نائن الیون کے بیس سال: القاعدہ رہنما الظواہری کی نئی ویڈیو
12 ستمبر 2021
امریکا پر نائن الیون کے دہشت گردانہ حملوں کی بیسویں برسی کے موقع پر دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کا ایک نیا ویڈیو پیغام سامنے آیا ہے، جس میں مغربی ممالک اور ان کے اتحادیوں پر حملوں کی وکالت کی گئی ہے۔
اشتہار
لبنانی دارالحکومت بیروت سے اتوار بارہ ستمبر کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق ایمن الظواہری کی یہ نئی ویڈیو گیارہ ستمبر 2001ء کے ٹھیک بیس سال بعد گیارہ ستمبر 2021ء کو جاری کی گئی اور یہ ویڈیو ایک گھنٹہ طویل ہے۔
کل ہفتے کے دن سے سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی اس ویڈیو میں القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کو یہ کہتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے کہ القاعدہ کے حامیوں کو نہ صرف مغربی ممالک بلکہ مشرق وسطیٰ میں ان کے اتحادیوں کے خلاف بھی جنگ کرنا چاہیے۔
جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے نے لکھا ہے کہ یہ ویڈیو گزشتہ برس کے اواخر میں اس وقت سے لے کر اب تک کا ایمن الظواہری کا پہلا پیغام ہے، جب ذرائع ابلاغ میں ایسی غیر مصدقہ رپورٹیں سامنے آئی تھیں کہ دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ کے سربراہ کا انتقال ہو گیا ہے۔
افغان طالبان: عروج، زوال اور پھر عروج تک پہنچنے کی کہانی
امريکا ميں 2001ء کے حملوں کے بعد افغانستان ميں طالبان اور القاعدہ کے خلاف شروع ہونے والی جنگ مطلوبہ نتائج برآمد نہ کر سکی اور آج طالبان قريب پورے ملک پر قابض ہيں۔
تصویر: Imago Images/Russian Look
سوويت افغان جنگ اور مجاہدين
افغانستان ميں سابق سوويت يونين کی افواج اور مجاہدين کے مابين سن 1979 سے لے کر سن 1989 تک جنگ جاری ہے۔ سرد جنگ کے دور ميں سوويت افواج کو شکست دينے کے ليے امريکا، برطانيہ، پاکستان، ايران، سعودی عرب، چين اور ديگر کئی ملکوں نے مجاہدين کی مدد کی۔ 1989ء ميں سوويت افواج کی واپسی کے بعد بھی مجاہدين نے صدر نجيب اللہ کی حکومت کے خاتمے کے ليے مسلح کارروائياں جاری رکھيں۔
تصویر: AP
نجيب اللہ کی حکومت کا خاتمہ اور طالبان کی پيش قدمی
سن 1992 ميں نجيب اللہ کی حکومت کا خاتمہ ہو گيا تاہم افغانستان ميں خونريز خانہ جنگی جاری رہی۔ سوويت افغان جنگ کی خاک سے ابھرنے والا گروہ طالبان 1996ء ميں کابل پر قابض ہو چکا تھا۔ طالبان نے ملک ميں سخت اسلامی قوانين نافذ کر ديے۔ سن 1997 ميں سعودی عرب اور پاکستان نے کابل ميں طالبان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسليم کر ليا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Vyacheslav
القاعدہ اور طالبان ’دہشت گرد‘ قرار
سن 1999 ميں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے قرارداد 1267 منظور کی، جس کے تحت القاعدہ اور طالبان کو دہشت گرد گروہ قرار دے ديا گيا اور ان پر پابنديوں کے ليے ايک کميٹی تشکيل دی گئی۔ طالبان نے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو پناہ گاہيں فراہم کيں، جو افغانستان اور پاکستان سے اپنے گروپ کی قيادت کرتے رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Khan
امريکا ميں گيارہ ستمبر سن 2001 کے حملے
امريکا ميں گيارہ ستمبر سن 2001 کو ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے بعد اٹھارہ ستمبر کو اس وقت امريکی صدر جارج ڈبليو بش نے ايک قرارداد منظور کرتے ہوئے افغانستان ميں طاقت کے استعمال کی اجازت دے دی۔ اسی سال سات اکتوبر کو برطانوی تعاون سے امريکی جنگی طياروں نے شمالی اتحاد، پشتونوں اور طالبان مخالفت گروپوں کی مدد سے افغانستان پر بمباری شروع کی۔
تصویر: AP
طالبان کی حکومت کا خاتمہ
نومبر سن 2001 ميں طالبان شکست سے دوچار ہو گئے۔ اس کے ایک ماہ بعد پانچ دسمبر کو جرمن شہر بون ميں ايک تاريخی کانفرنس منعقد ہوئی، جس ميں افغانستان ميں عبوری حکومت کے قيام کے ليے ايک معاہدے کو حتمی شکل دی گئی، جس کی بعد ازاں اقوام متحدہ نے قرارداد 1383 منظور کرتے ہوئے توثيق کر دی۔ بيس دسمبر کو افغانستان ميں اقوام متحدہ کے امن مشن کی تعيناتی کے ليے سلامتی کونسل ميں قرارداد 1386 منظور کی گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ايک طويل جنگ کا آغاز
افغانستان ميں باقاعدہ طور پر بری فوج کی کارروائی مارچ سن 2002 ميں شروع کی گئی۔ ’آپريشن ايناکونڈا‘ ميں دو ہزار امريکی اور ايک ہزار افغان دستوں نے حصہ ليا۔ اس وقت اندازہ لگايا گيا تھا کہ القاعدہ کے شدت پسندوں کی تعداد لگ بھگ آٹھ سو تھی۔ دريں اثناء پينٹاگون نے عراق پر بھی توجہ دينی شروع کر دی، جس کے بارے ميں خيال تھا کہ امريکی قيادت ميں جاری ’وار آن ٹيرر‘ کا نيا گڑھ عراق بنتا جا رہا ہے۔
تصویر: Vasily Fedosenko/REUTERS
تيس برس بعد انتخابات، جمہوريت کے آثار
سن 2004 ميں افغانستان جمہوريت کی طرف بڑھا۔ نيا آئين منظور ہوا اور صدارتی انتخابات منعقد ہوئے۔ حامد کرزئی فاتح قرار پائے اور صدر بن گئے۔ اگلے سال افغانستان ميں تيس برس بعد پارليمانی انتخابات کا انعقاد ہوا۔
تصویر: AP
افغان مشن ميں توسيع
پھر سن 2009 ميں اس وقت امريکی صدر باراک اوباما نے افغان مشن کو وسعت دی۔ ملک ميں تعينات امريکی دستوں کی تعداد ايک لاکھ تھی۔ ساتھ ہی طالبان نے بھی جنگی سرگرمياں جاری رکھی ہوئی تھيں۔
تصویر: Kevin Lamarque/Reuters
دوحہ ميں غير رسمی ملاقات
افغانستان میں قیام امن کی خاطر مئی 2015ء ميں طالبان اور افغان حکومت کے نمائندگان نے دوحہ ميں غير رسمی ملاقات کی۔ بعد ازاں امريکا اور طالبان کے مابين فروری سن 2020 ميں ڈيل طے ہو گئی۔ ڈيل کی شرائط کے مطابق اسی سال ستمبر تک کابل حکومت اور طالبان کے مابين مذاکراتی عمل بھی شروع ہو گيا۔
تصویر: Nikku/dpa/Xinhua/picture alliance
امريکا اور طالبان کی ڈيل اور آنے والا دور
اس ڈيل کی شرائط ميں افغانستان سے تمام غير ملکی افواج کا انخلاء شامل تھا۔ پھر امريکی صدر جو بائيڈن نے رواں سال اپريل ميں فيصلہ کيا کہ ستمبر تک تمام امريکی دستے افغانستان چھوڑ ديں گے۔ اسی دوران نيٹو نے بھی اپنی افواج واپس بلا ليں۔ انخلاء کا عمل جولائی اگست تک اپنے آخری مراحل ميں داخل ہو چکا تھا اور اسی وقت طالبان ملک کے کئی حصوں پر قابض ہوتے گئے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Sayed
10 تصاویر1 | 10
اس بات کی اب تک کوئی حتمی تصدیق نہیں ہو سکی کہ ایمن الظواہری کا گزشتہ برس واقعی انتقال ہو گیا تھا۔ مزید ابہام اس وجہ سے بھی پیدا ہوتا ہے کہ دہشت گردوں کی جاری کردہ پروپیگنڈا ویڈیوز کا تجزیہ کرنے والے امریکا میں قائم سائٹ انٹیلیجنس گروپ کے مطابق الظواہری کی نئی ویڈیو کی جانچ پڑتال کے بعد یہ کہنا مشکل ہے کہ تقریباﹰ ایک گھنٹے کی یہ ویڈیو کب ریکارڈ کی گئی تھی۔
اشتہار
الظواہری کے سال رواں کے آغاز تک زندہ ہونے کا اشارہ
دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ کے رہنما کی ہفتے کے دن جاری کردہ اس نئی ویڈیو کے بعد کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس فوٹیج سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ الظواہری رواں سال کے آغاز تک زندہ تھے اور گزشتہ برس کے اواخر میں ان کی موت کی رپورٹیں درست نہیں تھیں۔
اس بارے میں سائٹ انٹیلیجنس گروپ کی انتہا پسندانہ ویڈیوز کی ماہر تجزیہ کار ریٹا کاٹس نے کہا کہ اس نئی ویڈیو میں ایمن الظواہری کی طرف سے خانہ جنگی کے شکار ملک شام کے شمال مغرب میں روسی فوج کے ایک قافلے پر کیے گئے ایک ایسے حملے کا حوالہ دیا گیا ہے، جو یکم جنوری کو کیا گیا تھا۔
داعش کیسے وجود میں آئی؟
دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے علیحدہ ہونے والی شدت پسند تنظیم ’داعش‘ جنگجوؤں کی نمایاں تحریک بن چکی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ جہادی گروہ کیسے وجود میں آیا اور اس نے کس حکمت عملی کے تحت اپنا دائرہ کار بڑھایا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کی پیدائش کیسے ہوئی؟
’دولت اسلامیہ‘ یا داعش القاعدہ سے علیحدگی اختیار کرنے والا ایک دہشت گرد گروہ قرار دیا جاتا ہے۔ داعش سنی نظریات کی انتہا پسندانہ تشریحات پر عمل پیرا ہے۔ سن دو ہزار تین میں عراق پر امریکی حملے کے بعد ابو بکر البغدادی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی۔ یہ گروہ شام، عراق اور دیگر علاقوں میں نام نہاد ’خلافت‘ قائم کرنا چاہتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کہاں فعال ہے؟
کہا جاتا ہے کہ ’جہادی‘ گروہ داعش درجن بھر سے زائد ممالک میں فعال ہے۔ سن دو ہزار چودہ میں یہ عراق اور شام کے وسیع تر علاقوں پر قابض رہا اور اس کا نام نہاد دارالحکومت الرقہ قرار دیا جاتا تھا۔ تاہم عالمی طاقتوں کی بھرپور کارروائی کے نتیجے میں اس گروہ کو بالخصوص عراق اور شام میں کئی مقامات پر پسپا کیا جا چکا ہے۔
داعش کے خلاف کون لڑ رہا ہے؟
داعش کے خلاف متعدد گروپ متحرک ہیں۔ اس مقصد کے لیے امریکا کی سربراہی میں پچاس ممالک کا اتحاد ان جنگجوؤں کے خلاف فضائی کارروائی کر رہا ہے۔ اس اتحاد میں عرب ممالک بھی شامل ہیں۔ روس شامی صدر کی حمایت میں داعش کے خلاف کارروائی کر رہا ہے جبکہ مقامی فورسز بشمول کرد پیش مرگہ زمینی کارروائی میں مصروف ہیں۔ عراق کے زیادہ تر علاقوں میں داعش کو شکست دی جا چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/H. Huseyin
داعش کے پاس پیسہ کہاں سے آتا ہے؟
اس گروہ کی آمدنی کا مرکزی ذریعہ تیل اور گیس کی ناجائز فروخت ہے۔ شام کے تقریباً ایک تہائی آئل فیلڈز اب بھی اسی جہادی گروہ کے کنٹرول میں ہیں۔ تاہم امریکی عسکری اتحاد ان اہداف کو نشانہ بنانے میں مصروف ہے۔ یہ گروہ لوٹ مار، تاوان اور قیمتی اور تاریخی اشیاء کی فروخت سے بھی رقوم جمع کرتا ہے۔
تصویر: Getty Images/J. Moore
داعش نے کہاں کہاں حملے کیے؟
دنیا بھر میں ہونے والے متعدد حملوں کی ذمہ داری اس شدت پسند گروہ نے قبول کی ہے۔ اس گروہ نے سب سے خونریز حملہ عراقی دارالحکومت بغداد میں کیا، جس میں کم ازکم دو سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ داعش ایسے افراد کو بھی حملے کرنے کے لیے اکساتا ہے، جن کا اس گروہ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ فرانس، برلن اور برسلز کے علاوہ متعدد یورپی شہروں میں بھی کئی حملوں کی ذمہ داری داعش پر عائد کی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Bilan
داعش کی حکمت عملی کیا ہے؟
یہ شدت پسند گروہ اپنی طاقت میں اضافے کے لیے مختلف طریقے اپناتا ہے۔ داعش کے جنگجوؤں نے شام اور عراق میں لوٹ مار کی اور کئی تاریخی و قدیمی مقامات کو تباہ کر دیا تاکہ ’ثقافتی تباہی‘ کی کوشش کی جا سکے۔ اس گروہ نے مختلف مذہبی اقلیتوں کی ہزاروں خواتین کو غلام بنایا اور اپنے پراپیگنڈے اور بھرتیوں کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال بھی کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eid
شام و عراق کے کتنے لوگ متاثر ہوئے؟
شامی تنازعے کے باعث تقریباً دس ملین افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر نے ہمسایہ ممالک لبنان، اردن، اور ترکی میں پناہ حاصل کی ہے۔ ہزاروں شامی پرسکون زندگی کی خاطر یورپ بھی پہنچ چکے ہیں۔ عراق میں شورش کے نتیجے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تین ملین افراد اپنے ہی ملک میں دربدر ہو چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Souleiman
7 تصاویر1 | 7
افغانستان سے امریکی فوجی انخلا کا تذکرہ
اپنی اسی ویڈیو میں القاعدہ کے رہنما کی طرف سے افغانستان میں بیس سالہ تعیناتی کے بعد وہاں سے امریکی فوجی انخلا کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے۔ الظواہری کے الفاظ میں بیس سالہ جنگ کے بعد امریکا 'ٹوٹا ہوا اور زخمی حالت میں‘ افغانستان سے رخصت ہو رہا ہے۔
اس ویڈیو کے افغانستان سے متعلق حصے میں الظواہری نے ہندو کش کی اس ریاست میں کابل کا کنٹرول حاصل کر لینے سے پہلے القاعدہ کے حلیف طالبان کی مسلسل عسکری پیش قدمی کا کوئی ذکر نہیں کیا۔
عرب ممالک اور اسرائیل کے مابین قربت پر تنقید
القاعدہ کے رہنما نے اس ویڈیو میں چند عرب ممالک کی طرف سے ماضی قریب میں اسرائیل کے ساتھ قائم کیے جانے والے باقاعدہ سفارتی اور تجارتی تعلقات پر تنقید کرتے ہوئے انہیں 'غداری‘ سے تعبیر کیا۔
حقانی نیٹ ورک کیا ہے؟
حقانی نیٹ ورک ایک افغان جنگجو گروہ ہے، جو افغانستان میں مقامی اور امریکی تحادی افواج کے خلاف حالت جنگ میں ہے۔ افغان حکام اور عالمی برادری اسے افغانستان میں فعال ایک انتہائی خطرناک عسکری گروہ قرار دیتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
حقانی نیٹ ورک کب بنا؟
عشروں پہلے سوویت یونین کے دستوں کے خلاف لڑنے والے کمانڈر جلال الدین حقانی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی تھی۔ افغان جنگ کے دوران اسّی کی دہائی میں اس گروہ کو امریکی حمایت بھی حاصل تھی۔ سن 1995 میں اس نیٹ ورک نے طالبان کے ساتھ اتحاد کر لیا تھا۔ 1996ء میں طالبان حقانی نیٹ ورک کی مدد سے ہی کابل پر قبضہ کرنے کے قابل ہوئے تھے۔ سن دو ہزار بارہ میں امریکا نے حقانی نیٹ ورک کو ایک دہشت گرد گروہ قرار دے دیا تھا۔
تصویر: AP
جلال الدین حقانی اور طالبان
