1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ناروے کا شہری سینکڑوں بچوں کے ساتھ جنسی استحصال کا ملزم

21 نومبر 2018

ناروے کی پولیس کے مطابق ایک 26 سالہ شخص کو تین سو سے زائد بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے کے الزامات کے تحت مقدمے کا سامنا ہے۔ اسے ناورے میں جنسی زیادتی کے حوالے سے سب سے بڑا مقدمہ قرار دیا جا رہا ہے۔

Symbolbild Revenge Porn
تصویر: picture-alliance/empics

اوسلو شہر میں ریاستی دفتر استغاثہ کے مطابق اس ملزم نے تین سو سے زائد لڑکوں کو جنسی عمل پر مجبور کیا۔ مقامی میڈیا نے اس 26 سالہ شخص کی شناخت ایک فٹ بال ریفری کے طور پر ظاہر کی ہے، جو مبینہ طور پر انٹرنیٹ فورمز اور سمارٹ فون ایپلیکشن سنیپ چیٹ پر خود کو ایک لڑکی ظاہر کر کے لڑکوں کو ہدف بناتا تھا۔ مقامی میڈیا کے مطابق یہ ان لڑکوں سے وعدہ کرتا تھا کہ وہ انہیں شہوت انگیز تصاویر بھیجے گا، اگر وہ انہیں مشت زنی کرنے کی ویڈیوز بنا کر بھیجیں۔

’مجھے شرم آتی ہے، پردہ پوشی کرنے والوں پر‘

ہزاروں بچے جرمن پادریوں کا شکار 

پھر اگر وہ لڑکے اپنی مزید ریکارڈنگز نہ بھیجتے تو یہ انہیں دھمکی دیتا تھا کہ ان کی ویڈیوز وہ انٹرنیٹ پر پوسٹ کر دے گا۔ پولیس کے مطابق اس شخص کے کمپیوٹر سے 16 ہزار سے زائد ویڈیوز ملی ہیں۔

دفترِ استغاثہ کے مطابق سن 2011 سے اب تک اس ملزم نے13 تا 16 برس کی عمروں کے تین سو سے زائد بچوں کو نشانہ بنایا اور ان میں سے بعض کو مبینہ طور پر ریپ بھی کیا۔ حکام کے مطابق اس شخص کے ہاتھوں شکار ہونے والے لڑکے ناروے کے علاوہ سویڈن اور ڈنمارک سے تعلق رکھتے ہیں۔

ریاستی پراسیکیوٹر گورو ہینسن بُل کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے، ’’یہ مقدمہ نہایت سنجیدہ ہے اور یہ ناروے کی آج تک کی تاریخ کا جنسی زیادتی اور استحصال کا سب سے بڑا مقدمہ ہے۔‘‘

جرمنی میں ہزاروں بچے پادریوں کی ہوس کا شکار 

01:16

This browser does not support the video element.

ملزم کے وکیل گُنہِلڈ لیرم نے ایک مقامی نشریاتی ادارے سے بات چیت میں کہا کہ ان کا موکل ان حقائق کو تسلیم کرتا ہے، تاہم ہر انفرادی الزام کا جواب اسے دینا ہے۔ واضح رہے کہ اس ملزم کو سن 2016 میں حراست میں لیا گیا تھا اور ممکنہ طور پر اسے سن 2019 میں باقاعدہ طور پر مقدمے کا سامنا کرنا ہو گا۔

نتالیہ الیکس میولر، ع ت، الف الف (روئٹرز، اے ایف پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں