نائجر: مشتبہ جہادی حملے میں کم از کم 137 افراد ہلاک
23 مارچ 2021
مشتبہ جہادی بندوق برداروں نے مالی سے ملحق نائجر کی سرحد کے قریب ایک گاوں پر دھاوا بول دیا۔ اور ’ہر متحرک چیز‘ کو فائرنگ کا نشانہ بنایا۔
اشتہار
نائجر حکومت کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ جنوب مغربی نائجر کے گاوں پر ہونے والے حملے میں ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر کم از کم 137ہو گئی ہے۔
یہ حملہ اس افریقی ملک میں حالیہ وقتوں میں مشتبہ جہادیوں کے ہاتھوں قتل عام کا سب سے بھیانک واقعہ ہے۔
حکومت کے ترجمان زکریا عبدالرحمان نے سرکاری ٹیلی ویزن پر ایک بیان میں کہا ”شہری آبادیوں کو منظم انداز میں نشانہ بنانے کے واقعات میں یہ مسلح غنڈے ظلم اور بربریت میں مزید ایک قدم آگے بڑھ گئے ہیں۔“
حکومت کا کہنا ہے کہ اس حملے میں کم از کم 137 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ ابتدا میں اس نے ہلاکتوں کی تعداد 60 بتائی تھی۔
حملے کے دوران کیا ہوا؟
ایک مقامی عہدیدار نے بتایا کہ موٹر سائیکلوں پر سوار مسلح افراد نے مالی کی سرحد کے قریب واقع انتازائن، بکورت اور وسطانے گاوں پر حملہ کر دیا اور ”حرکت کرتی ہوئی دکھائی دینے والی ہر ایک چیز پر فائرنگ کر دی۔“
حکومتی ترجمان نے کہا ”حکومت ان لوگوں کی اس بربریت کی مذمت کرتی ہے جن کا نہ تو کسی چیز پر ایمان ہے اور نہ ہی قانون پر یقین۔“
نائجر میں غیر قانونی مہاجرت ’روکے نہ رُکے‘
03:14
حکومت نے اس واردات کے بعد منگل کے روز سے تین دنوں کے قومی سوگ کا اعلان کیا ہے۔ حکومت نے اپنے بیان میں کہا کہ خطے میں سکیورٹی میں اضافہ کیا جائے گا اور ’اس بزدلانہ اور مجرمانہ حرکت میں ملوث لوگوں کو‘ قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا۔
انتہا پسندوں کے حملوں میں اضافہ
چند ہفتے قبل نئے صدر محمد بازوم کے منتخب ہونے کے بعد سے دہشت گردانہ حملوں اور قتل عام کے واقعات میں اضافہ ہو گیا ہے۔ اتوار کے روز ملک کی آئینی عدالت نے ان کے انتخاب کی تصدیق کردی تھی۔
گزشتہ ہفتے بھی نائجر، برکینافاسو اور مالی کو جوڑنے والے ’سہ سرحدی علاقے‘ تیلا باری خطے میں اسی طرح کے ایک حملے میں 66 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
صدر بازو م نے پیر کے روز ایک ٹوئٹ کے ذریعہ متاثرین کے اہل خانہ کے ساتھ تعزیت کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا”بانی بانگاو قتل عام کے واقعے کے بعد گزشتہ روز دہشت گردو ں نے ایک بار پھر اسی بربریت کا مظاہرہ کیا ہے اور انتازائن اور بکورت کی پرامن شہری آبادیوں کو نشانہ بنایا۔“
پیر کے روز ہونے والے دہشت گردانہ حملے نے جنوری میں ہوئے قتل عام کی خوفناک یادیں تازہ کردی ہیں جب تیلاباری کے مینگیز ضلع کے دو گاوں پر انتہاپسندوں نے حملہ کرکے کم ازکم 100 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔
یہ علاقہ جہادی سرگرمیوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے اور تجزیہ کاروں کے مطابق انسداد دہشت گردی کے اقدامات کی وجہ سے صورت حال مزید خراب ہوگئی ہے کیونکہ اس سے نسلی ملیشیا کو تقویت ملی ہے۔
ج ا / ص ز (اے ایف پی، اے پی)
افریقہ میں انسانی اسمگلروں کا تعاقب
ڈی ڈبلیو کے صحافی جان فلپ شولز اور آدریان کریش نے نائجیریا میں انسانوں کے اسمگلروں کے بارے میں چھان بین کی۔ اس دوران وہ پیچھا کرتے ہوئے اٹلی تک جا پہنچے لیکن اس سلسلے میں انہیں خاموشی کی ایک دیوار کا سامنا رہا۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
غربت سے نجات
ان دونوں صحافیوں نے انسانی اسمگلروں کی تلاش کا سلسلہ نائجیریا کی ریاست ایدو کے شہر بینن سے شروع کیا۔ یہاں پر ان دونوں کی جس شخص سے بھی ملاقات ہوئی اس کا کوئی نہ کوئی رشتہ دار یا کوئی دوست یورپ میں رہتا ہے۔ اٹلی میں تین چوتھائی جسم فروش خواتین کا تعلق اسی خطے سے ہے۔ نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری اس علاقے سے ہونے والی ہجرت کی وجہ ہے۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
جھوٹے وعدے
نن بیبینا ایمناہا کئی سالوں سے خاص طور پر نوجوان لڑکیوں کو یورپ کے سفر سے خبردار کر رہی ہیں، ’’زیادہ تر لڑکیاں جھوٹے وعدوں کے چنگل میں پھنس جاتی ہیں۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ ان لڑکیوں سے گھريلو ملازمہ یا دیگر کام کاج کے وعدے کیے جاتے ہیں اور یورپ پہنچنے کی دیر ہوتی ہے کہ یہ جھوٹ عیاں ہو جاتا ہے۔ اس وجہ سے زیادہ تر لڑکیاں جرائم پیشہ گروہوں کے ہاتھ لگ جاتی ہیں۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
انسان لالچی ہے
بہت کوششوں کے بعد ایک انسانی اسمگلر ڈی ڈبلیو کے صحافیوں سے بات کرنے پر راضی ہوا۔اس نے اپنا نام اسٹیو بتایا۔ اس کے مطابق وہ سو سے زائد افراد کو نائجیریا سے لیبیا پہنچا چکا ہے۔ اس نے اپنے گروہ کے پس پردہ رہ کر کام کرنے والے افراد کے بارے میں بتانے سے گریز کرتے ہوئے بتایا کہ وہ صرف ایک سہولت کار ہے۔ اس کے بقول،’’ایدو کے شہری بہت لالچی ہیں اور وہ بہتر مستقبل کے لیے سب کچھ کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔‘‘
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
ہجرت کے خطرناک مراحل
اسٹیو کے بقول وہ نائجیریا سے لیبیا پہچانے کے چھ سو یورو لیتا ہے۔ اسٹیو کے مطابق ان میں زیادہ تر کو بخوبی علم ہے کہ صحارہ سے گزرتے ہوئے لیبیا پہنچنا کتنا مشکل اور خطرناک ہے۔ ’’اس دوران کئی لوگ اپنی جان بھی گنوا چکے ہیں۔‘‘ وہ مہاجرین کو نائجر کے علاقے اگادیز تک پہنچاتا ہے، جہاں سے اس کا ایک اور ساتھی ان لوگوں کو آگے لے کر جاتا ہے۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
’اگادیز‘ انسانی اسمگلروں کی آماجگاہ
ریگستانی علاقہ ’ اگادیز‘ ڈی ڈبلیو کے رپورٹر جان فلپ شولز اور آدریان کریش کے سفر کی اگلی منزل تھی۔ ان دونوں کے مطابق یہ علاقہ انتہائی خطرناک ہے۔ یہاں پر انسانی اسمگلر اور منشیات فروش ہر جانب دکھائی دیتے ہیں اور غیر ملکیوں کے اغواء کے واقعات بھی اکثر رونما ہوتے رہتے ہیں۔ ’اگادیز‘ میں یہ دونوں صحافی صرف مسلح محافظوں کے ساتھ ہی گھوم پھر سکتے تھے۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
