1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ناسازگار فضا میں جی ایٹ باقی نہیں رہے گا، میرکل

کشور مصطفیٰ20 مارچ 2014

روس کو کریمیا کے ساتھ الحاق کے سبب یورپی یونین کی طرف سے مزید پابندیوں کا سامنا ہوگا۔ یہ اعلان آج برسلز میں شروع ہونے والی یورپی یونین کی سربراہی کانفرنس سے پہلے جرمن جانسلر نے برلن میں اپنے پارلیمانی خطاب میں دیا۔

تصویر: Reuters

جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے کریمیا کے بحران کے سلسلے میں روس کو مزید اقتصادی پابندیوں سے خبر دار کیا ہے۔ وفاقی پارلیمان سے خطاب میں اپنی حکومت کے پالیسی بیان میں میرکل نے کہا کہ کریمیا کا روس سے الحاق یورپ اور اس کے ساتھیوں کی طرف سے فیصلہ کن جواب کا متقاضی ہے۔ اسی دوران آج جمعرات سے برسلز میں یورپی یونین کا دو روزہ سربراہی اجلاس شروع ہو رہا ہے، جس میں یوکرائن کے بحران اور کریمیا کے روس کے ساتھ الحاق کو مرکزی اہمیت حاصل رہے گی۔

جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے برسلز میں شروع ہونے والی یورپی یونین کی سربراہی کانفرنس سے پہلے اپنے پارلیمانی خطاب میں یہ بھی کہا کہ اس ضمن میں جن افراد پر سفری پابندیاں لگائی گئی ہیں اور جن کے بینک اکاؤنٹ منجمد کیے گئے ہیں، ان کے ناموں کی فہرست بھی طویل تر ہو جائے گی۔ اس کے علاوہ کریمیا کی صورتحال میں مزید خرابی پیدا ہونے کی صورت میں روس کے خلاف مزید سخت اقدامات بھی کیے جا سکتے ہیں۔

کریمیا کے بحران کے سلسلے میں روس کو مزید اقتصادی پابندیوں سے خبر دار کیا جا رہا ہےتصویر: Reuters

ماسکو کی طرف سے یوکرائن کی بحریہ کے ایک کمانڈر کی رہائی کے اعلان کے باوجود یورپی یونین کے ممالک کے سربراہان روس پر پابندیوں میں اضافے کے بارے میں مذاکرات کرنے جا رہے ہیں۔ روس کے لیے ایک بڑا دھچکا دنیا کی آٹھ بڑی اقتصادی قوتوں کے فورم یعنی جی ایٹ کو غیر معینہ مدت کے لیے معطل کر دینے کا فیصلہ ہے، جس کی موجودہ صدارت ماسکو کے پاس ہے اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن کو اس سال جون میں سوچی میں جی ایٹ کی مجوزہ سمٹ کی میزبانی کرنا ہے۔

یورپی یونین کے سربراہان مملکت و حکومت کی برسلز میں شروع ہونے والی دو روزہ مشاورت سے پہلے جرمن چانسلر میرکل نے ملکی پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’’روس تمام تر بین الاقوامی تنظیموں سے کٹ کر رہ گیا ہے۔‘‘ میرکل نے کہا کہ روس کی طرف سے کریمیا کے اس کے ساتھ الحاق کا اعلان ناقابل قبول ہے اور اس یکطرفہ فیصلے کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔

مذکورہ پابندیوں کے اعلان کے علاوہ میرکل نے روس کی جی ایٹ فورم کی صدارت پر بھی سوال اٹھایا۔ انہوں نے کہا، ’’جب تک جی ایٹ جیسے اہم بین الاقوامی فورم کا ماحول سازگار نہیں ہوتا، جیسا کہ اس وقت صورتحال ہے، تب تک نہ تو جی ایٹ فورم رہے گا اور نہ ہی اس کے کسی اجلاس کا کوئی جواز بنتا ہے۔‘‘

روس کے حق میں ماسکو میں ہونے والا مظاہرہتصویر: Reuters

انگیلا میرکل نے یہ بھی کہا کہ موجودہ صورتحال میں آنے والی کوئی بھی تبدیلی اس امر کا فیصلہ کر ے گی کہ اپریل کے اواخر میں مجوزہ جرمن روسی مشاورت عمل میں آتی ہے یا نہیں۔ روس کے خلاف پابندیوں میں مزید سختی کو بھی میرکل نے خارج از امکان قرار نہیں دیا۔ اُن کے بقول، ’’روس کے خلاف اقدامات میں مزید سختی میں اقتصادی پابندیوں میں اضافہ شامل ہوگا۔‘‘

میرکل نے مشرقی اور جنوبی یوکرائن کی سرحدوں کی نگرانی کی بات بھی کی۔ ’’اس علاقے کی سرحدوں پر بین الاقوامی کنٹرول کے لیے جرمن حکومت پورپی سلامتی اور تعاون کی تنظیم OSCE کے ایک مضبوط مشن کی بھرپور حمایت کرتی ہے۔‘‘ میرکل نے اپنے اس بیان میں اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ اس مشن کی تشکیل سے متعلق مذاکرات نہایت مشکل ہیں تاہم وہ اور جرمن وزیر خارجہ آج اور کل جمعے کو برسلز میں ہونے والے اجلاس میں اس کے لیے پوری کوشش کریں گے۔ میرکل کے بقول اس مشن کی تشکیل ممکن ہے۔

بان کی مون ماسکو پہنچ گئے ہیںتصویر: Reuters

جرمن چانسلر نے اجلاس سے قبل ہی یوکرائن کے لیے امداد کا اعلان بھی کر دیا۔ ’’جرمنی اور یورپی یونین یوکرائن کو ٹھوس مدد فراہم کریں گے۔ اس ضمن میں آئی ایم ایف اپنے ایک پروگرام کے بارے میں یوکرائن کی حکومت کے ساتھ سنجیدگی سے بات چیت کر رہا ہے۔ یورپی یونین کی طرف سے بھی ابتدائی اقدامات بہت جلد دیکھنے میں آئیں گے۔ برسلز میں ہونے والے مذاکرات میں یوکرائن کے وزیر اعظم کے ساتھ قریبی رفاقت کے ایک معاہدے کے سیاسی پہلو پر بھی غور کیا جائے گا۔‘‘

دریں اثناء اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے ماسکو میں روس کے صدر ولادیمیر پوٹن سے ملاقات کی ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اس موقع پر انہوں نے یوکرائن اور روس کے مابین تنازعے پر انتہائی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ بان کی مون یوکرائن اور روس کے دورے پر ہیں تاکہ تنازعے کے فریقین کو پراُمن حل کے لیے تیار کر سکیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں