1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نائن الیون کا مبینہ منصوبہ ساز کٹہرے میں

6 مئی 2012

ایک سال سے زیادہ کے وقفے کے بعد گیارہ ستمبر سن 2001ء کے دہشت گردانہ حملوں کے مبینہ منصوبہ ساز خالد شیخ محمد اور اُس کے چار بڑے معاونین کے خلاف مقدمے کی کارروائی پھر سے شروع ہوئی ہے۔

تصویر: AP

کیوبا میں قائم امریکی حراستی کیمپ گوانتانامو میں ایک فوجی عدالت کے ہاں یہ کارروائی ہفتہ پانچ مئی کو شروع ہوئی۔ کارروائی کے آغاز پر خالد شیخ محمد اور اُس کے چاروں ساتھیوں نے کسی قسم کا بیان دینے سے انکار کر دیا۔ ان پانچوں پر 2976 افراد کے قتل، دہشت گردی اور طیاروں کے اغوا کے الزامات کے تحت فرد جرم عائد کی گئی ہے۔ قصور وار ثابت ہونے پر اِنہیں موت کی سزا بھی سنائی جا سکتی ہے۔

مقدمے کی کارروائی اس بناء پر ملتوی کر دی گئی تھی کہ امریکی صدر باراک اوباما اِن مقدمات کی سماعت کسی فوجی عدالت کی بجائے کسی سویلین کورٹ کے ذریعے کروانا چاہتے تھے۔ اوباما کی یہ کوششیں امریکی کانگریس کی مزاحمت کی وجہ سے ناکام ہو گئیں۔

خالد شیخ محمد نے فوجی عدالت کے کسی سوال کا جواب نہیں دیاتصویر: AP

ہفتہ پانچ مئی کی کارروائی میں عدالت کی جانب سے کیے گئے سوالات کا خالد شیخ محمد نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس کے جواز میں ایک وکیل صفائی نے کہا کہ غالباً اُس کا مؤکل مقدمے کو غیر منصفانہ خیال کرتا ہے۔ جزوی طور پر جرمنی کے شہر ہیمبرگ میں رہائش رکھنے والے یمنی شہری رمزی بن الشیبہ کے ایک وکیل نے کہا کہ اُس کا مؤکل قید سے متعلق سوالات کے سوا اور کسی بھی طرح کے سوالات کا جواب نہیں دے گا۔

پانچوں ملزمان نے عدالت کی طرف سے استفسارات کا کوئی جواب نہ دیا اور اپنے وہ ہیڈ فون اُتار دیے، جن پر اِن استفسارات کا ترجمہ سنایا جا رہا تھا۔ فوجی عدالت کے جج کرنل جیمز پوہل نے واضح کیا کہ وہ مقدمے کی کارروائی کو طول دینے کی کوششوں کو برداشت نہیں کریں گے:’’(ملزمان) کارروائی میں شرکت سے انکار کر سکتے ہیں اور نہ ہی مقدمے کی معمول کی کارروائی کو روک سکتے ہیں۔‘‘ ایک ملزم ولید بن عطش کو کچھ دیر کے لیے ایک بیلٹ کی مدد سے اُس کی کرسی کے ساتھ باندھ دیا گیا تھا۔

گیارہ سمتبر 2001ء کے دہشت گرانہ واقعات میں مرنے والوں کے لواحقین کو براہِ راست ویڈیو لِنک کے ذریعے مقدمے کی کارروائی دیکھنے کی سہولت دی گئی تھی۔تصویر: AP

تجزیہ کاروں کے خیال میں اس مقدمے کی کارروائی طول پکڑے گی۔ ملزم علی عبدالعزیز کے وکیل جیمز کونیل نے کہا کہ ’فرد جرم کا پڑھ کر سنایا جانا محض ایک ایسے عمل کی ابتدا ہے، جو کئی سال تک جاری رہے گا اور جس کے بعد مزید کئی سال اپیل کے عمل میں گزر جائیں گے‘۔ کونیل کے مطابق انہیں ایسی کوئی بھی صورت نظر نہیں آتی کہ یہ سارا عمل چھ ماہ کے اندر اندر اختتام پذیر ہو جائے گا۔

گیارہ سمتبر 2001ء کے دہشت گرانہ واقعات میں مرنے والوں کے لواحقین کو براہِ راست ویڈیو لِنک کے ذریعے مقدمے کی کارروائی دیکھنے کی سہولت دی گئی تھی۔ عدالت کے اندر جا کر اس کارروائی کو براہِ راست دیکھنے کی سہولت محض چند ایک لواحقین کو حاصل ہوئی۔ ایل سینتورا نے، جس کا بیٹا کرسٹوفر فائر بریگیڈ عملے کے ایک رکن کے طور پر ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تباہی کے دوران ہلاک ہو گیا تھا، کہا:’’میری خواہش اُس لمحے کا گواہ بننا ہے، جب ان لوگوں (ملزمان) کو وہ سزا ملے گی، جس کے یہ حقدار ہیں۔‘‘

aa/ah (AP)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں