ناروے حملے، انسداد دہشت گردی کے لیے اوباما کی اپیل
23 جولائی 2011امریکہ کے دورے پر گئے ہوئے نیوزی لینڈ کے وزیراعظم جان کی سے ملاقات میں صدر اوباما نے کہا کہ ناروے میں ہونے والے حملے عالمی برادری کے لیے ’’ایک یادہانی ہیں کہ عالمی برادری کو دہشت گردانہ حملوں کی روک تھام کے لیے اپنا اپنا حصہ ملانا ہو گا۔‘‘
امریکی صدر باراک اوباما نے کہا، ’ہمیں ہر حال میں خفیہ معلومات کے تبادلے اور دیگر طریقوں سے دہشت گردی سے بچاؤ کے لیے مل کر کام کرنا ہوگا۔‘‘
صدر اوباما سن 2009ء میں اوسلو کا دورہ کر چکے ہیں۔ وہ وہاں نوبل انعام برائے امن وصول کرنے گئے تھے اور وہاں ناروے کی عوام کی جانب سے ان کا شاندار استقبال کیا گیا تھا۔
انہوں نےکہا کہ وہ اس مشکل گھڑی میں ناورے کی عوام کے ساتھ ہیں اور اس سلسلے میں امریکہ ناروے کی تمام ممکنہ امداد کرے گا: ’’ہمارے دل آپ کے ساتھ دھڑک رہے ہیں اور ہم ناروے کی ہر ممکن حد تک مدد کریں گے۔‘‘
اس موقع پر نیوزی لینڈ کے وزیراعظم جان کی نے کہا کہ اگر یہ حملہ عالمی دہشت گردی کی ہی کڑی ہے، تو اس سے واضح ہے کہ دنیا کا کوئی بھی چھوٹا یا بڑا ملک دہشت گردانہ کارروائیوں سے محفوظ نہیں ہے۔
کی نے کہا، ’یہی وجہ ہے کہ نیوزی لینڈ افغانستان میں اپنا حصہ ملا رہا ہے، تاکہ ایک محفوظ اور بہتر دنیا کے لیے امریکہ اور دیگر ممالک کا ساتھ دیا جائے۔‘
دوسری جانب مغربی ممالک کی طرف سے ناروے میں ہونے والے حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے کہا کہ اس مشکل وقت میں جرمن حکومت اور عوام، ناروے کے ساتھ کھڑے ہیں۔
مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے سربراہ آندرس فوگ راسموسن نے کہا ہےکہ نیٹو دہشت گردانہ کارروائیوں کے خلاف منظم اور متحد ہے۔
واضح رہے کہ ناروے لیبیا میں معمر قذافی کے خلاف نیٹو فوجی کارروائیوں میں شریک ہے، جہاں اس کے لڑاکا طیارے معمر قذافی کی حامی افواج کے خلاف کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ اس کے علاوہ نیٹو کے ممبر ملک ناورے نے افغانستان میں بھی 500 فوجی تعینات کر رکھے ہیں۔ مئی میں ناورے کی فوج کی جانب سے کہا گیا تھا کہ اسے مئی میں سائبر حملے کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
رپورٹ عاطف توقیر
ادارت افسر اعوان