امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا نے انسانی اسپرم خلا میں چھوڑنے کا منصوبہ بنایا ہے، تاکہ مائیکرو گریویٹی میں انسانی نطفےکا ردعمل دیکھا جا سکے۔
اشتہار
اس تجربے کا ایک مقصد یہ معلوم کرنا بھی ہے کہ کیا انسان خلا میں اپنی نسل میں اضافہ کر سکتا ہے؟ دیگر ممالیہ جانوروں کے حوالے سے کیے جانے والے تجربات میں تاہم اب تک کوئی کامیابی نہیں ملی ہے۔
سینٹینل اول سے حاصل ہونے والی تصاویر
تین اپریل 2014ء کو سینٹینل اول کو خلا میں بھیجا گیا تھا۔ یہ زمینی مشاہدے کے یورپی پروگرام کوپرنیکس کا پہلا سیٹلائٹ ہے۔ تاہم اب یورپی خلائی ایجنسی ای ایس اے نے پہلی مرتبہ اس سیٹلائٹ کی طرف سے بھیجی گئی تصاویر جاری کی ہیں۔
تصویر: ESA – S. Corvaja
نئے سیٹلائٹ کی پہلی تصویر
سینٹینل اول کو انتہائی منفرد منصوبوں پر تجربات کے لیے خلا میں بھیجا گیا ہے۔ اس سیٹلائٹ میں ایک خصوصی لیزر نصب ہے اور کی مدد سے بہت تیز رفتاری کے ساتھ اعداد و شمارکا تبادلہ کیا جا سکتا ہے۔ کسی بھی ماحولیاتی آفت کی صورت میں اس لیزر کی ضرورت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔
تصویر: ESA/ATG medialab
پہلا قدم
خلا میں بھیجے جانے کے نو روز بعد سینٹینل اول نے پہلی تصاویر اتاریں۔ دیگر یورپی منصوبوں کی طرح برسلز میں ان تصاویر کو بھی دکھایا گیا۔
تصویر: ESA
گلیشئرز کے پگھلنے کا ثبوت
یہ تصویر پائن آئی لینڈ گلیشئر کی ہے۔ یہ مغربی انٹارکٹیکا کا ایک عظیم الجثہ گلیشئر ہے اور یہاں سے ہر سال اربوں ٹن برف سمندر میں شامل ہوتی ہے۔ تاہم یہ زمینی درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے شدید متاثر ہو رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق گزشتہ دس برسوں کے دوران اس گلیشئر کا سامنے والا حصہ ہر سال ایک کلومیٹر تک سکڑتا رہا ہے۔
تصویر: ESA
کیپریوی، نمیبیا کا منفرد علاقہ
کیپریوی شمال مشرقی نمیبیا کا ایک علاقہ ہے۔ دسمبر سے مارچ تک جاری رہنے والی بارشوں کی وجہ سے دریائے سامبیزی سے ملحقہ علاقے سیلاب کا شکار ہو جاتا ہے۔ کیپریوی نمیبیا کا ایسا واحد خطہ ہے، جہاں سال بھر پانی دستیاب رہتا ہے اور اسی وجہ سے یہاں جانور بھی موجود ہوتے ہیں۔
تصویر: ESA
محققین کا جزیرہ
انٹارکٹیکا کا شمالی حصہ جزیرہ نما ہے۔ یہاں پہاڑوں کی اونچائی2800 میٹر تک ہے اور اسے جنوبی امریکا کے پہاڑی سلسلے اینڈن Anden کا تسلسل بھی کہا جاتا ہے۔ انٹارکٹیکا کا یہ جزیرہ نما اپنی خصوصیات کی وجہ سے پورے براعظم میں محققین اور سائنسدانوں کی توجہ کا سب سے بڑا مرکز ہے۔
تصویر: ESA
برف حرکت میں ہے
آؤسٹفونا Austfonna ناروے کا ایک منجمد پہاڑ ہے اور یہ 8120 مربع میٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ اس بناء پر اسے یورپ کا سب سے بڑا گلیشئر کہا جاتا ہے۔ سینٹینل اول اور DLR مشن کی جانب سے کی گئی پیمائش کے نتیجے کے مطابق یہ پہلے کے مقابلے میں دس گنا تیزی سے حرکت کر رہا ہے۔
تصویر: ESA/DLR/Gamma/University of Leeds/University of Edinburgh
شمالی سینٹینل جزائر
بحر ہند میں واقع مختلف جزائر پر مشتمل ایک گروپ کو انڈامان جزائر کہتے ہیں اور انہی میں سے ایک نارتھ سینٹینل آئی لینڈ بھی ہے۔ 1996ء سے سینٹینل آئی لینڈ پر سیاحوں کا داخلہ ممنوع ہے۔ یہاں پر آباد افراد نے باقی ماندہ دنیا سے اپنا تعلق ختم کر دیا ہے۔
تصویر: ESA
دنیا میں نمک کا سب سے بڑا صحرا
