ناروے کی حکومت نے ہم جنس پسند افراد سے باضابطہ طور پر سرکاری طور پر معافی مانگ لی ہے۔ اس یورپی ملک میں تقریبا پچاس برس تک ہم جنسوں کے مابین جنسی عمل قابل سزا جرم رہا تھا۔
اشتہار
گزشتہ ہفتے ہی ناروے کے وزیر اعظم یونس گار سٹورے نے ہم جنس پسندوں سے سرکاری طور پر معافی مانگی اور اس امر کا اعتراف کیا کہ مختلف جنسی میلانات اور رحجانات کے حامل افراد کے خلاف بنائے گئے اس قانون کے تحت ہم جنس پسند افراد ریاستی سطح پر تفریق کا نشانہ بنے تھے۔
ناروے میں سن 1902 تا 1950ء ہم جنس پسندوں کے مابین جنسی تعلق کو مجرمانہ نوعیت کا ایک عمل بنا دیا گیا تھا۔ تاہم اکیس اپریل سن 1972 کو اس قانون کو کالعدم قرار دے دیا گیا تھا۔
اس قانون کے خاتمے کے پچاس برس بعد ناروے کی حکومت نے ریاستی سطح پر ہم جنس پسندوں سے معذرت کی ہے۔ ناروے میں اس قانون کے تحت 119 افراد کو سزائیں سنائیں گئی تھیں۔
نارویجین وزیر اعظم سٹورے نے بدھ کے دن کہا کہ 'نہ صرف اس قانون سازی بلکہ ہم جنس پسندوں کے خلاف مختلف پابندیاں عائد کر کے ہم نے بطور ایک قوم اور معاشرے یہ پیغام دیا تھا کہ ہم ایسے لوگوں کے پیار کے حق میں نہیں ہیں۔ آج حکومت اس بات پر ہم جنس پسندوں سے معذرت خواہ ہے‘۔
ایسے ممالک جہاں ہم جنس پسند شادی کر سکتے ہیں
تائیوان ایشیا کا پہلا ملک بن گیا ہے، جہاں ہم جنس پسند قانونی طور پر شادی کر سکتے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اب تک کن ممالک میں ہم جنس پسندوں کی شادیوں کو ریاستی تحفظ فراہم کیا جا چکا ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images/S. Yeh
ہالینڈ، سن دو ہزار ایک
ہالینڈ دنیا کا پہلا ملک تھا، جہاں ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کی اجازت دی گئی۔ ڈچ پارلیمان نے اس تناظر میں سن دو ہزار میں ایک قانون کی منظوری دی تھی۔ یکم اپریل سن دو ہزار ایک کو دنیا میں پہلی مرتبہ دو مردوں کے مابین شادی کی قانونی تقریب منعقد ہوئی۔ یہ شادی تھی اس وقت ایمسٹرڈیم کے میئر جاب کوہن کی۔ اب ہالینڈ میں ہم جنس جوڑے بچوں کو بھی گود لے سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/ANP/M. Antonisse
بیلجیم، سن دو ہزار تین
ہالینڈ کا ہمسایہ ملک بیلجیم دنیا کا دوسرا ملک تھا، جہاں پارلیمان نے ہم جنس پسندوں کی شادی کو قانونی اجازت دی گئی۔ سن دو ہزار تین میں ملکی پارلیمان نے قانون منظور کیا کہ خواتین یا مرد اگر آپس میں شادی کرتے ہیں تو انہیں وہی حقوق حاصل ہوں گے، جو شادی شدہ جوڑوں کو حاصل ہوتے ہیں۔ اس قانون کے منظور ہونے کے تین برس بعد ہم جنس جوڑوں کو بچے گود لینے کی اجازت بھی دے دی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/J. Warnand
ارجنٹائن، سن دو ہزار دس
ارجنٹائن لاطینی امریکا کا پہلا جبکہ عالمی سطح پر دسواں ملک تھا، جہاں ہم جنسوں کے مابین شادی کو ریاستی تحفظ فراہم کیا گیا۔ جولائی سن دو ہزار دس میں ملکی سینیٹ میں یہ قانون 33 ووٹوں کے ساتھ منظور ہوا جبکہ 27 ووٹ اس کے خلاف دیے گئے۔ اسی برس پرتگال اور آئس لینڈ نے بھی ہم جنس پسندوں کی شادی کو قانونی بنانے کے حوالے سے قوانین منظور کیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/L. La Valle
ڈنمارک، سن دو ہزار بارہ
ڈنمارک کی پارلیمان نے جون سن دو ہزار بارہ میں بڑی اکثریت کے ساتھ ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کی قانونی اجازت دی۔ اسکینڈے نیویا کا یہ چھوٹا سا ملک سن 1989 میں اس وقت خبروں کی زینت بنا تھا، جب وہاں ہم جنس جوڑوں کو سول پارٹنرشپ کے حقوق دیے گئے تھے۔ ڈنمارک میں سن دو ہزار نو سے ہم جنس پسندوں کو اجازت ہے کہ وہ بچے گود لے سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/CITYPRESS 24/H. Lundquist
نیوزی لینڈ، سن دو ہزار تیرہ
نیوزی لینڈ میں ہم جنس پسند مردوں اور خواتین کو شادی کی اجازت سن دو ہزار تیرہ میں ملی۔ یہ ایشیا پیسفک کا پہلا جبکہ دنیا کا پندرہواں ملک تھا، جہاں ہم جنس پسندوں کو شادی کی اجازت دی گئی۔ نیوزی لینڈ میں انیس اگست کو ہم جنس پسند خواتین لینلی بنڈال اور ایلی وانیک کی شادی ہوئی۔ فرانس نے بھی سن دو ہزار تیرہ میں ہم جنس پسندوں کو شادی کی قانونی اجازت دی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/Air New Zealand
آئر لینڈ، سن دو ہزار پندرہ
آئرلینڈ ایسا پہلا ملک ہے، جہاں ایک ریفرنڈم کے ذریعے ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کی اجازت کا قانون منظور ہوا۔ اس ریفرنڈم میں دو تہائی سے زائد اکثریت نے ہم جنسوں کے مابین شادی کی حمایت کی تو تب ہزاروں افراد نے دارالحکومت ڈبلن کی سڑکوں پر نکل کر خوشیاں منائیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/A. Crawley
امریکا، سن دو ہزار پندرہ
امریکا میں چھبیس جون سن دو ہزار پندرہ کو سپریم کورٹ نے تاریخی فیصلہ سنایا کہ ملکی آئین ہم جنسوں کی مابین شادیوں کی قانونی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ اسی فیصلے کی بدولت امریکا بھر میں ہم جنس جوڑوں کے مابین شادی کی راہ ہموار ہوئی۔ اس سے قبل بارہ برس تک امریکی سپریم کورٹ نے ہم جنس پسند افراد کے مابین شادی کو غیر آئینی قرار دیے رکھا تھا۔
جرمنی یورپ کا پندرہواں ملک تھا، جہاں ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کی قانونی اجازت دی گئی۔ تیس جون کو بنڈس ٹاگ میں 226 کے مقابلے میں یہ قانون 393 ووٹوں سے منظور کیا گیا۔ اگرچہ جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اس قانون کے خلاف ووٹ دیا تاہم انہوں نے اس کے منظور کیے جانے میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہ کی۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA Wire/O. Messinger
آسٹریلیا، سن دو ہزار سترہ۔ اٹھارہ
آسٹریلوی میں ایک پوسٹل سروے کرایا گیا، جس سے معلوم ہوا کہ اس ملک کی اکثریت ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کی حمایت کرتی ہے تو ملکی پارلیمان نے دسمبر 2017 میں اس سلسلے میں ایک قانون منظور کر لیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Hamilton
تائیوان، سن دو ہزار انیس
تائیوان ایشیا کا پہلا ملک ہے، جہاں ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کو قانونی تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ سترہ مئی سن دو ہزار سترہ کو ملکی پارلیمان نے اس حوالے سے ایک تاریخی مسودہ قانون منظور کیا۔ اس قانون کی منظوری پر صدر نے کہا کہ ’حقیقی برابری کی طرف یہ ایک بڑا قدم ہے‘۔
تصویر: dapd
10 تصاویر1 | 10
ناروے میں سن انیس سو بہتر میں ہم جنس پسندی کے خلاف تمام تر قوانین کو ختم کر دیا تھا۔ اس ملک میں سن 1993 میں ہم جنس پسندوں کو سول پارٹنر شپ کی اجازت دیتے ہوئے قانونی تحفظ فراہم کیا گیا تھا۔
اس اقدام کے نتیجے میں سویڈٰن کے بعد ناروے دنیا کا ایسا دوسرا ملک بن گیا تھا، جہاں ہم جنس پسندوں کو قانونی تحفظ دینے کی خاطر باقاعدہ قانون سازی کی گئی تھی۔
سن دو ہزار نو میں ناروے کی حکومت نے ہم جنس پسند مردوں یا عورتوں کے مابین شادی کو بھی قانونی حیثیت دے دی تھی۔ اس قانون کے تحت ہم جنس شادی شدہ افراد کو وہی حقوق دیے گئے تھے، جو دیگر شادی شدہ افراد کو حاصل ہیں۔
ناروے کی کلچر اور صنفی حقوق کی وزیر انیتا ٹریٹیبرگ سٹیون نے کہا ہے کہ اس قانون نے بہت سے زندگیوں کو تباہ کیا تھا۔ وہ خود بھی ہم جنس پسند ہیں۔ ان کے بقول حکومت کی طرف سے سرکاری معافی سے ہم جنس پسندوں کے خلاف فرسودہ خیالات کے خاتمے میں مزید مدد ملے گی۔