کے بعد ہاتھ ضرور دھو لینا چاہییں۔
خط یا پارسل بھی کورونا وائرس لا سکتا ہے؟
کورونا وائرس خط اور پارسل کی سطح پر زیادہ دیر نہیں ٹھہر سکتا۔ اس لیے اگر آپ کو چین یا کسی دوسرے متاثرہ علاقے سے خط یا پارسل موصول ہوا ہے تو گھبرانے کی کوئی بات نہیں، کیوں کہ اس طرح کورونا وائرس کا شکار ہونے کا خطرہ قریب نہ ہونے کے برابر ہے۔
کورونا وائرس کی نئی قسم کے لیے ویکسین بن چکی؟
کورونا وائرس کی اس نئی قسم کے علاج کے لیے ابھی تک ویکسین تیار نہیں ہوئی۔ نمونیا کے لیے استعمال ہونے والی ویکسین وائرس کی اس نئی قسم پر اثر انداز نہیں ہوتی۔
جراثیم کش ادویات کورونا وائرس سے بچا سکتی ہیں؟
ایتھنول محلول اور دیگر جراثیم کش ادویات اور اسپرے سخت سطح سے کوروانا وائرس کی نئی قسم کو ختم کر دیتے ہیں۔ لیکن انہیں جلد پر استعمال کرنے کا قریب کوئی فائدہ نہیں۔
میل ملاپ سے گریز کریں!
اس نئے وائرس سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ کھانا بہت اچھے طریقے سے پکا کر کھائیں۔ کورونا وائرس سے متاثرہ افراد سے ملنے سے گریز کریں۔
ہاتھ ضرور دھوئیں!
صابن اور پانی سے اچھی طرح ہاتھ دھونے سے انفیکشن سے بچا جا سکتا ہے۔ ہاتھ کم از کم بیس سیکنڈز کے لیے دھوئیں۔ کھانستے وقت یا چھینک آنے کی صورت میں منہ کے سامنے ہاتھ رکھ لیں یا ٹیشو پیپر استعمال کریں۔ یوں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