نائن الیون، سی آئی اے کا تشدد اور ’بلیک بینرز‘ کے انکشافات
11 ستمبر 2020امريکا ميں ورلڈ افيئرز کونسل، ڈيلس کے زيرانتظام 9/11 کے حوالے سے ايک اہم گفتگو کا اہتمام کيا گيا۔ اس تقريب کی نظامت کے فرائض "دی نيويارکر" جريدے سے منسلک پولٹزرانعام يافتہ صحافی، لارنس رائٹ اورکونسل سے منسلک جم فاک نے انجام ديے ۔ گفتگو کا موضوع عالمی شہرت يافتہ سابقہ ايف بی آئی ايجنٹ لبنانی نژاد امريکی علی صوفان کی متنازعہ کتاب "دی بليک بينرز- ڈی کلاسيفائيڈ" تھا۔ اس کتاب کے مطابق11/9 کے بعد سی آئی اے کے جسمانی اور ذہنی تشدد کے تفتيشی طريقے نے نہ صرف کارروائی کے مرحلے کی شفافيت کو نقصان پہنچايا بلکہ سی آئی اے کا يہ پروگرام بری طرح سے ناکام بھی ہوا۔
علی صوفان نے اس کتاب ميں سی آئی اے کی پرتشدد حکمت عملی کو تنقيد کا نشانہ بنايا ہے جن ميں زيرحراست افراد پر واٹر بورڈنگ، انہيں سونے نہ دينا، ذہنی دباؤ ميں رکھنا، مسلسل شورميں رکھنا، اوربرہنہ رکھنا جيسے غير انسانی عوامل شامل ہيں۔ صوفان کے مطابق اس پرتشدد تفتيش کے نتيجے ميں انہيں کوئی قابل قدر معلومات فراہم نہيں ہوئيں بلکہ قيديوں نے تشدد سے تنگ آ کر وہ کہا جو انکے خيال ميں افسران سننا چاہتے تھے۔ اس کی مثال ديتے ہوۓ انہوں نے ابن الشيخ اللبی کا نام ليا اورکہا کہ تشدد ميں کی گئی تفتيش کے نتيجے ميں اللبی نے صدام حسين اور اسامہ بن لادن کے بڑۓ پيمانے پر تباہی پھيلانے والے ہتھياروں پرساتھ کام کرنے کی ڈیٹيل فراہم کی جس کا حوالہ کولن پاول نے اپنی اقوام متحدہ کی تقرير ميں بھی ديا جس کی وجہ سے عراق کی جنگ شروع ہوئی۔
سالوں کی جنگ کے بعد جب عراق سے کچھ نہيں ملا اور اللبی سے پوچھا گيا کہ اس نے جھوٹ کيوں بولا تھا تواسکا جواب تھا "دن رات کے تشدد سے بچنے کے ليے"۔ صوفان کا کہنا تھا کہ ايسی کئی مثاليں موجود ہيں۔ ان کا مزيد کہنا تھا کہ 11/9 سے پہلے القاعدہ ميں کل چارسو لوگ شامل تھے جبکہ آج انکی تعداد چاليس ہزارسے بھی زيادہ ہے خاص طورپرعراق کی جنگ اس تعداد ميں اضافے کا سبب بنی ہے۔
ڈی ڈبليو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوۓ اسٹينفرڈ یونيورسٹی کے انٹرنيشنل سکیورٹی کے فيلو ڈاکٹر اسفنديار مير نے اس کتاب کی تعريف کرتے ہوئے کہا کہ سينسر شپ کے بغير اس کتاب کا دوبارہ شائع ہونا علی صوفان کی بہت بڑی فتح ہے۔ انہوں نے يہ بھی کہا کہ اس حوالے سے (ڈی) سينٹر ڈائين فائينسٹين کی سياسی کوششوں کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے جسکی وجہ سے يہ ممکن ہو پايا۔ 11/9 کے بعد خود افاديت، تشدد اور جنگوں کو اس مسئلے کے حل کا جواز بنا کر پيش کيا گيا مگر بيس سال ميں امريکا ميں راۓ عامہکا توازن جذباتی ردعمل سے بہت حد تک شفٹ ہوا ہے۔
صوفان کی یہ کتاب 2011 ء ميں پہلی دفعہ منظر عام پر آئی تھی مگر سی آئی اے نے اس کتاب کے بيشترمواد کو "کلاسيفائيڈ" قرار دے کراس پر کالی لکيريں پھيردی تھيں صوفان کے مطابق سی آئی اے نے اپنی ناکاميوں پر پردہ ڈالنے کے ليے اپنی طاقت کا غلط استعمال کيا تھا۔ مگر يہ کتاب سنسر شپ کے باوجود شائع ہوئی۔ نو سال بعد 11/9 سے چند روز قبل يہ کتاب سنسر شپ کے بغير دوبارہ شائع کی گئی ہے۔ علی صوفان کے مطابق امريکا کی تاريخ ميں پہلی بار کسی انٹيليجنس افسرکی کتاب سنسر ہوئی اور پھر وہی کتاب نو سال بعد سنسرشپ کے بغير دوبارہ شائع ہوئی۔ وہ اسے آزادی اظہار راۓ ميں ايک سنگ ميل قرار ديتے ہيں۔
نيشنل ڈیفنس يونيورسٹی، واشنگٹن ڈی سی ميں انٹرنيشنل ريليشنز کے پروفيسر اور "طالبان ريوائيول" کے مصنف ڈاکٹر حسن عباس نے ڈی ڈبليو سے بات کرتے ہوۓ کہا کہ علی صوفان کی کتاب انکے ايک کورس کا حصّہ ہے۔ انہوں نے صوفان کے "تعميل اور تعاون" کے تصور کو سراہتے ہوۓ کہا کہ 'تعميل' ميں سخت حربے استعمال ہوتے ہيں جبکہ تعاون سے معلومات ملنے کا امکان بڑھ جاتا ہے اور صوفان کا نقطہ نظر مسئلے کا حل تلاش کرنا ہے۔ ڈاکٹر عباس کا کہنا تھا کہ صوفان نے سی آئی اے کے پر تشدد تفتيشی طريقوں پراس وقت تنقيد کی جب یہ آسان يا عام نہيں تھا ۔
صوفان کا کہنا تھا کہ 11/9 کے حملے کو ايف بی آئی، سی آئی آے کی مدد سے روک سکتی تھی مگرسی آئی اے نے اپنی معلومات ايف بی آئی کے ساتھ نہيں بانٹيں جس کی وجہ سے آج ہم ايک مختلف دنیا ميں رہ رہے ہيں۔ صوفان کے کردار کو کئی فلموں ميں ايک نڈر اور قابل افسر کے طور پر پيش کيا گيا ہے۔ صوفان "دی صوفان گروپ" کے سی ای او کے فرائض انجام دے رہے ہيں جو کہ عالمی سطح پر سکیورٹی اور کنسلٹنسی فراہم کرتا ہے۔
مونا کاضم / ک م