سلطان کے لیے بھی ایک مسئلہ
اس صحرائی علاقے کے زیادہ تر لوگ انسانی اسمگلنگ کو ایک مسئلے کے طور پر دیکھتے ہیں اور اگادیز کے سلطان عمر ابراہیم عمر کا بھی یہی خیال ہے کہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے، جسے مقامی سطح پر حل نہیں کیا جا سکتا۔ عمر ابراہیم عمر کا موقف ہے،’’ اگر یورپی یونین چاہتی ہے کہ لوگ بحیرہ روم کے ذریعے یورپ کا سفر نہ کریں تو اسے نائجر کو بھرپور تعاون فراہم کرنا چاہیے۔‘‘
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
’پیر‘ کے قافلے
کئی مہینوں سے ہر پیر کو غروب آفتاب کے بعد کئی ٹرکوں کا ایک قافلہ اگادیز سے شمال کی جانب روانہ ہوتا ہے۔ لیبیا میں سلامتی کی مخدوش صورتحال کی وجہ سے انسانی اسمگلر بغیر کسی رکاوٹ کے اس ملک میں داخل ہوتے ہوئے بحیرہ روم کے کنارے پہنچ جاتے ہیں۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ نائجر کے حکام کو بھی ان سرگرمیوں میں کچھ زیادہ دلچسپی نہیں ہے۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
تعداد بڑھ رہی ہے اور عمر کم ہو رہی ہے
نائجیریا کی زیادہ تر خواتین اٹلی میں جسم فروشوں کے ہاتھ لگ جاتی ہیں۔ سماجی شعبے کی ماہر لیزا بیرتینی کہتی ہیں،’’اعداد و شمار کے مطابق 2014ء میں ایک ہزار سے زائد نائجریئن خواتین بحیرہ روم کے راستے اٹلی پہنچيں۔ 2015ء میں یہ تعداد چار ہزار ہو گئی۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں کہ لڑکیوں کی عمر کم سے کم بتائی جاتی ہے تاکہ ان کی بہتر قیمت وصول کی جا سکے۔
تصویر: DW
’مادام‘ کی تلاش
نائجیریا کے ایک دوست کی مدد سے یہ دونوں صحافی شمالی اٹلی میں ایک مبینہ ’مادام ‘ تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ نائجیریا میں ’دلال‘ کو مادام کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ یہ خاتون فلورنیس کے قریب رہتی تھیں۔ ایک نائجیریئن لڑکی نے بتایا، ’’مادام نے ہم پر تشدد کرتے ہوئے ہمیں جسم فروشی پر مجبور کیا۔‘‘
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
جگہ کم لڑکیاں زیادہ
ڈی ڈبلیو کے صحافیوں جان فلپ شولز اور آدریان کریش نے جب ’مادام‘ سے مختلف الزامات کے بارے میں دریافت کیا تو اس نے تسلیم کیا کہ ان کے گھر میں چھ لڑکیاں موجود ہیں۔ تاہم ساتھ ہی اس نے اس بات کی نفی بھی کی کہ وہ ان لڑکیوں کو جسم فروشی پر مجبور کرتی ہے۔ بعد ازاں ان دونوں صحافیوں نے اس دوران جمع ہونے والی تمام معلومات سے اطالوی حکام کو آگاہ کر دیا تھا۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
غیر فعال ادارے
مونیکا اوشکوے نامی نن نے اس سلسلے میں اطالوی اداروں کی غیر ذمہ داری اور ان کے غیر فعال ہونے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ وہ گزشتہ آٹھ برسوں سے جسم فروشی پر مجبور کی جانے والی خواتین کے لیے کام کر رہی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ مرد بہت کم پیسوں میں اپنی جنسی ہوس مٹانا چاہتے ہیں اور نائجیریا کی کسی خاتون کے ساتھ صرف دس یورو میں ’سیکس‘ کیا جا سکتا ہے۔