افریقی ملک نائجر میں کیے گئے ایک حملے میں کئی فوجیوں کی ہلاکت کی اطلاع ہے۔ اس حملے میں تین امریکی فوجیوں کی ہلاکت کی تصدیق کر دی گئی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/W. Kohsar
اشتہار
امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق بدھ چار اکتوبر کو مغربی افریقی ملک نائجر میں کیے گئے ایک حملے میں متعدد فوجی مارے گئے۔ گھات لگا کر کیے گئے اس حملے کا نشانہ مشترکہ گشت کرنے والے امریکا اور نائجر کے دستے تھے۔ نائجر حکومت نے ہلاک ہونے والے ملکی فوجیوں کی تعداد نہیں بتائی۔
امریکی حکام نے اپنی شناخت مخفی رکھنے کی شرط پر نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ نائجر میں کیے گئے ایک شدید حملے میں امریکا کی خصوصی افواج کے تین کمانڈوز ہلاک اور دو زخمی ہوئے ہیں۔ یہ امریکی نائجر کی فوج کے ہمراہ جنوب مغربی نائجر کے انتظامی علاقے تِیلابیری میں گشت کر رہے تھے۔
تِیلابیری کا علاقہ عدم استحکام کا شکار اور جہادیوں کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ رواں برس کے وسط سے وہاں مسلمان عسکریت پسندوں کے خلاف ملکی فوج نے ایک آپریشن شروع کر رکھا ہے۔ تِیلابیری کی سرحد شورش زدہ ملک مالی سے ملتی ہے۔
امریکا میں وائٹ ہاؤس کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اس حملے اور اس میں ہونے والی ہلاکتوں سے لاس ویگاس میں مطلع کیا گیا تھا۔ امریکی صدر لاس ویگاس میں ہونے والے حملے کے متاثرین سے ملنے گئے تھے۔
امریکی فوجیوں پر حملہ مالی کی سرح پر واقع علاقے میں کیا گیاتصویر: picture-alliance/dpa/N. Armer
امریکا فورسز کی افریقی کمانڈ کے مطابق نائجر میں امریکی فوجی مقامی فوج کی تربیت اور سکیورٹی معاونت کے لیے تعینات ہیں۔ دونوں زخمی امریکی فوجیوں کو نائجر کے دارالحکومت نیامے منتقل کر دیا گیا ہے۔ ہسپتال میں ان فوجیوں کی حالت اب مستحکم بتائی گئی ہے۔ اس حملے کی ذمہ داری ابھی تک کسی گروپ نے قبول نہیں کی۔
اندازہ ہے کہ جنوب مغربی نائجر میں امریکی گرین بیرٹس کمانڈوز کو افریقی حصے ’المغرب‘ میں سرگرم القاعدہ کے عسکریت پسندوں نے نشانہ بنایا ہے۔ نائجر کے مغربی ہمسایہ ملک مالی میں بھی انتہا پسند سرگرم ہیں۔ یہ خدشہ بھی ہے کہ مالی سے مسلم شدت پسندانہ اثرات آہستہ آہستہ دیگر مغربی افریقی ممالک میں پھیل رہے ہیں۔ مالی کے ہمسایہ ملکوں لیبیا، الجزائر اور نائجیریا میں بھی مسلم شدت پسندی کی فعال مسلح تحریکیں موجود ہیں۔
ان امریکی کمانڈوز کو سبز فوجی ٹوپیوں کی وجہ سے ’گرین بیرٹس‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
افریقہ میں انسانی اسمگلروں کا تعاقب
ڈی ڈبلیو کے صحافی جان فلپ شولز اور آدریان کریش نے نائجیریا میں انسانوں کے اسمگلروں کے بارے میں چھان بین کی۔ اس دوران وہ پیچھا کرتے ہوئے اٹلی تک جا پہنچے لیکن اس سلسلے میں انہیں خاموشی کی ایک دیوار کا سامنا رہا۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
غربت سے نجات
ان دونوں صحافیوں نے انسانی اسمگلروں کی تلاش کا سلسلہ نائجیریا کی ریاست ایدو کے شہر بینن سے شروع کیا۔ یہاں پر ان دونوں کی جس شخص سے بھی ملاقات ہوئی اس کا کوئی نہ کوئی رشتہ دار یا کوئی دوست یورپ میں رہتا ہے۔ اٹلی میں تین چوتھائی جسم فروش خواتین کا تعلق اسی خطے سے ہے۔ نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری اس علاقے سے ہونے والی ہجرت کی وجہ ہے۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
جھوٹے وعدے
نن بیبینا ایمناہا کئی سالوں سے خاص طور پر نوجوان لڑکیوں کو یورپ کے سفر سے خبردار کر رہی ہیں، ’’زیادہ تر لڑکیاں جھوٹے وعدوں کے چنگل میں پھنس جاتی ہیں۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ ان لڑکیوں سے گھريلو ملازمہ یا دیگر کام کاج کے وعدے کیے جاتے ہیں اور یورپ پہنچنے کی دیر ہوتی ہے کہ یہ جھوٹ عیاں ہو جاتا ہے۔ اس وجہ سے زیادہ تر لڑکیاں جرائم پیشہ گروہوں کے ہاتھ لگ جاتی ہیں۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
انسان لالچی ہے
بہت کوششوں کے بعد ایک انسانی اسمگلر ڈی ڈبلیو کے صحافیوں سے بات کرنے پر راضی ہوا۔اس نے اپنا نام اسٹیو بتایا۔ اس کے مطابق وہ سو سے زائد افراد کو نائجیریا سے لیبیا پہنچا چکا ہے۔ اس نے اپنے گروہ کے پس پردہ رہ کر کام کرنے والے افراد کے بارے میں بتانے سے گریز کرتے ہوئے بتایا کہ وہ صرف ایک سہولت کار ہے۔ اس کے بقول،’’ایدو کے شہری بہت لالچی ہیں اور وہ بہتر مستقبل کے لیے سب کچھ کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔‘‘