طالبان کی حکومت میں جلال الدین حقانی کو قبائلی امور کا وزیر بنا دیا گیا تھا۔ امریکی اتحادی افواج کی کارروائی یعنی سن دو ہزار ایک تک وہ اسی منصب پر فائز رہے۔ امریکی اتحادی افواج نے سن دو ہزار ایک میں ہی طالبان کی خود ساختہ حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ ملا عمر کے بعد جلال الدین حقانی کو طالبان کا معتبر ترین رہنما تصور کیا جاتا ہے۔ حقانی کے اسامہ بن لادن سے بھی قریبی تعلقات تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جلال الدین حقانی کی نجی زندگی
سن 1939 میں افغان صوبے پکتیا میں پیدا ہونے والے جلال الدین حقانی نے پاکستان میں قائم دارالعلوم حقانیہ نامی مدرسے سے تعلیم حاصل کی۔ یہ وہی مدرسہ ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں افغان طالبان کے ساتھ ہمدردی کا عنصر نمایاں ہے۔ جلال الدین حقانی نے دو شادیاں کیں۔ ان کی ایک اہلیہ کا تعلق متحدہ عرب امارات سے بتایا جاتا ہے۔ حقانی کو سنی خلیجی ممالک میں کافی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Str
یہ نیٹ ورک ہے کہاں؟
حقانی نیٹ ورک کا کمانڈ سینٹر مبینہ طور پر پاکستانی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان کے صدر مقام میران شاہ میں قائم ہے۔ امریکی اور افغان حکام کا کہنا ہے کہ اس گروہ کو پاکستانی فوج کی حمایت بھی حاصل ہے اور یہ افغانستان میں سرحد پار کارروائیاں بھی کرتا رہتا ہے۔ تاہم پاکستان یہ الزامات رد کرتا ہے۔ یہ نیٹ ورک افغانستان میں امریکی اور ملکی حکومت کے مفادات کو نشانہ بناتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
سراج الدین حقانی بطور سربراہ
اپنی علالت کے باعث جلال الدین حقانی نے اپنے شدت پسند نیٹ ورک کی قیادت اپنے بیٹے سراج الدین حقانی کو سونپ دی تھی۔ سراج الدین افغان طالبان کا نائب کمانڈر بھی ہے۔ سن دو ہزار پندرہ میں ایسی اطلاعات موصول ہوئی تھیں کہ جلال الدین حقانی انتقال کر گئے تھے تاہم طالبان اور حقانی خاندان نے ان خبروں کی تردید کر دی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سراج الدین حقانی کون ہے؟
حقانی نیٹ ورک کے موجودہ کمانڈر سراج الدین حقانی نے اپنا بچپن میران شاہ میں بسر کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے پشاور کے نواح میں واقع حقانیہ مدرسہ سے تعلیم حاصل کی ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سراج الدین جنگی امور کا ماہر بھی ہے۔ یہ تاثر بھی عام ہے کہ سراج الدین اپنے والد جلال الدین کے مقابلے میں زیادہ انتہا پسندانہ نظریات کا مالک ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
انس حقانی بطور قیدی
جلال الدین حقانی کے متعدد بیٹوں میں سے ایک کا نام انس حقانی ہے، جو ان کی متحدہ عرب امارات سے تعلق رکھنے والی بیوی سے پیدا ہوا تھا۔ انس حقانی اس وقت افغان حکومت کی قید میں ہے اور اسے ایک مقامی عدالت نے سزائے موت سنا رکھی ہے۔ حقانی نیٹ ورک نے خبردار کر رکھا ہے کہ اگر انس کو سنائی گئی سزا پر عمل درآمد کیا گیا، تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/National Directorate of Security
یہ گروہ ہے کتنا بڑا؟
مختلف اندازوں کے مطابق اس گروہ کے جنگجوؤں کی مجموعی تعداد تین تا دس ہزار بنتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس گروہ کی زیادہ فنڈنگ خلیجی ممالک کی طرف سے کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ نیٹ ورک مختلف مجرمانہ کارروائیوں سے بھی اپنے لیے مالی وسائل جمع کرتا ہے، جن میں اغوا برائے تاوان اور لوٹ مار بھی شامل ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
حقانی نیٹ ورک اور دیگر شدت پسند گروہ
حقانی نیٹ ورک کے افغان طالبان کے ساتھ روابط تو واضح ہیں لیکن یہ جنگجو گروہ مختلف دیگر دہشت گرد گروپوں سے بھی دوستانہ تعلقات رکھتا ہے۔ ان میں القاعدہ نیٹ ورک، تحریک طالبان پاکستان، ازبکستان کی اسلامی تحریک اور پاکستان میں قائم ممنوعہ لشکر طیبہ جیسی تنظیمیں بھی شامل ہیں۔ جلال الدین حقانی کے اسامہ بن لادن سے تعلقات تو تھے ہی لیکن وہ القاعدہ کے موجودہ سربراہ ایمن الظواہری سے بھی روابط رکھتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Ausaf Newspaper
پاکستان سے راوبط
امریکی اور افغان حکومتوں کا دعویٰ ہے کہ حقانی نیٹ ورک کو پاکستانی فوج کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کی مدد حاصل ہے۔ تاہم پاکستانی حکومت اور فوج دونوں اس الزام کو مسترد کرتے ہیں۔ واشنگٹن حکومت کا اصرار ہے کہ پاکستانی حکومت کو ملکی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں قائم اس دہشت گرد نیٹ ورک کے خلاف مؤثر کارروائی کرنا چاہیے۔
متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان اور مراکش وہ مسلم اکثریتی خلیجی یا افریقی ممالک ہیں، جنہوں نے گزشتہ برس اسرائیل کو باقاعدہ تسلیم کرتے ہوئے اس کے ساتھ معاہدے کیے تھے اور جن کے اسرائیل کے ساتھ اب باضابطہ تعلقات ہیں۔
الظواہری کے سر کی قیمت
مصر سے تعلق رکھنے والے ایمن الظواہری نے 2011ء میں القاعدہ کے بانی رہنما اسامہ بن لادن کی پاکستانی شہر ایبٹ آباد میں ایک خفیہ امریکی فوجی آپریشن کے دوران ہلاکت کے بعد اس دہشت گرد نیٹ ورک کی قیادت سنبھالی تھی۔
امریکا نے الظواہری کی سر کی قیمت 25 ملین ڈالر مقرر کر رکھی ہے اور انسداد دہشت گردی کے امور کے کئی ماہرین کا اندازہ ہے کہ ایمن الظواہری ممکنہ طور پر پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی علاقے میں کہیں روپوش ہیں۔
م م / ب ج (ڈی پی اے)
نائن الیون: بیس سال بعد کا نیو یارک سٹی
گیارہ ستمبر 2001ء کے حملوں کے بیس برس بعد کچھ زخم مندمل ہو گئے ہیں۔ اس کے باوجود نیو یارک شہر کو لگے زخموں کے کئی نشان باقی ہیں۔ یہ شہر بلند حوصلے کے ساتھ زندہ ہے اور رواں دواں ہے۔
تصویر: Chip Somodevilla/Getty Images
خاموش دعائیہ تقریب
سن 2014 میں نائن الیون نیشنل میموریل اور میوزیم کے افتتاح کے بعد سے اب تک لاکھوں افراد اس مقام کو دیکھنے آ چکے ہیں۔ یہاں ہر سال نائن الیون کی برسی کے موقع پر قریب تین ہزار ہلاک شدگان کو خاموشی سے یاد کیا جاتا ہے۔ غیر ملکی سیاح بھی اس جگہ کو دیکھنے آتے ہیں۔
تصویر: Chip Somodevilla/Getty Images
ورلڈ ٹریڈ سینٹر شعلوں کی لپیٹ میں
انسانی ذہنوں میں ٹھہر جانے والا ایک نقش جلتے ہوئے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے جنوبی ٹاور سے دوسرے ہوائی جہاز کے ٹکرانے کا منظر ہے۔ ان جہازوں کے ٹکرانے کے ایک گھنٹے بعد جنوبی ٹاور منہدم ہو گیا اور پھر شمالی ٹاور کا انجام بھی یہی ہوا۔ تقریباﹰ اسی وقت ایک تیسرا ہوائی جہاز واشنگٹن میں امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کی عمارت سے ٹکرایا تھا۔ یہ واقعات ٹیلی وژن پر پوری دنیا میں دیکھے گئے تھے۔
