نازی مظالم کے بھلا دیے گئے سیاہ فام متاثرین
12 ستمبر 2021کولون یونیورسٹی کی افریقی علوم کی پروفیسر ماریانے بَیش ہاؤس گَیرسٹ کا کہنا ہے کہ نازی جرمن دور میں مارے جانے والے افریقی باشندوں کو پوری طرح بھلا دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان افراد کو جس تشدد اور اذیت کا سامنا کرنا پڑا، اس کے بارے میں کبھی بات نہیں کی گئی۔ تاریخی اعتبار سے یہ کہنا مشکل ہو چکا ہے کہ نازی جرمن دور میں کتنے سیاہ فام باشندے مارے گئے تھے۔
"بلیک لائیوز میٹر" پیرس کا مظاہرہ پوليس تصادم پر ختم
نازی دور میں جرمنی میں سیاہ فام افراد کی تعداد
شیفیلڈ ہالم یونیورسٹی کے بلیک جرمن ہسٹری کے پروفیسر رابی ایٹکن کا کہنا ہے کہ یہ واضح نہیں کہ 1933ء میں نازی دور حکومت کے آغاز پر جرمنی میں کتنی تعداد میں سیاہ فام باشندے آباد تھے۔
ان کا خیال ہے کہ سیاہ فام باشندے عمومی طور پر متحرک مزاج ہوتے ہیں اور وہ ایک مقام سے دوسری جگہ منتقل ہونے کو پسند کرتے ہیں۔ ان افراد کا تعلق مختصر مدت کے جرمن نوآبادیاتی دور سے تھا۔
یہ نوآبادیاتی دور سن 1884 سے لے کر سن 1920 تک پھیلا ہوا تھا۔ رابی ایٹکن کے مطابق یہ اندازے لگائے گئے ہیں کہ سن 1933 میں سیاہ فام افراد اور ان کے خاندان نازی دور حکومت کے آغاز پر کسی دوسرے یورپی ملک منتقل ہو گئے تھے۔
'رائن لینڈ باسٹرڈز‘
رابی ایٹکن کے مطابق افریقی جرمن آبادی کے ایک اور گروپ کو 'رائن لینڈ باسٹرڈز‘ (Rhineland Bastards) کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ یہ تضحیک آمیز اصطلاح نازیوں نے ان افراد کے لیے گھڑی تھی جو فرانسیسی فوجیوں اور مقامی افریقی خواتین کے اس دور کے تعلقات کے نتیجے میں پیدا ہوئے تھے، جب یہ فرانسیسی فوجی پہلی عالمی جنگ کے دوران افریقی ممالک میں تعینات تھے۔
کوہ پیمائی میں بھی 'بلیک لائیوز میٹر‘ تحریک کے اثرات
شیفیلڈ ہالم یونیورسٹی کے اس پروفیسر کے مطابق یہ 600 سے لے کر 900 تک کی تعداد میں کم عمر بچے تھے۔ انہیں شامل کر کے سیاہ فام باشندوں کی آبادی زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ ہزار سے دو ہزار تک بنتی تھی۔ مردوں، خواتین اور بچوں کا جرمنی میں قیام یقیناﹰ عارضی تھا۔ اس قیام کے دوران ان کی گزر بسر میوزیکل پرفارمنس، کرتب دکھانے یا سفارت کاروں کے گھروں میں کام کاج کرنے سے ہوتی تھی۔
نازی دور میں مرنے والے چار سیاہ فام باشندے
جرمنی میں اکثر فٹ پاتھوں یا گلیوں کی دیواروں پر پیتل یا پھر پتھر کی بنی ایسی یادگاری پلیٹیں اور اینٹیں دکھائی دیتی ہیں، جن پر نام لکھے ہوتے ہیں۔ ان کو جرمن زبان میں شٹولپر شٹائنے (Stolpersteine) اور انگریزی میں اسٹمبلنگ اسٹونز (stumbling stones) کہا جاتا ہے۔ ان پر ان افراد کے نام درج ہوتے ہیں، جو نازیوں کے ہاتھوں ظلم سہتے ہوئے مارے گئے تھے۔ جرمنی میں صرف چار ایسی پیتل کی پلیٹیں ہیں، جن پر سیاہ فام افریقی جرمن افراد کے نام کندہ ہیں۔
ایسے ایفرو جرمن افراد کے ناموں کی تعداد بہت عرصے تک صرف دو تھی۔ اس تعداد کا دوگنا ہو جانا حال میں اس وقت ہوا، جب رواں برس اگست میں جرمن دارالحکومت برلن میں مارتھا ایندُمبے اور فرڈیننڈ جیمز ایلن کے ناموں کی پلیٹیں لگائی گئیں۔ باقی دو میں سے ایک افریقی ملک تنزانیہ کے محجوب بن آدم محمد اور دوسرے جنوبی افریقی جرمن ہاگر مارٹن براؤن کے ناموں کی پلیٹیں پہلے ہی سے نصب ہیں۔
مارتھا ایندُمبے
برلن کی ماکس بیئر اشٹراسے نمبر چوبیس پر مارتھا ایندُمبے کے نام کی پلیٹ لگائی گی۔ اسی مقام پر ان کی رہائش تھی اور وہیں سے وہ گرفتار کی گئی تھیں۔ گرفتاری کے بعد انہیں نو جون سن 1944 کے روز راونزبرُک کے نازی اذیتی مرکز پہنچا دیا گیا تھا۔ وہ اسی نازی کیمپ میں پانچ فروری 1945ء کو دم توڑ گئی تھیں۔
فرڈیننڈ جیمز ایلن
برلن میں اس سال اگست کے مہینے میں ہی ایک اور سیاہ فام جرمن شہری کے نام کی یادگاری پلیٹ شہر کی ٹور اشٹراسے نمبر 176-178 کے سامنے نصب کر دی گئی۔ نازی دور میں ہلاک کر دیے جانے والے فرڈیننڈ جیمز ایلن کی رہائش گاہ کا پتہ یہی تھا۔
مسلم دنیا میں نسل پرستی کا کیا عالم ہے؟
تمام عمر فرڈیننڈ جیمز ایلن کو زندگی گزارنے میں مشکلات کا سامنا رہا۔ اس کی ایک بڑی وجہ ان کی مرگی کی بیماری بھی تھی۔ انہیں سن 1933 میں نازی دور کے آغاز پر موروثی بیماریوں کے ایک مرکز میں لے جایا گیا ۔ چودہ مئی سن 1941 کو انہیں کئی دیگر بیمار افراد کے ساتھ بیرنبرگ کے نفسیاتی امراض کے ہسپتال میں موت کی نیند سلا دیا گیا۔
ہیریسن مویلیما (ع ح/ م م)