سالار دی یُویونی دنیا میں نمک کا سب سے بڑا صحرا ہے۔ اس کی بیرونی سطح دس ہزار سال پہلے ایک جھیل کے سوکھنے کی وجہ سے قائم ہوئی تھی۔ نمک کا یہ صحرا سطح سمندر سے 3600 میٹر بلندی پر جنوبی امریکی ملک بولیویا کے جنوب مغرب میں واقع ہے۔
تصویر: ESA
8 تصاویر1 | 8
مختلف خلائی تحقیقاتی ادارے اب تک عجیب عجیب سی چیزیں خلا میں بھیج چکے ہیں، جن میں پیزا تک شامل ہے، مگر یہ تمام چیزیں زمینی کشش سے نکلیں تو خلا کے بے انت وسعتوں میں کھو گئیں۔ مگر یہ مائیکرو 11 نامی تجربہ ناسا کا نیا معرکہ ہے، جس میں انسانوں کے نطفوں کے منجمد نمونے خلا میں چھوڑے جائیں گے۔
امریکا میں یونیورسٹی آف کینساس میڈیکل سیٹر اس تجربے کے پیچھے ہیں اور وہ یہ جاننا چاہتا ہے کہ خلا سے واپس آنے کے بعد اس اسپرمز کی ماہیت کیسی ہو گی اور کیا یہ زندہ رہ پائیں گے؟
اس تجربے سے وابستہ جوزف تاش کے مطابق، ’’جب ہم اس سیارے سے باہر اور اسپیس اسٹیشن سے بھی دور چاند، مریخ اور دیگر اجرام فلکی تک جانے اور رہنے کا سوچتے ہیں، تو سوال ہمارے ذہن میں یہ آتا ہے کہ کیا ہم وہاں کئی نسلوں تک رہ پائیں گے؟ یعنی کیا ہم وہاں اپنی نسل بڑھا پائیں گے؟ صرف حیوانات ہی نہیں انسانوں کی بھی کئی نسلیں۔ یہ نہایت بنیادی سوال ہے اور اس کا جواب ہمیں ضرور درکار ہے۔’’
مائیکرو الیون نامی تجربے سے وابستہ ایمس ریسرچ سینٹر سے جڑے سائنسدان اس بابت معلومات میں موجود سقم ختم کرنا چاہتے ہیں۔ ان سائس دانوں کے مطابق تولیدی حیایات پر مائیکرو گریویٹی کے اثرات سے متعلق انسانی معلومات نہایت محدود ہیں اور یہ تجربہ معلومات میں موجود اسی خلا کو کم کرنے کی کوشش ہے۔
یعنی اگر مریخ پر عمومی انسانی تولیدی عمل کام نہیں کرتا، تو ایسی صورت میں خصوصی اقدامات کرنا ہوں گے، کیوں کہ فقط اسی طرح سے مریخ پر طویل المدتی قیام ممکن ہو گا۔
مریخ پر کمند
زمین کے ہمسایہ سیارے مریخ پر زندگی کے آثار کی تلاش میں بھارت نے اپنا خلائی مشن روانہ کر دیا ہے۔ ’منگلیان‘ نامی خلائی شٹل 300 دنوں کے سفر کے بعد مریخ کے مدار میں پہنچے گی اور اُس کے گرد چکر لگاتے ہوئے ڈیٹا حاصل کرے گی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
راکٹ کی کامیاب پرواز
سرخ سیارے مریخ کے لیے پہلا بھارتی مشن منگل پانچ نومبر کو مقامی وقت کے مطابق سہ پہر دو بج کر اڑتیس منٹ پر خلاء میں روانہ کر دیا گیا۔ ’منگلیان‘ (ہندی زبان میں مریخ کا مسافر) نامی خلائی شٹل کو جنوبی ریاست آندھرا پردیش سے ایک راکٹ کی مدد سے زمین کے مدار میں پہنچایا گیا۔ اس مشن کی کامیابی کی صورت میں بھارت بر اعظم ایشیا کا پہلا ملک ہو گا، جو خلائی شٹل کے ساتھ مریخ پر پہنچے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مریخ کے لیے پہلی بھارتی خلائی شٹل
بھارتی خلائی مشن کے منصوبے کو خلائی تحقیق کی بھارتی تنظیم ISRO کے بنگلور میں و اقع ہیڈ کوارٹر میں پایہء تکمیل کو پہنچایا گیا۔ اس منصوبے کو عملی شکل دینے کے لیے دو سال تک سولہ ہزار کارکن مصروفِ کار رہے۔ 1.35 ٹن وزنی ’منگلیان‘ کا سائز ایک چھوٹی کار جتنا ہے۔ پروگرام کے مطابق اس شٹل کو مریخ تک پہنچنے میں تین سو روز لگیں گے۔
تصویر: imago/Xinhua
مریخ کے گرد ایک چکر
’منگلیان‘ محض ایک آربیٹر ہے یعنی اس کا کام محض اس سیارے کے گرد چکر لگانا اور پیمائشیں لینا ہے۔ اس شٹل کو مریخ کی سطح پر اُتارنے کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔ ISRO کا ہدف مریخ پر میتھین کا سراغ لگانا ہے۔ میتیھین کی موجودگی مریخ پر زندگی کی موجودگی کا پتہ دے گی کیونکہ ہماری زمین پر بھی انتہائی چھوٹے چھوٹے نامیاتی اجسام ہی گیس پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
انتہائی جدید خلائی مرکز
یہ تصویر بنگلور میں ISRO کے مرکز کی ہے۔ مریخ کے اردگرد چکر لگانے کا منصوبہ ایسا واحد بڑا منصوبہ نہیں ہے، جسے بھارت میں عملی شکل دی گئی ہے۔ پانچ سال پہلے ISRO نے چاند کی جانب بھی ایک شٹل روانہ کی تھی۔ یہ شٹل پہلی ہی کوشش میں چاند تک پہنچ گئی تھی اور اس خلائی تنظیم کے لیے شہرت کا باعث بنی تھی تاہم ’چندریان‘ کے ساتھ رابطہ اگست 2009ء میں منقطع ہو گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP
امید و بیم کی کیفیت
یہ ٹیکنیشن خلائی اسٹیشن سری ہاری کوٹا میں شٹل کے ڈیٹا کو احتیاط سے جانچ رہا ہے۔ اب تک مریخ کے تمام مشنوں میں سے نصف سے زائد ناکامی سے دوچار ہوئے ہیں، جن میں 2011ء کے چینی منصوبے کے ساتھ ساتھ 2003ء کا جاپانی منصوبہ بھی شامل ہیں۔ اب تک صرف امریکا، سابق سوویت یونین اور یورپ ہی مریخ کی جانب شٹلز روانہ کر سکے ہیں تاہم یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ان ممالک کے پاس بجٹ بھی زیادہ تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP
ایک نسبتاً سستا خلائی منصوبہ
اس بھارتی منصوبے پر 4.5 ارب روپے لاگت آئی ہے اور اس طرح یہ ایک مسافر بردار بوئنگ طیارے کے مقابلے میں بھی سستا ہے۔ امریکا اپنی مریخ شٹل "Maven" اٹھارہ نومبر کو روانہ کرنے والا ہے اور 455 ملین ڈالر یعنی چھ گنا زیادہ رقم خرچ کرے گا۔ بھارتی مریخ مشن تنقید کی زد میں ہے کیونکہ ایک ایسے ملک میں، جہاں دنیا کے تمام غریبوں کی ایک تہائی تعداد بستی ہے، بہت سے شہری اتنے مہنگے خلائی منصوبوں کے خلاف ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP
ISRO کے سربراہ کا جواب
اس منصوبے پر ہونے والی تنقید کے جواب میں خلائی تحقیق کی بھارتی تنظیم کے سربراہ کے رادھا کرشنن کہتے ہیں کہ یہ تنظیم ایسے مصنوعی سیارے بنانے میں کامیاب ہوئی ہے، جن کے نتیجے میں عام آدمی کی زندگی بہتر ہوئی ہے۔ ISRO کو امید ہے کہ ’منگلیان‘ مشن کے نتیجے میں بین الاقوامی سطح پر توجہ حاصل ہو گی اور آمدنی کے نئے ذرائع پیدا ہوں گے۔
تصویر: picture-alliance/AP
دیو ہیکل راکٹ
’منگلیان‘ اپنی پرواز شروع کرنے کے 45 منٹ بعد ہی زمینی مدار میں پہنچ گیا تاہم 350 ٹن وزنی راکٹ کو زمینی مدار سے نکل کر مریخ کی جانب روانہ ہونے میں کچھ وقت لگ جائے گا۔ یہ راکٹ ایک مہینے تک زمین کے گرد چکر لگاتا رہے گا، تب جا کر اُس کی رفتار میں اتنی قوت آ سکے گی کہ وہ زمین کی کششِ ثقل کو توڑ کر مریخ کی جانب اپنا سفر شروع کر سکے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
8 تصاویر1 | 8
ممالیہ جانوروں بہ شمول انسانوں میں انڈے سے اسپرم کا ملاپ تولیدی عمل کی بنیاد ہے۔ اس کے لیے اسپرم کا ’فعال‘ ہونا ضروری ہوتا ہے، دوسری صورت میں یہ آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اگلا معاملہ یہ ہے کہ اس اسپرم کی رفتار ایسی ہو کہ وہ انڈے میں داخل ہو سکے اور اس کے لیے اسپرم کی بیرونی دیواروں (میمبرینز) کا مائع کا حامل ہونا لازمی ہے۔
خلا میں اس سے قبل بیل اور دیگر ممالیہ کے اسپرمز سے متعلق کیے گئے تجربات سے ظاہر ہوتا ہے کہ مائیکرو گریویٹی میں تو اسپرم متحرک تھا، تاہم اس کے بعد کے عمل میں وہ انتہائی سست اور غیرفعال تھا۔