ناروے: جاسوس اداروں کی توجہ اسلامی انتہا پسندوں تک محدود تھی!
25 جولائی 2011بعض یورپی ماہرین نے خطے کی سکیورٹی سروسز کی سرگرمیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ان خدشات کا اظہار کیا ہے۔ ناروے میں جمعہ کو دو دہشت گردانہ کارروائیوں میں 93 افراد کی ہلاکت کے بعد پہلا عوامی تاثر یہی ابھرا تھا کہ شاید یہ اسلامی انتہا پسندی ہے۔ بعد میں جس شخص نے اعتراف جرم کیا پولیس اسے ’بنیاد پرست مسیحی‘ قرار دے رہی ہے، جس کے سیاسی نظریات کا جھکاؤ دائیں بازو کی جانب ہے۔
تجزیہ نگاروں کے نزدیک آندرس بیہرنگ برییوک نامی یہ ملزم دائیں بازو کی انتہا پسندی کی علامت ہے، جو سکیورٹی ایجنسیوں کی نظروں سے اس لیے بچ نکلا کیونکہ اُن کی زیادہ توجہ اسلامی انتہا پسندوں پر مرکوز تھی۔ سویڈن کی ایکسپو فاؤنڈیشن سے وابستہ ڈینیئل پوھل Daniel Poohl خطے میں دائیں بازوں سے وابستہ افراد کی سرگرمیوں کو مانیٹر کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ برییوک ایک نئی طرز کی دہشت گردی کی نمائندگی کرتا ہے، جسے مسلمان مخالف جذبات نے بھڑکایا ہے۔
ناروے کی انٹیلی جنس ایجنسی نے رواں سال ایک رپورٹ میں تسلیم کیا تھا کہ ملک میں دائیں بازو کے انتہا پسند موجود ہیں مگر ساتھ یہ دعویٰ بھی کیا گیا تھا کہ وہ شاذ و نادر ہی سرگرم دیکھے گئے ہیں۔ ناروے کی پولیس سکیورٹی سروسز PST کی سالانہ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس طرز کے گروپس میں مضبوط قیادت کے فقدان کے سبب ان کی سرگرمیاں محدود ہیں۔
PST نے بھی اسلامی انتہا پسندوں ہی کو ملک کے لئے ممکنہ براہ راست خطرہ ٹہرایا تھا۔ سویڈن میں قوم پرست اور نازی خیالات کے گروپس سے چھٹکارے کے خواہش مندوں کی مدد کرنے والی تنظیم ایگزٹ فاؤنڈیشن سے وابسہ روبرٹ اوئریل Robert Oerell کے خیال میں اسی سوچ سے برییوک نے فائدہ اٹھایا۔
یونیورسٹی آف نوٹنگھم انگلینڈ سے وابستہ پروفیسر میتھیو گڈون کے خیال میں برطانیہ میں بھی صورتحال زیادہ مختلف نہیں،’’ برٹش سکیورٹی ادارے گزشتہ ایک عشرے سے القاعدہ اور شمالی آئرلینڈ کی جانب اتنی زیادہ توجہ دے رہے ہیں کہ دیگر انتہا پسندوں کی جانب ان کی کوئی توجہ نہیں۔‘‘
ناروے میں 93 افراد کو موت کے گھاٹ لگانے والے برییوک کے متعلق کہا جارہا ہے کہ وہ 22 ہزار سے زائد ارکان والے سویڈش نازیوں کے گروپ نورڈسک کا رکن ہے۔ برییوک پیر کو عدالت میں اپنے عمل سے متلق وضاحت پیش کرے گا۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: افسر اعوان