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
ہجرت کے خطرناک مراحل
اسٹیو کے بقول وہ نائجیریا سے لیبیا پہچانے کے چھ سو یورو لیتا ہے۔ اسٹیو کے مطابق ان میں زیادہ تر کو بخوبی علم ہے کہ صحارہ سے گزرتے ہوئے لیبیا پہنچنا کتنا مشکل اور خطرناک ہے۔ ’’اس دوران کئی لوگ اپنی جان بھی گنوا چکے ہیں۔‘‘ وہ مہاجرین کو نائجر کے علاقے اگادیز تک پہنچاتا ہے، جہاں سے اس کا ایک اور ساتھی ان لوگوں کو آگے لے کر جاتا ہے۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
’اگادیز‘ انسانی اسمگلروں کی آماجگاہ
ریگستانی علاقہ ’ اگادیز‘ ڈی ڈبلیو کے رپورٹر جان فلپ شولز اور آدریان کریش کے سفر کی اگلی منزل تھی۔ ان دونوں کے مطابق یہ علاقہ انتہائی خطرناک ہے۔ یہاں پر انسانی اسمگلر اور منشیات فروش ہر جانب دکھائی دیتے ہیں اور غیر ملکیوں کے اغواء کے واقعات بھی اکثر رونما ہوتے رہتے ہیں۔ ’اگادیز‘ میں یہ دونوں صحافی صرف مسلح محافظوں کے ساتھ ہی گھوم پھر سکتے تھے۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
سلطان کے لیے بھی ایک مسئلہ
اس صحرائی علاقے کے زیادہ تر لوگ انسانی اسمگلنگ کو ایک مسئلے کے طور پر دیکھتے ہیں اور اگادیز کے سلطان عمر ابراہیم عمر کا بھی یہی خیال ہے کہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے، جسے مقامی سطح پر حل نہیں کیا جا سکتا۔ عمر ابراہیم عمر کا موقف ہے،’’ اگر یورپی یونین چاہتی ہے کہ لوگ بحیرہ روم کے ذریعے یورپ کا سفر نہ کریں تو اسے نائجر کو بھرپور تعاون فراہم کرنا چاہیے۔‘‘
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
’پیر‘ کے قافلے
کئی مہینوں سے ہر پیر کو غروب آفتاب کے بعد کئی ٹرکوں کا ایک قافلہ اگادیز سے شمال کی جانب روانہ ہوتا ہے۔ لیبیا میں سلامتی کی مخدوش صورتحال کی وجہ سے انسانی اسمگلر بغیر کسی رکاوٹ کے اس ملک میں داخل ہوتے ہوئے بحیرہ روم کے کنارے پہنچ جاتے ہیں۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ نائجر کے حکام کو بھی ان سرگرمیوں میں کچھ زیادہ دلچسپی نہیں ہے۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
تعداد بڑھ رہی ہے اور عمر کم ہو رہی ہے
نائجیریا کی زیادہ تر خواتین اٹلی میں جسم فروشوں کے ہاتھ لگ جاتی ہیں۔ سماجی شعبے کی ماہر لیزا بیرتینی کہتی ہیں،’’اعداد و شمار کے مطابق 2014ء میں ایک ہزار سے زائد نائجریئن خواتین بحیرہ روم کے راستے اٹلی پہنچيں۔ 2015ء میں یہ تعداد چار ہزار ہو گئی۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں کہ لڑکیوں کی عمر کم سے کم بتائی جاتی ہے تاکہ ان کی بہتر قیمت وصول کی جا سکے۔
تصویر: DW
’مادام‘ کی تلاش
نائجیریا کے ایک دوست کی مدد سے یہ دونوں صحافی شمالی اٹلی میں ایک مبینہ ’مادام ‘ تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ نائجیریا میں ’دلال‘ کو مادام کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ یہ خاتون فلورنیس کے قریب رہتی تھیں۔ ایک نائجیریئن لڑکی نے بتایا، ’’مادام نے ہم پر تشدد کرتے ہوئے ہمیں جسم فروشی پر مجبور کیا۔‘‘
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
جگہ کم لڑکیاں زیادہ
ڈی ڈبلیو کے صحافیوں جان فلپ شولز اور آدریان کریش نے جب ’مادام‘ سے مختلف الزامات کے بارے میں دریافت کیا تو اس نے تسلیم کیا کہ ان کے گھر میں چھ لڑکیاں موجود ہیں۔ تاہم ساتھ ہی اس نے اس بات کی نفی بھی کی کہ وہ ان لڑکیوں کو جسم فروشی پر مجبور کرتی ہے۔ بعد ازاں ان دونوں صحافیوں نے اس دوران جمع ہونے والی تمام معلومات سے اطالوی حکام کو آگاہ کر دیا تھا۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
غیر فعال ادارے
مونیکا اوشکوے نامی نن نے اس سلسلے میں اطالوی اداروں کی غیر ذمہ داری اور ان کے غیر فعال ہونے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ وہ گزشتہ آٹھ برسوں سے جسم فروشی پر مجبور کی جانے والی خواتین کے لیے کام کر رہی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ مرد بہت کم پیسوں میں اپنی جنسی ہوس مٹانا چاہتے ہیں اور نائجیریا کی کسی خاتون کے ساتھ صرف دس یورو میں ’سیکس‘ کیا جا سکتا ہے۔