موٹر سائیکل پر سوار بندوق برداروں نے جنوب مغربی نائجر کے تیلابری علاقے میں سرحدی گاؤں کے ایک ہفتہ وار بازار سے واپس لوٹنے والے لوگوں پر اندھا دھند فائرنگ کرکے 58 افراد کو ہلا ک کر دیا۔
اشتہار
پیر کے روز ہونے والا یہ حملہ نائجر کے نئے صدر محمد بازوم کو درپیش زبردست سکیورٹی چیلنجز کو اجاگر کرتا ہے۔ انہوں نے گزشتہ فروری میں محمد یوسفو کو شکست دے کراقتدار سنبھالا ہے۔
فی الحال کسی نے اس قتل عام کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے لیکن اسلامک اسٹیٹ اور القاعدہ سے تعلق رکھنے والے گروپ تیلاباری علاقے میں سرگرم ہیں۔
حکومت نے منگل کے روز سرکاری ٹیلی ویژن پر جاری کردہ ایک بیان میں کہا کہ پیر کی سہ پہر کو ”مسلح افراد کے ایک گروپ نے بانی بانگو ہفت روزہ بازار سے چینے ڈوگر اور دارے دائی گاؤں جا رہی چار گاڑیوں پر سوار نامعلوم مسافروں کو روکا اور فائرنگ کر دی۔ اس ظالمانہ کارروائی میں 58 افراد ہلاک اور ایک زخمی ہو گیا۔ اناج کی بہت ساری بوریوں اور دو گاڑیوں کو آگ لگا دی گئی جب کہ مزید دو گاڑیاں لے کر بھاگ گئے۔"
حکومت نے اس واقعے پر تین روز کے قومی سوگ کا اعلان کیا ہے۔
تیلاباری علاقے میں جس جگہ انتہاپسندوں نے حملہ کیا وہ نائجر، برکینا فاسو اور مالی کو جوڑتا ہے۔ اسے سہ سرحدی علاقہ بھی کہا جاتا ہے۔
چیلنجز میں اضافہ
پیرکے روز ہونے والے حملے نے نائجر کے نئے صدر محمد بازوم کو درپیش زبردست سکیورٹی چیلنجز کو اجاگر کر دیا ہے۔
اشتہار
حکومت نے لوگوں کو 'زیادہ چوکنا‘ رہنے کی اپیل کی ہے اور 'جرائم کی تمام صورتوں کے خلاف انتھک جنگ لڑنے کے اپنے عزم‘ کا اعادہ کیا ہے۔
نائجر کو دو محاذوں پر انتہا پسندوں کی سرگرمیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ان میں سے ایک مالی اور برکینا فاسوکے قریب مغرب میں، اور دوسرا نائجیریا کی سرحد سے ملحق جنوب مشرق میں۔
تیلابری علاقے میں صرف جہادی ہی سرگرم نہیں ہیں بلکہ انتہاپسندوں کے خلاف حکومتی کارروائی کی وجہ سے مقامی ملیشیا بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ جس کے نتیجے میں بالخصوص مالی اور نائیجر کے درمیان سرحد کے قریب بین فرقہ کشیدگی میں اضافہ ہوگیا ہے۔
افریقہ میں انسانی اسمگلروں کا تعاقب
ڈی ڈبلیو کے صحافی جان فلپ شولز اور آدریان کریش نے نائجیریا میں انسانوں کے اسمگلروں کے بارے میں چھان بین کی۔ اس دوران وہ پیچھا کرتے ہوئے اٹلی تک جا پہنچے لیکن اس سلسلے میں انہیں خاموشی کی ایک دیوار کا سامنا رہا۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
غربت سے نجات
ان دونوں صحافیوں نے انسانی اسمگلروں کی تلاش کا سلسلہ نائجیریا کی ریاست ایدو کے شہر بینن سے شروع کیا۔ یہاں پر ان دونوں کی جس شخص سے بھی ملاقات ہوئی اس کا کوئی نہ کوئی رشتہ دار یا کوئی دوست یورپ میں رہتا ہے۔ اٹلی میں تین چوتھائی جسم فروش خواتین کا تعلق اسی خطے سے ہے۔ نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری اس علاقے سے ہونے والی ہجرت کی وجہ ہے۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
جھوٹے وعدے
نن بیبینا ایمناہا کئی سالوں سے خاص طور پر نوجوان لڑکیوں کو یورپ کے سفر سے خبردار کر رہی ہیں، ’’زیادہ تر لڑکیاں جھوٹے وعدوں کے چنگل میں پھنس جاتی ہیں۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ ان لڑکیوں سے گھريلو ملازمہ یا دیگر کام کاج کے وعدے کیے جاتے ہیں اور یورپ پہنچنے کی دیر ہوتی ہے کہ یہ جھوٹ عیاں ہو جاتا ہے۔ اس وجہ سے زیادہ تر لڑکیاں جرائم پیشہ گروہوں کے ہاتھ لگ جاتی ہیں۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
انسان لالچی ہے
بہت کوششوں کے بعد ایک انسانی اسمگلر ڈی ڈبلیو کے صحافیوں سے بات کرنے پر راضی ہوا۔اس نے اپنا نام اسٹیو بتایا۔ اس کے مطابق وہ سو سے زائد افراد کو نائجیریا سے لیبیا پہنچا چکا ہے۔ اس نے اپنے گروہ کے پس پردہ رہ کر کام کرنے والے افراد کے بارے میں بتانے سے گریز کرتے ہوئے بتایا کہ وہ صرف ایک سہولت کار ہے۔ اس کے بقول،’’ایدو کے شہری بہت لالچی ہیں اور وہ بہتر مستقبل کے لیے سب کچھ کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔‘‘
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
ہجرت کے خطرناک مراحل
اسٹیو کے بقول وہ نائجیریا سے لیبیا پہچانے کے چھ سو یورو لیتا ہے۔ اسٹیو کے مطابق ان میں زیادہ تر کو بخوبی علم ہے کہ صحارہ سے گزرتے ہوئے لیبیا پہنچنا کتنا مشکل اور خطرناک ہے۔ ’’اس دوران کئی لوگ اپنی جان بھی گنوا چکے ہیں۔‘‘ وہ مہاجرین کو نائجر کے علاقے اگادیز تک پہنچاتا ہے، جہاں سے اس کا ایک اور ساتھی ان لوگوں کو آگے لے کر جاتا ہے۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
’اگادیز‘ انسانی اسمگلروں کی آماجگاہ
ریگستانی علاقہ ’ اگادیز‘ ڈی ڈبلیو کے رپورٹر جان فلپ شولز اور آدریان کریش کے سفر کی اگلی منزل تھی۔ ان دونوں کے مطابق یہ علاقہ انتہائی خطرناک ہے۔ یہاں پر انسانی اسمگلر اور منشیات فروش ہر جانب دکھائی دیتے ہیں اور غیر ملکیوں کے اغواء کے واقعات بھی اکثر رونما ہوتے رہتے ہیں۔ ’اگادیز‘ میں یہ دونوں صحافی صرف مسلح محافظوں کے ساتھ ہی گھوم پھر سکتے تھے۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
سلطان کے لیے بھی ایک مسئلہ
اس صحرائی علاقے کے زیادہ تر لوگ انسانی اسمگلنگ کو ایک مسئلے کے طور پر دیکھتے ہیں اور اگادیز کے سلطان عمر ابراہیم عمر کا بھی یہی خیال ہے کہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے، جسے مقامی سطح پر حل نہیں کیا جا سکتا۔ عمر ابراہیم عمر کا موقف ہے،’’ اگر یورپی یونین چاہتی ہے کہ لوگ بحیرہ روم کے ذریعے یورپ کا سفر نہ کریں تو اسے نائجر کو بھرپور تعاون فراہم کرنا چاہیے۔‘‘
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
’پیر‘ کے قافلے
کئی مہینوں سے ہر پیر کو غروب آفتاب کے بعد کئی ٹرکوں کا ایک قافلہ اگادیز سے شمال کی جانب روانہ ہوتا ہے۔ لیبیا میں سلامتی کی مخدوش صورتحال کی وجہ سے انسانی اسمگلر بغیر کسی رکاوٹ کے اس ملک میں داخل ہوتے ہوئے بحیرہ روم کے کنارے پہنچ جاتے ہیں۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ نائجر کے حکام کو بھی ان سرگرمیوں میں کچھ زیادہ دلچسپی نہیں ہے۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
تعداد بڑھ رہی ہے اور عمر کم ہو رہی ہے
نائجیریا کی زیادہ تر خواتین اٹلی میں جسم فروشوں کے ہاتھ لگ جاتی ہیں۔ سماجی شعبے کی ماہر لیزا بیرتینی کہتی ہیں،’’اعداد و شمار کے مطابق 2014ء میں ایک ہزار سے زائد نائجریئن خواتین بحیرہ روم کے راستے اٹلی پہنچيں۔ 2015ء میں یہ تعداد چار ہزار ہو گئی۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں کہ لڑکیوں کی عمر کم سے کم بتائی جاتی ہے تاکہ ان کی بہتر قیمت وصول کی جا سکے۔
تصویر: DW
’مادام‘ کی تلاش
نائجیریا کے ایک دوست کی مدد سے یہ دونوں صحافی شمالی اٹلی میں ایک مبینہ ’مادام ‘ تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ نائجیریا میں ’دلال‘ کو مادام کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ یہ خاتون فلورنیس کے قریب رہتی تھیں۔ ایک نائجیریئن لڑکی نے بتایا، ’’مادام نے ہم پر تشدد کرتے ہوئے ہمیں جسم فروشی پر مجبور کیا۔‘‘
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
جگہ کم لڑکیاں زیادہ
ڈی ڈبلیو کے صحافیوں جان فلپ شولز اور آدریان کریش نے جب ’مادام‘ سے مختلف الزامات کے بارے میں دریافت کیا تو اس نے تسلیم کیا کہ ان کے گھر میں چھ لڑکیاں موجود ہیں۔ تاہم ساتھ ہی اس نے اس بات کی نفی بھی کی کہ وہ ان لڑکیوں کو جسم فروشی پر مجبور کرتی ہے۔ بعد ازاں ان دونوں صحافیوں نے اس دوران جمع ہونے والی تمام معلومات سے اطالوی حکام کو آگاہ کر دیا تھا۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
غیر فعال ادارے
مونیکا اوشکوے نامی نن نے اس سلسلے میں اطالوی اداروں کی غیر ذمہ داری اور ان کے غیر فعال ہونے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ وہ گزشتہ آٹھ برسوں سے جسم فروشی پر مجبور کی جانے والی خواتین کے لیے کام کر رہی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ مرد بہت کم پیسوں میں اپنی جنسی ہوس مٹانا چاہتے ہیں اور نائجیریا کی کسی خاتون کے ساتھ صرف دس یورو میں ’سیکس‘ کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
11 تصاویر1 | 11
ماضی میں بھی حملے
پیر کے روز ہونے والے حملے نے گزشتہ جنوری میں ہونے والے قتل عام کی یادیں تازہ کر دیں جب تیلابری علاقے میں ہی دو گاؤں میں ایک سو افراد کو قتل کر دیا گیا تھا۔ کسی انتہاپسند گروپ یا ملیشیا نے اس کی ذمہ داری ابھی تک قبول نہیں کی ہے۔
انتہاپسندوں نے دسمبر 2019 میں تیلابری علاقے میں نائیجر کی فوج پر ایک بڑا حملہ کیا تھا جس میں 70سے زائد افراد مارے گئے تھے۔ جب کہ جنوری 2020میں اسی طرح کے ایک دوسرے حملے میں 89 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
یہ جگہ اس علاقے کے قریب ہے جہاں سن 2017 میں امریکی اسپیشل فورسز کے چار فوجیوں کو ان کے پانچ نائیجریائی ساتھیوں کے ساتھ ہلاک کردیا گیا تھا۔
نوادرات کی چوری ، داعش کے لیے کمائی کا ذریعہ
02:27
سب سے متاثرہ علاقہ
یہ تشدد زدہ علاقہ مغربی افریقہ کے ساحل خطے کا سکیورٹی بحران سے سب سے زیادہ دوچار ہے۔
نائجر، مالی اور برکینا فاسو کی سرحدوں کو جوڑنے والا یہ علاقہ جنگجوؤں کے حملوں کا نشانہ بنتا رہا ہے۔ ساحل خطے میں کسی بھی دوسری جگہ کے مقابلے یہاں سب سے زیادہ متواتر اور ہلاکت خیز حملے ہوتے رہے ہیں۔
فرانسیسی فورسز سن 2020 کے اوائل سے ہی انتہا پسندوں کے خلاف کارروائی میں مقامی فوج کی مدد کر رہی ہے۔