تصویر: Seth McCallister/AFPI/dpa/picture alliance
تاریخی صدمہ اور نتائج
ان واقعات کا ذمہ دار اسامہ بن لادن اور ان کے دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ کو ٹھہرایا گیا۔ یہ امریکی تاریخ کے شدید ترین حملے تھے۔ ان حملوں کے چند ہفتے بعد امریکا نے افغانستان میں اپنی تاریخ کی طویل ترین جنگ کا آغاز کر دیا۔ اس جنگ کا مقصد القاعدہ کے ٹھکانوں کو تباہ کرنا تھا۔ بعد میں سن 2011 میں اسامہ بن لادن کو پاکستانی شہر ایبٹ آباد میں ڈھونڈ کر امریکا نے ایک خفیہ فوجی آپریشن میں ہلاک کر دیا تھا۔
تصویر: Alex Fuchs/AFP/dpa/picture alliance
نئی اسکائی لائن
وَن ورلڈ ٹریڈ سینٹر گراؤنڈ زیرو پر تعمیر کیا گیا جو نیو یارک سٹی کی باقی تمام عمارات سے قدرے بلند ہے۔ اس کی بلندی چار سو سترہ میٹر ہے۔ یہ بلندی سن 2001 میں تباہ ہونے والے سینٹر جتنی ہی ہے۔ اس کا سنگِ بنیاد امریکی یوم آزادی کی مناسبت سے چار جولائی سن 2004 کو رکھا گیا تھا۔ اس کے تکمیل تعمیر کی تقریب مئی سن 2013 میں منعقد ہوئی تھی۔
تصویر: Ed Jones/AFP/Getty Images
یادگاری، تعلیمی، تعمیراتی انداز
نیشنل ستمبر الیون میموریل اور میوزیم کو ایک دستاویزی، تحقیقی اور ٹیچنگ مرکز کے طور پر تعمیر کیا گیا ہے۔ اس کا تعمیراتی ڈیزائن اسرائیلی امریکی آرکیٹیکٹ مائیکل اراد نے بنایا۔ اس کو دیکھنے ہر سال لاکھوں افراد آتے ہیں۔ صرف سن 2018 میں ہی تیس لاکھ افراد نے اس میوزیم کو دیکھا اور میموریل کو دیکھنے والوں کی تعداد ساٹھ لاکھ سے زائد رہی تھی۔
تصویر: Spencer Platt/Getty Images
گراؤنڈ زیرو سیلفی
بیس برس قبل جس مقام پر تین ہزار کے قریب انسان ہلاک ہوئے تھے، اب وہ مقام شہر کی زندگی میں سما گیا ہے۔ وہ جگہ جس نے نیو یارک شہر اور دنیا کی تاریخ کو تبدیل کیا، اب وہاں پر سیلفی بنانا اور یادگاری اشیاء کی خریداری سیاحوں کے معمولات میں شامل ہو گیا ہے۔
تصویر: Chip Somodevilla/Getty Images
ایک باہمت خاتون کی یاد
ایک چھوٹے سے گروپ نے اکتیس اگست سن 2021 کو لارین گرینڈکولاز کی یادگاری سالگرہ منائی۔ وہ یونائیٹڈ ایئر لائنز کی فلائٹ 93 میں سوار تھیں۔ لارین گرینڈکولاز اور دوسرے مسافروں نے ہائی جیکروں کے ساتھ ہاتھا پائی شروع کر دی تھی اور جہاز پینسلوانیا کے ایک کھیت میں گر گیا تھا۔ لارین اپنی کوشش میں ہلاک ہو گئیں لیکن ان کی کہانی گیارہ ستمبر کے حملوں کے تناظر میں کئی مرتبہ دہرائی جا چکی ہے۔
تصویر: Spencer Platt/Getty Images
کئی یادگاری عمارات
ہڈسن رِیور فرنٹ نائن الیون میموریل نیو جرسی میں واقع ہے۔ یہ یادگار تباہ ہونے والے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی باقیات کو استعمال کر کے تعمیر کی گئی ہے۔ یہ نیو یارک سٹی کے ارد گرد تعمیر کی جانے والی کئی یادگاری عمارات میں سے ایک ہے۔
تصویر: Kena Betancur/AFP/Getty Images
بیس برس بعد
نائن الیون حملوں کے دو عشرے پورے ہو جانے پر نیو یارک شہر اس وقت کورونا کی وبا میں تیس ہزار سے زائد شہریوں کی موت کا سوگ بھی منا رہا ہے۔ اس کے علاوہ یہ شہر حالیہ سمندری طوفان میں بیسیوں افراد کی ہلاکت پر بھی افسردہ ہے۔ لیکن اس شہر میں زندگی رواں دواں ہے اور اس کی کشش کم نہیں ہوئی۔