1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نازی مظالم: ایک کروڑ متاثرین سے متعلق دستاویزات اب آن لائن

28 نومبر 2019

یہ لاکھوں تاریخی دستاویزات ایسے ایک کروڑ انسانوں سے متعلق ہیں، جو نازی مظالم کا نشانہ بنے۔ آرولسن آرکائیوز کو امید ہے کہ اس ریکارڈ کو آن لائن ریلیز کرنے سے ہولوکاسٹ کے متاثرین کی یادیں زندہ رکھی جا سکیں گی۔

بُوخن والڈ کے نازی اذیتی کیمپ میں جبری مشقت کرنے والے قیدی، اپریل 1945ءتصویر: U.S. Defence Visual Information Center

کمپیوٹر اسکرین پر چند کلکس اور وہاں ہاتھ سے بنایا گیا ایک ایسا نقشہ سامنے آ جاتا ہے، جس پر سرخ رنگ میں لکھا ہوا ہے، ''قبر کی رجسٹریشن۔‘‘  زرد رنگ کا ایک کاغذ ایک ایسے 33 سالہ فرانسیسی شہری کی آخری آرام گاہ کی نشاندہی کرتا ہے، جو نازیوں کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔ اس کی قبر کی جگہ کی نشان دہی اسکرین پر سبز رنگ میں کی گئی ہے۔

یہ تفصیلات ان ساڑھے آٹھ لاکھ دستاویزات میں سے صرف ایک دستاویز میں شامل ہیں، جو دوسری عالمی جنگ کے دوران نازیوں کے مظالم کا نشانہ بننے والے انسانوں سے متعلق ہیں اور آرولسن آرکائیوز کہلاتی ہیں۔ یہ دستاویزات نازی مظالم سے متعلق بین الاقوامی مرکز کی طرف سے تیار کی گئی ہیں اور ابھی حال ہی میں انہیں انٹرنیٹ پر دنیا بھر کے صارفین کے لیے اپ لوڈ کر دیا گیا۔ اب ان دستاویزات کو کوئی بھی صارف دیکھ سکتا ہے۔

انڈیکس اور سرچ آپشن والی آرکائیوز

اس بارے میں آرولسن آرکائیوز کی ڈائریکٹر فلوریانے آسولائے نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم نے یہ دستاویزات انٹرنیٹ پر اس لیے جاری کر دیں کیونکہ ہم نے ان کا ایک باقاعدہ انڈیکس بھی تیار کیا ہے۔ آپ ان تاریخی دستاویزات میں شامل تقریباﹰ دس ملین ناموں میں سے کسی بھی انسان کا نام اور اس سے متعلق معلومات تلاش کر سکتے ہیں۔‘‘

آؤشوِٹس کے نازی اذیبی کیمپ کے قیدی، جنوری 1945ءتصویر: picture-alliance/akg-images

نازی جرمنوں کے مظالم کا نشانہ بننے والے انسانوں کی تعداد یوں تو کئی کروڑ تھی لیکن یہ آرکائیوز ان میں سے صرف تقریباﹰ ایک کروڑ انسانوں کے بارے میں ہیں۔ ان دس ملین انسانوں میں سے زیادہ تر نازی اذیتی کیمپوں میں مارے گئے تھے۔ ان میں سے کئی لاکھ سے نازی دور میں جبری مشقت بھی لی جاتی رہی تھی۔

آرولسن آرکائیوز کا یہ نام کیوں؟

یہ تاریخی دستاویزات جرمنی کے ایک چھوٹے سے وسطی شہر باڈ آرولسن میں محفوظ ہیں۔ اسی لیے عرف عام میں انہیں آرولسن آرکائیوز کہا جاتا ہے۔

یہ دنیا بھر میں ان کروڑوں انسانوں سے متعلق اپنی نوعیت کا جامع ترین ڈیٹا ہے، جو نازی مظالم کا نشانہ بنے اور مارے گئے یا پھر جنہیں نازی جرمنی کی شکست اور دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد رہائی مل گئی تھی اور وہ نازیوں کے چنگل سے زندہ بچ نکلے تھے۔

نازی مظالم کی چھان بین کرنے والے بین الاقوامی مرکز کا ارادہ تو یہ تھا کہ ان لاکھوں دستاویزات کو کئی برس پہلے ہی انٹرنیٹ پر جاری کر دیا جاتا مگر اس بارے میں متاثرین کے پرائیویسی رائٹس کی وجہ سے شروع ہونے والی بحث کے باعث اس کام میں عشروں کی تاخیر ہو گئی تھی۔

پھر باڈ آرولسن میں قائم اس ادارے نے چند برس پہلے اپنے دروازے ہر کسی کے لیے کھول دیے تھے اور کوئی بھی وہاں جا کر یہ تاریخی دستاویزات دیکھ سکتا تھا۔ اب اسی کام کو ایک قدم اور آگے بڑھا کر یہ ڈیٹا آن لائن بھی مہیا کر دیا گیا ہے۔

شکست خوردہ نازیوں کی ریکارڈ جلانے کی کوشش

یہ دستاویزات زیادہ تر دوسری عالمی جنگ کے بعد مقبوضہ جرمنی کے اس جنوبی علاقے سے متعلق ہیں، جو شکست خوردہ اور منقسم جرمنی کا 'امریکی فوجی زون‘ کہلاتا تھا۔

اہم بات یہ بھی ہے کہ جنگ کے بعد مغربی جرمنی کے اتحادی ممالک کے زیر قبضہ مجموعی علاقے میں سے برطانوی اور فرانسیسی خطوں کے مقابلے میں یہ امریکی فوجی زون ہی سب سے بڑا علاقہ تھا۔ تب منقسم جرمنی کا مشرقی حصہ، جو بعد میں مشرقی جرمن کمیونسٹ ریاست بن گیا تھا، سوویت یونین کے فوجی دستوں کے قبضے میں تھا۔

نازیوں کے مظالم کے بارے میں یہ بات بھی کم لوگ جانتے ہیں کہ نازیوں نے دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر اپنے انسانیت سوز مظالم سے متعلق ریکارڈ اور شواہد تلف کرنے کی کوششیں تو کی تھیں مگر وہ اس میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوئے تھے۔ اس لیے کہ ان کے جبر و ظلم اور قتل و غارت کا نشانہ بننے والے کروڑوں انسانوں سے متعلق وسیع تر تحریری ریکارڈ لاتعداد مقامی حکومتی محکموں، پولیس، پیداواری کمپنیوں اور مختلف اداروں کے پاس بھی تھا، جو مقابلتاﹰ محفوظ رہا تھا۔

آرولسن آرکائیوز گزشتہ تقریباﹰ آٹھ عشروں سے نازی مظالم کا نشانہ بننے والے مردوں اور عورتوں، ان کی قومیتوں اور آبائی ممالک سے متعلق معلومات جمع کر کے ان مظالم کی خوفناک تاریخ کو زیادہ سے زیادہ حد تک یکجا کرنے کی کوششوں میں ہے۔

ریبیکا اشٹاؤڈن مائر (م م / ع ا)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں