کزن میرج، اوسلو، ناروے، جبری شادی، غیرت
12 جولائی 2020ناروے کے دارالحکومت اوسلو کے پولیس ڈیپارٹمنٹ نے محکمہ قانون کو ایک خط لکھا ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ جبری شادیوں اور غیرت کے نام پر جرائم کی روک تھام کے لیے کزن میرج پر پابندی عائد کی جائے۔ پولیس کی جانب سے لکھے گئے خط میں ناروے کے پبلک ہیلتھ انسٹیٹیوٹ کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیا گیا ہے، جس کے مطابق گزشتہ چار دہائیوں کے دوران ناروے میں مقیم پاکستانیوں کے ہاں پیدا ہونے والے 41 فیصد بچوں کے والدین آپس میں کزنز ہیں۔
میرج ایکٹ اور امیگریشن ایکٹ میں تبدیلی کا بھی مطالبہ
پولیس کی جانب سے اس خط میں مزید کہا گیا ہے کہ آبائی ملکوں میں شادی کا بظاہر مقصد خاندان کے دیگر افراد کیلئے ناروے میں سکونت حاصل کرنا ہے۔ پولیس نے میرج ایکٹ اور امیگریشن ایکٹ میں تبدیلی کا مطالبہ بھی کیا ہے تاکہ ایشیائی ممالک سے شادی کے ذریعے ناروے میں امیگریشن حاصل کرنے کے کلچر کی حوصلہ شکنی کی جا سکے۔
ناروے میں کزن میرج کی قانونی حیثیت پر بحث کئی برسوں سے جاری ہے۔ اوسلو یونیورسٹی ہسپتال کے چلڈرن سنٹر کی ایک تحقیق کے مطابق تارکین وطن میں کزن میرج ان کے بچوں میں جینیاتی طور پر پیدائشی نقائص کی ایک بڑی وجہ ہے۔ دو سال قبل 2018ء میں ناروے کی لیبر پارٹی نے کزن میرج پر پابندی کے لیے پارلیمنٹ میں قانون سازی کی کوشش کی تھی مگر مطلوبہ حمایت حاصل نہ ہونے کے باعث یہ تحریک ناکام ہوگئی تھی۔ اس بار لیبر پارٹی نے پولیس کی مطالبے کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔
'پاکستانی نژاد جرمن خاتون غیرت کے نام پر قتل‘
پاکستانی نژاد وزیر ثقافت بھی پابندی کے حق میں
ناروے میں حکمران لبرل پارٹی کے پاکستانی نژاد وزیر ثقافت عابد قیوم راجہ بھی اس پابندی کے حق میں ہیں۔ ناروے نیشنل ریڈیو پر اپنے ایک بیان میں عابد راجہ نے کہا ہے کہ وہ ذاتی حیثیت میں کزن میرج پر پابندی کے حق میں ہیں تاہم اس پابندی کا اطلاق صرف تارکین وطن پر نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے بتایا کہ خود ان کے والدین بھی ان کی شادی پاکستان میں موجود اپنے خاندان میں کرنا چاہتے تھے لیکن انہوں نے دباؤ کے باوجود اس شادی سے انکار کردیا تھا۔
ناروے امیگریشن فورم کے رہنما اور سابق رکن پارلیمنٹ اطہر علی نے اس مجوزہ قانون کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ شریک حیات کا انتخاب ہر کسی کا ذاتی معاملہ ہے۔ غیرت کے نام پر جرائم پر قابو پانے کے لیے کزن میرج پر پابندی لگانے کی بجائے دیگر اقدامات پر غور کیا جانا چاہیے۔
ناروے میں بسنے والے پاکستانیوں کی اکثریت کا تعلق صوبہ پنجاب کے مختلف اضلاع سے ہے اور نصف سے زیادہ پاکستانی دارالحکومت اوسلو میں رہائش پذیر ہیں۔ گزشتہ 10 سالوں کے دوران پاکستانی خاندانوں میں کزن میرج کے رجحان میں کمی آئی ہے اور ناروے میں پیدا ہونے والی پاکستانیوں کی دوسری نسل، خاندان سے باہر شادی کرنے کو ترجیح دے رہی ہے۔
دنیا بھر میں 10 فیصد سے زیادہ شادیاں کزنز کے درمیان ہوتی ہیں۔ چین، تائیوان اور شمالی کوریا میں کزن میرج کو قانونی طور پر ممنوع قرار دیا گیا ہے۔