1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نائجیریا: عیسائی مسلم فسادات

29 نومبر 2008

وسطی نائجیریا میں جاری عیسائی مسلم فسادات میں مرنے والوں کی تعداد مبینہ طور پر تین سو سے زائد ہو گئی ہے۔

ان فسادات میں لوگون کے گھروں، مساجد اور گرجا گھروں کو نشانہ بنایہ گیااور کئی ایک کو آگ لگا دی گئی۔تصویر: picture-alliance / dpa

سرکاری ذرائع ہلاک شدگان کی تعداد بیسیوں مین بتا رہے ہیں تاہم ایک سے زائد خبر ایجنسیوں نے متاثرہ علاقے میں مرکزی مسجد کے امام کا حوالہ دیتے ہوئے ہلاک شدگان کی تعداد تین سو سے زائد بتائی ہے۔ نائجیریا کے تاریخ کے ان شدید ترین مذہبی فسادات کے بعد ریاستی حکومت نے غیر معینہ مدت کے لئے کرفیو نافذ کر دیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق ہفتہ کی صبح بیس لاشوں کو مقامی مسجد میں آخری رسومات کے لئے لایا گیا۔ مرنے والوں کے جسموں پر زخموں کے تازہ نشانات تھے۔نائجیریا کی حکومت کی جانب سے ریاست Plateau State کے سرکاری ریڈیو پرکرفیو کے نفاذ کا اعلان کیا گیا۔ حکومت کی طرف سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو حکم دیا گیا ہے کہ جو شخص بھی بد امنی کرتا دکھائی دے اسے گولی مار دی جائے۔

ان فسادات میں لوگون کے گھروں، مساجد اور گرجا گھروں کو نشانہ بنایہ گیااور کئی ایک کو آگ لگا دی گئی۔ مقامی مذہبی رہنماؤں نے بھی ریڈیو پرعوام سے پر امن رہنے کی اپیل کی ہے۔

سیکیورٹی فورسز کے جوان سڑکوں پر گشت کر رہے ہیں۔ Jos شہر میں ان واقعات کی رپورٹنگ کرنے والے ایک صحافی کا کہنا ہے کہ اس نے ایک مسجد میں تین سو اکیاسی افراد کی لاشیں دیکھیں۔ مذہبی فسادات کی وجہ سے ہزاروں افراد شہر چھوڑ کر محفوظ مقامات کی جانب ہجرت کر چکے ہیں۔نائجیریا کی ریاست Plateau کے دارالحکومت Jos کے شمال میں مسلمان اکثریت میں جب کہ جنوب میں عیسائیوں کی اکثریت ہے۔ ریڈ کراس کے مطابق جمعہ کی رات کو ہونے والے فسادات میں کم از کم تین سو افراد زخمی ہوئے۔ ریاستی حکومت کے ایک ترجمان Jonah Jang نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ سڑکوں پرگاڑیوں کی تلاشی کے دوران اب تک سیکڑوں ہتھیار ضبط کئے جا چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان گاڑیوں پر اسلحہ شہر میں لایا جا رہا ہے جو مشتعل افراد میں تقسیم ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان تنازعہ کی ابتداء ضلعی حکومت میں چئیرمین شپ کے الیکشن سے ہوئی۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں