نازی جرمن اذیتی کیمپ کے سابق محافظ کو پانچ سال سزائے قید
28 جون 2022
جرمنی میں نازی دور کے ایک سابقہ اذیتی کیمپ کے اب 101 سالہ سابق محافظ کو پانچ سال کی سزائے قید سنا دی گئی۔ ملزم یوزیف شُؤٹس جتنا عرصہ اس اذیتی کیمپ کا گارڈ تھا، اس دوران وہاں ساڑھے تین ہزار سے زائد قیدی ہلاک کیے گئے تھے۔
اشتہار
جرمنی میں دوسری عالمی جنگ کے دوران نازی حکمرانوں اور ان کے دور میں کام کرنے والے سرکاری ملازمین کے خلاف مقدمات میں سے اس مقدمے کو اس لیے خصوصی اہمیت حاصل تھی کہ ملزم یوزیف شُؤٹس آج تک کا وہ سب سے عمر رسیدہ ترین ملزم ہے، جسے اپنے خلاف ہولوکاسٹ سے جڑے قتل عام کے واقعات سے متعلق الزامات کا سامنا تھا۔
یہ سابقہ نازی کیمپ گارڈ 1942ء سے لے کر 1945ء تک کے عرصے میں برلن کے شمال میں واقع اورانیئن بُرگ نامی مقام پر قائم زاکسن ہاؤزن اذیتی کیمپ کا محافظ رہا تھا، جہاں اسی عرصے میں 3,518 قیدیوں کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔
ملزم کا اپنے بے قصور ہونے کا دعویٰ
یوزیف شُؤٹس ایک پینشنر ہے، جس کی عمر اس وقت 101 برس ہے اور وہ برلن کے ہمسایہ وفاقی جرمن صوبے برانڈن بُرگ میں رہتا ہے۔ اس پر ساڑھے تین ہزار سے زائد انسانوں کے قتل میں معاونت کا الزام تھا۔ اس مقدمے میں عدالت نے اسے آج منگل 28 جون کے روز پانچ سال قید کی سزا سنائی۔
مقدمے کی سماعت کے دوران ملزم نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ بے قصور ہے اور ان نے 'قطعاﹰ کچھ بھی نہیں‘ کیا تھا۔ یوزیف شُؤٹس نے عدالت کو بتایا تھا کہ اسے زاکسن ہاؤزن کے اذیتی کیمپ کے گارڈ کے طور پر اپنی ملازمت کے عرصے میں کبھی یہ علم نہیں ہو سکا تھا کہ وہاں انسانوں کے قتل عام کی صورت میں خوفناک جرائم کا ارتکاب کیا جاتا رہا تھا۔
اشتہار
شواہد کی بنیاد پر استغاثہ کا الزام
ملزم کے دعووں کے برعکس استغاثہ کا اصرار تھا کہ یوزیف شُؤٹس کو اچھی طرح جانتا تھا کہ 1940ء کی دہائی کے پہلے نصف حصے میں زاکسن ہاؤزن کے نازی اذیتی کیمپ میں کیا کچھ ہوتا رہا تھا۔
استغاثہ کے مطابق ملزم نے 'جانتے بوجھتے ہوئے اور دانستہ‘ وہاں کیے جانے والے جرائم میں حصہ لیا اور اسی لیے بہت ضعیف العمری کی وجہ سے اسے کم از کم بھی پانچ سال کی سزائے قید سنائی جانا چاہیے تھی۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں ملزم کو اس کے خلاف لگائے گئے الزامات میں قصور وار قرار دیا اور اسے استغاثہ کے حسب مطالبہ پانچ سال قید کی سزا سنا دی۔
اس کیمپ میں دو لاکھ سے زائد قیدی رکھے گئے تھے
نازی دور میں قائم کیے گئے اذیتی کیمپوں میں سے زاکسن ہاؤزن کا اذیتی کیمپ 1936ء میں قائم کیا گیا تھا، جہاں 1945ء تک مجموعی طور پر دو لاکھ سے زائد قیدیوں کو رکھا گیا تھا۔ ان میں سے بہت بڑی اکثریت یہودیوں کی تھی۔ تاہم یہودیوں کے علاوہ وہاں لائے جانے والے اور بعد ازاں زیادہ تر ہلاک کر دیے جانے والے قیدیوں میں روما اور سنتی نسل کے یورپی خانہ بدوش باشندے، نازی حکومت کے مخالفین اور بہت سے ہم جنس پرست افراد بھی شامل تھے۔
زاکسن ہاؤزن میموریل اور میوزیم کے اعداد و شمار کے مطابق اس نازی کیمپ کو 1945ء میں سابق سوویت یونین کے فوجی دستوں نے آزاد کرایا تھا۔ تب تک لیکن جبری مشقت، قتل عام، خوفناک قسم کے طبی تجربات، بھوک اور بیماریوں کے باعث اس کیمپ کے دو لاکھ سے زائد قیدیوں میں سے بیسیوں ہزار ہلاک ہو چکے تھے۔
جرائم کے ارتکاب کے وقت ملزم کی عمر
ملزم یوزیف شُؤٹس پر لگائے گئے الزامات میں یہ الزام بھی شامل تھا کہ اس نے 1942ء میں اس کیمپ میں نازی فوجیوں کی طرف سے لائے گئے سابق سوویت یونین کے فوجیوں کی قیدیوں کے طور پر فائرنگ اسکواڈ کے ہاتھوں ہلاکت میں عملی مدد بھی کی تھی۔
اس کے علاوہ ملزم اسی کیمپ کے قیدیوں کو ہلاک کرنے کے لیے اس زہریلی گیس کے استعمال میں بھی شامل رہا تھا، جو 'سائیکلون بی‘ کہلاتی تھی اور جس کے ذریعے ہر بار سینکڑوں کی تعداد میں قیدیوں کو گیس چیمبرز میں بھر کر ہلاک کر دیا جاتا تھا۔
کیمپ کے گارڈ کے طور پر جس وقت ملزم ان تمام جرائم کا مرتکب ہوا، تب اس کی عمر 21 برس تھی۔
جرمن تاريخ کا ايک سياہ باب: یہودیوں کی املاک پر نازیوں کے حملے
نو اور دس نومبر 1938ء کو نازی جرمنی میں یہودی مخالف واقعات رونما ہوئے، جنہیں ’کرسٹال ناخٹ‘ یعنی ’ٹوٹے ہوئے شیشوں کی رات’ کہا جاتا ہے۔ اُس رات یہودی عبادت گاہوں اوراملاک پر حملوں کے نتیجے میں سڑکوں پر شیشے بکھر گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Schreiber
نو اور دس نومبرکی رات کیا ہوا تھا؟
نازی نیم فوجی دستے ’ایس اے‘ کی قیادت میں سامیت مخالف شہریوں کا مجمع جرمنی کی سڑکوں پر نکلا۔ مشرقی جرمن شہر کیمنٹس کی اس یہودی عبادت گاہ کی طرح دیگرعلاقوں میں بھی یہودیوں کی املاک پر حملے کیے گئے۔ اندازے کے مطابق صرف ایک رات میں یہودیوں کے زیر ملکیت کم ازکم ساڑھے سات ہزار کاروباری مراکز کو نقصان پہنچایا گیا اور سامان لوٹا گیا۔
تصویر: picture alliance
نام کے پیچھے کیا پوشیدہ ہےِ؟
جرمن یہودیوں کے خلاف ہونے والے اس تشدد کو مختلف ناموں سے جانا جاتا ہے۔ برلن میں اسے ’کرسٹال ناخٹ‘ (Night of Broken Glass) کہتے ہیں، جس کے اردو میں معنی ہیں ’ٹوٹے ہوئے شیشوں کی رات‘۔ اُس رات یہودی عبادت گاہوں، گھروں اور یہودیوں کے کاروباری مراکز پر منظم حملوں اور تباہی کے نتیجے میں جرمنی کی سڑکوں پر جگہ جگہ شیشے بکھر گئے تھے۔
تصویر: picture alliance/akg-images
سرکاری موقف کیا تھا؟
یہ واقعات ایک جرمن سفارت کار ارنسٹ فوم راتھ کے ایک سترہ سالہ یہودی ہیرشل گرنزپان کے ہاتھوں قتل کے بعد شروع ہوئے تھے۔ راتھ کو سات نومبر کو پیرس میں جرمن سفارت خانے میں قریب سے گولی ماری گئی تھی اور وہ ایک دن بعد انتقال کر گئے تھے۔ گرنزپان کو سزائے موت نہیں دی گئی تھی لیکن کسی کو یہ نہیں علم کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کيا گيا تھا۔
تصویر: picture-alliance/Imagno/Schostal Archiv
حملے اور تشدد کیسے شروع ہوا؟
سفارت کار ارنسٹ فوم راتھ کے قتل کے بعد اڈولف ہٹلر نے اپنے پروپگینڈا وزیر جوزیف گوئبلز کو یہ کارروائی شروع کرنے کی اجازت دی تھی۔ اس سے قبل ہی کچھ مقامات پر ہنگامہ آرائی شروع ہو چکی تھی۔ گوئبلز نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ نازی یہودیوں کے خلاف اچانک شروع ہونے والے کسی بھی احتجاج کو نہيں روکیں گے۔ اس دوران جرمنوں کی زندگیوں اور املاک کی حفاظت کرنے کی بھی ہدایات دی گئی تھیں۔
تصویر: dpa/everettcollection
کیا یہ تشدد عوامی غصے کا اظہار تھا؟
ایسا نہیں تھا، بس یہ نازی جماعت کی سوچ کا عکاس تھا، لیکن کوئی بھی اسے سچ نہیں سمجھ رہا تھا۔ نازی دستاویزات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ان حملوں اور تشدد کا منصوبہ پہلے ہی تیار کیا جا چکا تھا۔ یہ غیر واضح ہے کہ اس بارے میں عام جرمن شہریوں کی رائے کیا تھی۔ اس تصویر میں ایک جوڑا ایک تباہ حال دکان کو دیکھ کر مسکرا رہا ہے اور شہریوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہی رائے رکھتی تھی۔
اپنے نسل پرستانہ نظریات کی وجہ سے نازی چاہتے تھے کہ یہودی رضاکارانہ طور پر جرمنی چھوڑ دیں۔ اس مقصد کے لیے یہودیوں کو سڑکوں پر گھمایا جاتا تھا ور سرعام ان کی تذلیل کی جاتی تھی۔ اس تصویر میں یہ منظر دیکھا جا سکتا ہے۔ نازیوں کے ظلم و ستم سے پریشان ہو کر فرار ہونے والے یہودیوں پر مختلف قسم کے محصولات عائد کیے گئے اور اکثر ان کی املاک بھی ضبط کر لی گئی تھیں۔
تصویر: gemeinfrei
کیا نازی اپنے مقصد میں کامیاب رہے؟
ان پرتشدد واقعات کے بعد جرمن یہودیوں اور ملک چھوڑ جانے والوں کو نازیوں کے ارادوں کے بارے میں کوئی شکوک وشبہات نہیں رہے تھے۔ تاہم اس طرح کے کھلے عام تشدد پر غیر ملکی میڈیا میں کڑی تنقید کی گئی۔ اس کے بعد یہودیوں پر لازم کر دیا گیا کہ وہ اپنے لباس پر پیلے رنگ کا ستارہ داودی لگا کر باہر نکلیں گے۔
تصویر: gemeinfrei
حملوں کے بعد کیا ہوا؟
ان حملوں کے بعد نازی حکام نے یہودی مخالف اقدامات کی بوچھاڑ کر دی، جن میں ایک طرح کا ایک ٹیکس بھی عائد کرنا تھا۔ اس کا مقصد ہنگامہ آرائی کے دوران ہونے والے نقصان کی ادائیگی تھا۔ کرسٹال ناخٹ اور اس کے بعد کی دیگر کارروائیوں میں ایک اندازے کے مطابق تقریباﹰ تیس ہزار یہودیوں کو قیدی بنا لیا گیا تھا، کئی ہلاک ہوئے اور باقی یہودیوں کو جرمن علاقوں کو چھوڑ کر چلے جانے کے وعدے کے بعد آزاد کیا گیا تھا۔
تصویر: AP
کرسٹال ناخٹ کا تاریخ میں کیا مقام ہے؟
1938ء میں ہولوکاسٹ یعنی یہودیوں کا قتل عام شروع ہونے میں ابھی دو سال باقی تھے۔ عصر حاضر کے ایک تاریخ دان کے مطابق کرسٹال ناخٹ کے دوران کی جانے والی کارروائیوں کا مقصد یہودیوں کو اقتصادی اور سماجی طور پر تنہا کرنا تھا اور انہیں اس بات پر مجبور کرنا تھا کہ وہ جرمن علاقے چھوڑ دیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس دوران91 یہودی شہری ہلاک ہوئے جبکہ کہا جاتا ہے کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔
تصویر: Imago
9 تصاویر1 | 9
دوسری عالمی جنگ کے بعد بطور قیدی سوویت یونین منتقلی
دوسری عالمی جنگ کے آخری مہینوں میں جب زاکسن ہاؤزن کا اذیتی کیمپ آزاد کرایا گیا، تو سوویت یونین کے دستوں نے ملزم شُؤٹس کو روس کی ایک جیل میں منتقل کر دیا تھا۔ اس جیل سے رہائی کے بعد جب وہ واپس جرمنی آیا، تو اس نے پہلے ایک کسان اور پھر ایک لوہار کے طور پر کام کرنا شروع کر دیا تھا۔
یوزیف شُؤٹس کے خلاف اس مقدمے کی سماعت 2021ء میں شروع ہوئی تھی۔ عدالتی کارروائی کے عرصے میں وہ قید میں رکھے جانے کے بجائے آزاد ہی رہا تھا۔ اس مقدمے کی کارروائی کئی مرتبہ ملزم کی خراب صحت کی بنیاد پر ملتوی بھی کرنا پڑی تھی۔
شُؤٹس کو اگرچہ اب سزائے قید سنا دی گئی ہے، تاہم اس کی عمر اور خراب صحت کی وجہ سے یہ امکان بہت کم ہے کہ اسے یہ سزا کاٹنے کے لیے واقعی جیل بھی بھیج دیا جائے۔
ملزم کے وکیل صفائی کے مطابق یوزیف شُؤٹس اس عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
م م / ک م (اے ایف پی، ڈی پی اے)
نازی جرمنی: ہٹلر دورِ حکومت کے چوٹی کے قائدین
جرمن نیشنل سوشلسٹ ورکرز پارٹی نے اپنے نظریات، پراپیگنڈے اور جرائم کے ساتھ بیس ویں صدی کی عالمی تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ آئیے دیکھیں کہ اس تحریک میں کلیدی اہمیت کے حامل رہنما کون کون سے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جوزیف گوئبلز (1897-1945)
ہٹلر کے پراپیگنڈا منسٹر کے طور پر نازی سوشلسٹوں کا پیغام ’تھرڈ رائش‘ کے ہر شہری تک پہنچانا ایک کٹر سامی دشمن گوئبلز کی سب سے بڑی ذمہ داری تھی۔ گوئبلز نے پریس کی آزادی پر قدغنیں لگائیں، ہر طرح کے ذرائع ابلاغ، فنون اور معلومات پر حکومتی کنٹرول سخت کر دیا اور ہٹلر کو ’ٹوٹل وار‘ یا ’مکمل جنگ‘ پر اُکسایا۔ گوئبلز نے 1945ء میں اپنے چھ بچوں کو زہر دینے کے بعد اپنی اہلیہ سمیت خود کُشی کر لی تھی۔
تصویر: picture-alliance/Everett Collection
اڈولف ہٹلر (1889-1945)
1933ء میں بطور چانسلر برسرِاقتدار آنے سے پہلے ہی جرمن نیشنل سوشلسٹ ورکرز پارٹی (نازی) کے قائد کے ہاں سامی دشمن، کمیونسٹ مخالف اور نسل پرستانہ نظریات ترویج پا چکے تھے۔ ہٹلر نے جرمنی کو ایک آمرانہ ریاست میں بدلنے کے لیے سیاسی ادارے کمزور کیے، 1939ء تا 1945ء جرمنی کو دوسری عالمی جنگ میں جھونکا، یہودیوں کے قتلِ عام کے عمل کی نگرانی کی اور اپریل 1945ء میں خود کُشی کر لی۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
ہائنرش ہِملر (1900-1945)
نازیوں کے نیم فوجی دستے ایس ایس (شُٹس شٹافل) کے سربراہ ہِملر نازی جماعت کے اُن ارکان میں سے ایک تھے، جو براہِ راست ہولوکوسٹ (یہودیوں کے قتلِ عام) کے ذمہ دار تھے۔ پولیس کے سربراہ اور وزیر داخلہ کے طور پر بھی ہِملر نے ’تھرڈ رائش‘ کی تمام سکیورٹی فورسز کو کنٹرول کیا۔ ہِملر نے اُن تمام اذیتی کیمپوں کی تعمیر اور آپریشنز کی نگرانی کی، جہاں چھ ملین سے زائد یہودیوں کو موت کے گھاٹ اُتارا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
روڈولف ہَیس (1894-1987)
ہَیس 1920ء میں نازی جماعت میں شامل ہوئے اور 1923ء کی اُس ’بیئر ہال بغاوت‘ میں بھی حصہ لیا، جسے اقتدار اپنے ہاتھوں میں لینے کے لیے نازیوں کی ایک ناکام کوشش کہا جاتا ہے۔ جیل کے دنوں میں ہَیس نے ’مائن کامپف‘ لکھنے میں ہٹلر کی معاونت کی۔ 1941ء میں ہَیس کو ایک امن مشن پر سکاٹ لینڈ جانے پر گرفتار کر لیا گیا، جنگ ختم ہونے پر 1946ء میں عمر قید کی سزا سنائی گئی اور جیل ہی میں ہَیس کا انتقال ہوا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اڈولف آئش مان (1906-1962)
آئش مان کو بھی یہودیوں کے قتلِ عام کا ایک بڑا منتظم کہا جاتا ہے۔ ’ایس ایس‘ دستے کے لیفٹیننٹ کرنل کے طور پر آئش مان نے بڑے پیمانے پر یہودیوں کو مشرقی یورپ کے نازی اذیتی کیمپوں میں بھیجنے کے عمل کی نگرانی کی۔ جرمنی کی شکست کے بعد آئش مان نے فرار ہو کر پہلے آسٹریا اور پھر ارجنٹائن کا رُخ کیا، جہاں سے اسرائیلی خفیہ ادارے موساد نے انہیں پکڑا، مقدمہ چلا اور 1962ء میں آئش مان کو پھانسی دے دی گئی۔
تصویر: AP/dapd
ہیرمان گوئرنگ (1893-1946)
ناکام ’بیئر ہال بغاوت‘ میں شریک گوئرنگ نازیوں کے برسرِاقتدار آنے کے بعد جرمنی میں دوسرے طاقتور ترین شخص تھے۔ گوئرنگ نے خفیہ ریاستی پولیس گسٹاپو کی بنیاد رکھی اور ہٹلر کی جانب سے زیادہ سے زیادہ نا پسند کیے جانے کے باوجود جنگ کے اختتام تک ملکی فضائیہ کی کمان کی۔ نیورمبرگ مقدمات میں گوئرنگ کو سزائے موت سنائی گئی، جس پر عملدرآمد سے ایک رات پہلے گوئرنگ نے خود کُشی کر لی۔