1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نائن الیون سے پہلے امریکا کے ساتھ حقانی گروپ کے رابطوں کا انکشاف

12 ستمبر 2012

ان رابطوں کا پتہ اُن دستاویزات سے چلا ہے، جو اب تک خفیہ تھیں تاہم جنہیں 11 ستمبر سن 2001ء کے دہشت گردانہ حملوں کی برسی کے موقع پر ایک امریکی یونیورسٹی کے آرکائیو ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے منظر عام پر لانے کا فیصلہ کیا گیا۔

حقانی نیٹ ورک کے بانی جلال الدین حقانی
تصویر: AP

منگل گیارہ ستمبر کو جاری کی گئی ان دستاویزات کے مطابق افغانستان کے حقانی نیٹ ورک کے بانی جلال الدین حقانی نے گیارہ ستمبر 2001ء کے حملوں سے دو سال پہلے امریکی سفارت کاروں کے ساتھ اپنی ایک ملاقات میں اشتراک عمل اور تعاون کی امید ظاہر کی تھی۔

واضح رہے کہ افغانستان میں پَے در پَے حملوں کے بعد حقانی نیٹ ورک کو، جس پر پاکستان کے ساتھ مبینہ رابطوں کا الزام ہے، ابھی گزشتہ ہفتے ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے کر بلیک لسٹ کر دیا گیا تھا۔ حقانی گروپ کو اُس دور میں امریکا کی حمایت حاصل تھی، جب یہ گروپ افغانستان میں سوویت دستوں کے خلاف برسِر پیکار تھا۔

نائن الیون کی برسی کے موقع پر جاری کردہ امریکی محکمہء خارجہ کی ایک کیبل میں کہا گیا ہے کہ مئی 1999ء میں امریکی حکام نے غیر سرکاری طور پر طالبان حکومت کی نمائندگی کرنے والے اس گروپ کے بانی جلال الدین حقانی سے ملاقات کی تھی۔

اس ملاقات میں اسلام آباد میں واقع امریکی سفارتخانے سے وابستہ ایک امریکی سفارتکار نے طالبان پر زور دیا تھا کہ وہ اسامہ بن لادن کو، جو گیارہ ستمبر 2001ء کے ہولناک المیے سے تین سال پہلے کینیا اور تنزانیہ میں امریکی سفارت خانوں پر بم حملوں کے سلسلے میں مطلوب تھا، افغانستان سے نکال دیں۔

اس کیبل کے مطابق جواب میں حقانی نے اصرار کیا کہ طالبان نے بن لادن پر ’سخت پابندیاں‘ عائد کر رکھی ہیں اور یہ کہ امریکا کے لیے مسئلے کا بہترین حل یہی ہو گا کہ سعودی عرب کا شہری بن لادن افغانستان ہی میں مقیم رہے۔

کیبل کے مطابق اس ملاقات میں حقانی نے ریاست ہائے متحدہ امریکا کے ساتھ مکالمت کی اپیل کی اور سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پر ڈالے جانے والے امریکی دباؤ پر اپنی پریشانی کا اظہار کیا۔ واضح رہے کہ تب تک امریکا کے حلیف ان دونوں عرب ممالک اور پاکستان نے ہی طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا تھا۔

کیبل میں حقانی کے اس بیان کا بھی حوالہ دیا گیا ہے کہ ’ایران، چین اور روس افغانستان کو اپنے کنٹرول میں لانا چاہتے ہیں اور اپنی مرضی کے مطابق چلانا چاہتے ہیں‘۔ مزید یہ کہ ’امریکا اور سعودی عرب افغانستان کو اپنی آزادی برقرار رکھنے میں مدد دے سکتے ہیں۔ ہم سے مزید منہ نہ موڑیں بلکہ ہمارے ساتھ بات چیت کریں‘۔

فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ کے تحت حاصل کی گئی یہ کیبل جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں قائم نیشنل سکیورٹی آرکائیو کی جانب سے جاری کی گئی ہے۔

90ء کے عشرے کے اواخر میں کینیا اور تنزانیہ میں امریکی سفارت خانوں پر حملوں کے بعد سابق صدر بل کلنٹن کے حکم پر کیے جانے والے میزائل حملے میں جلال الدین حفانی کا ایک مدرسہ تباہ ہو گیا تھاتصویر: AP

1999ء کی اس ملاقات میں حقانی نے سوویت فوجوں کے خلاف امریکی حمایت کو سراہا تھا لیکن افریقہ میں امریکی سفارت خانوں پر حملوں کے بعد سابق صدر بل کلنٹن کے حکم پر کیے جانے والے میزائل حملوں کو ہدفِ تنقید بنایا تھا۔

کیبل میں کہا گیا ہے کہ حقانی نے بات چیت کا انداز ہلکے پھلکے انداز میں کیا تھا اور مذاق کے طور پر یہ کہا تھا کہ ’ایک ایسے ملک کے حکام کے ساتھ ملنے کا تجربہ اچھا ہے، جس نے میرے مرکز اور میرے مدرسے کو تباہ کر دیا اور میرے 25 مجاہدین کو ہلاک کر دیا‘۔

یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ یہ ملاقات کہاں ہوئی تھی تاہم اندازہ لگایا گیا ہے کہ شاید یہ ملاقات پاکستان میں کسی مقام پر ہوئی ہو گی۔

کیبل کے مطابق اس ملاقات میں طالبان پر تنقید کا جواب دیتے ہوئے حقانی نے یہ بھی کہا کہ ’سعودی عرب بھی، جو امریکا اور یورپ کا ایک دوست ملک ہے، خواتین کے ساتھ وہی سلوک کرتا ہے، جو طالبان کرتے ہیں‘۔

جلال الدین حقانی اب عمر رسیدہ اور کمزور ہو چکے ہیں اور اُن کے گروپ کی قیادت اُن کے بیٹے سراج الدین حقانی کو منتقل ہو چکی ہے۔

(aa/aba(afp

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں