نائجیریا میں سلسلے وار دھماکوں میں پندرہ شہری ہلاک
30 جولائی 2013عینی شاہدین کے مطابق انہوں نے سلسلے وار دھماکوں کی آوازیں سننے کے بعد کئی لاشیں دیکھیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ یہ بم حملے شمالی نائجیریا کے شہر کانو کے علاقے سابون گاری میں کیے گئے جہاں زیادہ تر مسیحی اقلیتی باشندے آباد ہیں۔ واضح رہے کہ نائجیریا کی قریب نصف آبادی مسلمان ہے جس کی اکثریت ملک کے شمالی حصے میں رہتی ہے جبکہ باقی نصف کے قریب آبادی مسیحی باشندوں کی ہے جن کی اکثریت جنوبی علاقوں میں رہتی ہے۔ تازہ ترین بم دھماکوں سے متاثرہ شہر کانو میں کافی عرصے سے شدت پسند مسلمانوں کی ممنوعہ تنظیم بوکو حرام کافی فعال ہے۔
نائجیریا کی فوج کے ترجمان ایکےدیچی ایویھا Ikedichi Iweha نے تسلیم کیا کہ شہر میں بم دھماکے ہوئے ہیں تاہم انہوں نے ہلاکتوں کے سلسلے میں کوئی بھی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ مقامی پولیس ذرائع نے البتہ ہلاکتوں کی تصدیق کر دی ہے۔
ایک مقامی تاجر امیکا مائیک نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ اس نے انوگو نامی سڑک اور شہر کے فاریسٹ ولا نامی ہسپتال کے پاس دو زور دار دھماکے سنے، جن کے بعد دھماکے کی جگہوں پر کئی لاشیں بکھری دیکھی گئیں۔ فوج کی جانب سے یہ بھی واضح نہیں کیا گیا کہ اس حملے کے پیچھے کون سے عناصر یا گروپ کار فرما ہیں یا ہو سکتے ہیں۔
روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق بوکو حرام نے رواں برس مارچ میں کانو کے علاقے سابون گاری ہی میں اسی طرز کا ایک بم حملہ کر کے کم از کم 25 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ بوکو حرام نامی مسلح گروپ ملک کے شمال مشرقی حصے میں ایک اسلامی ریاست کے قیام کے لیے گزشتہ قریب چار برس سے مسلح کارروائیاں کر رہا ہے۔ بوکو حرام کے معنی ’مغربی تعلیم ممنوع‘ کے ہیں اور یہ تنظیم 160 ملین کی آبادی والے اس کثیر المذہبی ملک میں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اکثر اسکولوں کو بھی نشانہ بناتی ہے۔
رواں برس مئی سے اس عسکریت پسند تنظیم کے خلاف ایک خصوصی فوجی آپریشن کیا جارہا ہے، جس کے باعث عسکریت پسند اپنے سابقہ محفوظ ٹھکانوں سے فرار ہوکر مختلف علاقوں میں پھیل گئے ہیں۔سکیورٹی ذرائع خدشات ظاہر کر رہے ہیں کہ عسکریت پسند اب شمالی نائجیریا کے دیگر علاقوں میں پھیل کر وہاں بھی کارروائیاں کر سکتے ہیں۔
روئٹرز کے مطابق بوکو حرام کی کارروائیوں میں اب محض سکیورٹی دستوں کو ہی نشانہ نہیں بنایا جاتا بلکہ اب زیادہ سے زیادہ سویلین بھی اس شدت پسند تنظیم کے ہدف پر ہیں۔ اس کی ایک مثال کے طور پر چار اسکولوں پر کیے گئے ان حالیہ حملوں کا ذکر کیا جاتا ہے، جن میں متعدد بچوں کی ہلاکت ہوئی تھی۔ گزشتہ ماہ ملک کے شمال مشرق میں ایک دور دراز گاؤں میں کیے گئے حملے میں بھی 20 شہری مارے گئے تھے۔