نودریافت شدہ سیاروں کا درجہ حرارت ممکنہ طور پر ایسا ہے جہاں زندگی کا وجود پایا جا سکتا ہے۔ ’کیپلر اسپیس ٹیلی اسکوپ مشن‘ نے نظام شمسی سے باہر خلا میں ایسے پچاس نئے سیارے دریافت کیے ہیں۔
اشتہار
امریکی خلائی ادارے ناسا نے بتایا ہے کہ اس ادارے کے ’کیپلر اسپیس ٹیلی اسکوپ مشن‘ نے زمین سے ملتے جلتے اور تقریباﹰ ایسی ہی جسامت کے دس نئے سیارے دریافت کیے ہیں جو ممکنہ طور پر رہائش کے قابل ہیں۔
کیا ہم اس کائنات میں تنہا ہیں؟ اس سوال کا جواب کیپلر مشن نے بالواسطہ طور پر دے دیا ہے، اگرچہ ابھی حتمی تصدیق باقی ہے، تاہم غالباﹰ ہماری دنیا ہی ایسا واحد سیارہ نہیں ہے، جہاں زندگی پائی جاتی ہے۔
کیوروسٹی کو دو سال مکمل
امریکی خلائی تحقیقی ادارے ناسا کی طرف سے مریخ کی سطح پر اتاری جانے والی تیسری روبوٹک گاڑی کیوروسٹی کو آج چھ اگست کے دن دو برس مکمل ہو گئے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
ریکارڈ فاصلہ
ناسا کی طرف سے جنوری 2004ء میں مریخ کی سطح پر جو ایک روبوٹک گاڑی اتاری گئی اسے اپورچونٹی کا نام دیا گیا تھا۔ منصوبے کے مطابق اس گاڑی کو ایک کلومیٹر کے اندر اس سُرخ سیارے کی سطح کا جائزہ لینا تھا۔ مگر گزشتہ ایک دہائی کے دوران اپورچونٹی مریخ پر 40 کلومیٹر کا سفر کر چکی ہے۔ جو زمین سے پرے کسی گاڑی کا ریکارڈ سفر ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa
کیوروسٹی کا اہم سنگ میل
چھ اگست 2012ء کو مریخ کی سطح پر اتاری جانے والی روبوٹک گاڑی کیوروسٹی ہمارے نظام شمسی کے اس سیارے کی سطح پر مصروف عمل ہے۔ کیوروسٹی زمینی کنٹرول سنٹر کو مریخ کی سطح کی تصاویر بھیجنے میں مصروف ہے۔ اس کے علاوہ اس پر نصب نظاموں نے پہلی بار وہاں کی ایک چٹان کا تجزیہ بھی کیا ہے۔ یہ اس مشن کا ایک اہم سنگ میل ہے۔
تصویر: NASA/JPL-Caltech/MSSS
مریخ کی سطح پر پہلا سوراخ
کیوروسٹی میں نصب ڈرلنگ نظام نے رواں برس فروری میں مریخ کی سطح پر سوراخ کیا۔ اس کا قطر 1.6 انچ جبکہ گہرائی چھ انچ تھی۔ ناسا حکام نے اس پیشرفت کو ’’مریخ پر اترنے کے بعد کی عظیم ترین کامیابی‘‘ قرار دیا۔
تصویر: Reuters/NASA/JPL-Caltech
پانی کی موجودگی کا ثبوت
سائنسدان مریخ کی اس چٹان کے تجزیے سے یہ امید کر رہے ہیں کہ یہ بات معلوم ہو سکے گی کہ آیا ماضی میں کبھی اس کی سطح پر پانی موجود رہا ہے یا نہیں۔ اس کے نتائج سے مریخ کے بارے میں مزید اہم معلومات بھی حاصل ہوں گی۔
تصویر: Reuters/NASA/JPL-Caltech/MSSS
زندگی کے لیے سازگار فضا
کھدائی کے ذریعے حاصل کیے گئے مریخ کی چٹانی سطح کے نمونے میں سلفر، نائٹروجن، فاسفورس اور کاربن کی موجودگی کے شواہد ملے ہیں۔ ان کیمیائی اجزاء کو زندگی کے لیے اہم قرار دیا جاتا ہے۔ ناسا ماہرین کے مطابق، ’’یہ کبھی قابل رہائش جگہ رہی ہو گی۔‘‘
تصویر: picture alliance/AP Photo/NASA
سفر جاری ہے
900 کلوگرام وزنی یہ روبوٹک گاڑی شمسی توانائی کے علاوہ جوہری توانائی سے چلتی ہے۔ اس طرح خصوصی ساخت کے چھ پہیوں والی یہ گاڑی ریتلی اور پتھریلی زمین پر با آسانی حرکت کر سکتی ہے۔
تصویر: NASA/JPL-Caltech/Malin Space Science Systems
اپنی ہی ایک تصویر
کیوروسٹی پر انتہائی جدید آلات نصب ہیں۔ جن میں کمپیوٹرز، انٹینیا، ٹرانسمیٹر، کیمرے اور چیزوں کو پکڑنے والے بازو شامل ہیں۔ کسی خرابی کی صورت میں یہ گاڑی خود ہی اسے دور بھی کر سکتی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس پر نصب مختلف کیمرے اس گاڑی کے دیگر حصوں کی تصاویر بھی بنا کر زمین پر بھیجتے رہتے ہیں۔
تصویر: NASA/JPL-Caltech/Malin Space Science Systems
حرکت کرتی آنکھ
کیوروسٹی کے ایک روبوٹک آرم پر ایک خصوصی کیمرہ نصب ہے جسے ’مارس ہینڈ لینز امیجر‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ ایک طرح کی خوردبین ہے جو روبوٹ کے طویل روبوٹک بازو کو آہستگی کے ساتھ زیرتجزیہ مقام کے چھوٹے چھوٹے حصوں کی طرف لاتی ہے۔
تصویر: NASA/JPL-Caltech/MSSS
مریخ سے سورج گرہن کا نظارہ
کیوروسٹی پر نصب ایک پول پر لگے کیمرے نے یہ تصاویر بنائی ہیں۔ ان میں مریخ کے دو چاندوں میں سے ایک فوبوز Phobos مریخ اور سورج کے درمیان سے گزر رہا ہے جس سے جزوی سورج گرہن دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: NASA/JPL-Caltech/MSSS
مریخ کا پہلا سال
24 جون 2014ء وہ دن تھا جب کیوروسٹی کو مریخ کی سطح پر اترے مریخ ہی کے وقت کے مطابق ایک سال مکمل ہوا۔ مریخ کا سال دنیا کے 687 دنوں کے برابر ہے۔ اور یوں اس نے اپنے لیے مقرر کردہ وقت کا ہدف بھی حاصل کر لیا ہے۔ مگر یہ اب بھی رواں دواں ہے اور ممکن ہے کہ یہ اپورچونیٹی کے ریکارڈ کو بھی توڑ دے۔
تصویر: NASA/JPL-Caltech
10 تصاویر1 | 10
ناسا نے بتایا ہے کہ نو دریافت شدہ دس سیارے ہماری زمین کی طرح ہی سورج کے گرد گردش کر رہے ہیں اور اپنے اپنے نظام شمسی میں ان سیاروں کا سورج سے فاصلہ بھی تقریباﹰ اتنا ہی ہے جتنا کہ ہماری زمین اپنے نظام شمسی کے سورج سے دور ہے۔ سورج سے نہ ہی بہت زیادہ دور یا بہت زیادہ قریب اس فاصلے کو ’گولڈی لوکس زون‘ کہا جاتا ہے، جہاں ممکنہ طور پر کسی طرح کی زندگی وجود پا سکتی ہے۔
ان دس میں سے سات سیاروں کا اپنے نظام شمسی کے مدار میں سورج سے فاصلہ بالکل زمین اور ہمارے سورج کے فاصلے جتنا ہی ہے۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ ان سیاروں پر کسی زندگی کے شواہد بھی مل چکے ہیں، لیکن ان سیاروں کے ’قابل رہائش‘ ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔
مزید سیاروں کے ملنے کے امکانات
کیپلر ٹیلی اسکوپ نے سیاروں کی تلاش کے اپنے چار سالہ سفر کے دوران ممکنہ طور پر ’قابل رہائش‘ پچاس سیارے تلاش کیے ہیں۔
اس کائنات میں کروڑوں کہکشائیں ہیں، جن میں سے ایک ’مِلکی وے‘ یا ’جادہ شیر‘ نامی کہکشاں بھی ہے۔ کیپلر مشن نے اسی کہکشاں کے محض ایک مختصر حصے کا جائزہ لیا ہے۔ اس سفر کے دوران اس ٹیلی اسکوپ نے ڈیڑھ لاکھ سیاروں کا جائزہ لیا جب کہ اس کہکشاں میں سیاروں کی مجموعی تعداد اربوں میں ہے۔
کیپلر مشن سے قبل ماہرین کا خیال تھا کہ ’مِلکی وے‘ میں زمین نما سیاروں کا تناسب ایک فیصد سے زائد نہیں ہے لیکن اس مشن کے بعد اب کہا جا رہا ہے کہ یہ تناسب ساٹھ فیصد کے قریب ہے۔
برف سے ڈھکے جنگل، منجمد جھیلیں اور سفید چھتیں، موسم سرما میں جرمنی اپنا روپ بدل کر ایک جادوئی سرزمین بن جاتی ہے لیکن اس کے لیے کافی زیادہ سردی بھی پڑنی چاہیے۔ برف دلکش ہوتی ہے لیکن ساتھ کچھ مسائل بھی لاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Pleul
برف میں لمبی سیر
جرمن علاقے سویبیا آلب کے برف سے ڈھکے یہ مناظر تازہ ہوا میں ایک لمبی سیر کی ترغیب دیتے ہیں۔ ایسے میں کیمرہ ساتھ لے جانا نہیں بھولنا چاہیے کیونکہ ہر موڑ کے بعد کوئی نہ کوئی نیا دلکش منظر آپ کو مبہوت کرنے کے لیے موجود ہو گا۔
تصویر: picture alliance / Arco Images GmbH
سرما میں شہر کا منظر
برف کی صورت میں آسمان سے گرنے والے گالوں سے ڈھکے جرمن شہر ماگڈے برگ کا ایک طائرانہ منظر۔ یہ شہر جرمنی کے مشرقی حصے کے صوبے سیکسنی انہالٹ کا دارالحکومت ہے۔ جرمنی کے مغربی حصے کے مقابلے میں یہاں برف پڑنے کے امکانات کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔
تصویر: picture alliance/ZB/A. Lander
واٹسمان کی چوٹی پکارتی ہے
واٹسمان کی چوٹی 2713 میٹر بلند ہے اور یہ جرمنی کا بلند ترین اور شاید خوبصورت ترین پہاڑ ہے، بائیں جانب ’بیگم واٹسمان‘ جبکہ درمیان میں ’واٹسمان فیملی کے بچے‘ نظر آ رہے ہیں۔ جنوبی جرمنی میں پہاڑی سلسلے ایلپس کا یہ وہ منظر ہے، جسے ہر سال سردیوں میں سرمائی کھیلوں کے متعدد کھلاڑی دیکھنے کے لیے پہنچتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Muncke
اسکی انگ ایک قومی کھیل
پہاڑوں میں پرورش پانے والے بچے بچپن ہی میں یہ کھیل کھیلنا شروع کر دیتے ہیں لیکن عرصہ ہوا، شمالی جرمنی کے میدانی علاقوں سے بھی بہت سے لوگ اس کھیل سے لطف اندوز ہونے کے لیے ایلپس کے پہاڑوں میں پہنچتے ہیں۔ عشروں پہلے اسکی انگ کے خواہاں افراد کو پہاڑوں کے اوپر پیدل چڑھ کر جانا پڑتا تھا، آج اس مقصد کے لیے لفٹیں استعمال کی جاتی ہیں، جیسے کہ الگوئے کے علاقے میں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Puchner
ننھے منے بچوں کی موج
ضروری نہیں کہ ہر گھر کے سامنے ایک پہاڑ ہو، ایک چھوٹے سے ٹیلے سے بھی برف گاڑی میں پھسلنے کے شوقین بچوں کا کام بن جاتا ہے۔ جب بچے لکڑی یا پلاسٹک سے بنی برف گاڑی میں بلندی سے نشیب کی جانب پھسلنا شروع کرتے ہیں تو اُن کی خوشی دیدنی ہوتی ہے۔
تصویر: dapd/H. Tittel
بڑوں کے لیے بڑی برف گاڑی
بڑوں کے لیے ایسی بڑی برف گاڑیاں ہوتی ہیں، جنہیں گھوڑے کھینچتے ہیں۔ آپ مزے سے پیچھے کوئی موٹا کمبل اوڑھے بیٹھے ہوتے ہیں اور ساتھ ساتھ کسی گرم مشروب سے لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں جبکہ برف گاڑی برف سے ڈھکی زمین پر سہولت کے ساتھ پھسلتی رہتی ہے اور آپ مزے سے آس پاس کے برفانی مناظر سے محظوظ ہوتے رہتے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/P. Schulze
برفانی انسان تو ضروری ہوتا ہے
برف پڑنے کے بعد اس سے آپ کی ملاقات کسی جنگل میں، کسی گھر کے احاطے میں بنے باغیچے میں، پارکوں میں یا کسی بینچ پر بھی ہو سکتی ہے۔ یہ ہے، برفانی انسان۔ برف کی مدد سے بچے ہی نہیں بلکہ بڑے بھی اس انسان کو شوق سے تعمیر کرتے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/J. Woitas
برف سے بنے مجسمے
یہ خوبصورت چیزیں انسانی ہاتھوں نے نہیں بنائیں بلکہ انہیں قدرت نے تخلیق کیا ہے۔ جب جھاڑیاں اور درخت برف میں چھُپ جاتے ہیں اور منجمد شکل اختیار کر لیتے ہیں تو پھر اُن کی اصل شکل کا تصور تک کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ہارتس کے مقام پر 1141 میٹر کی بلندی پر اس طرح کے ہوش رُبا مناظر کثرت سے دیکھے جا سکتے ہیں۔
تصویر: picture alliance/blickwinkel/R. Krawulsky
پرندوں کے لیے خوراک
انسان تو آسمان سے روئی کے گالوں کی طرح گرتی برف سے بہت خوش ہوتے ہیں لیکن بہت سے جانوروں کے لیے یہ برف ایک مصیبت بن جاتی ہے۔ جو پرندے گرم علاقوں کی جانب پرواز کرنے کی بجائے اپنے ہی وطن میں قیام کو ترجیح دیتے ہیں، اُن کے لیے اپنی خوراک کا بندوبست کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ خوراک ویسے بھی کم ہوتی ہے، اس لیے انسان ان پرندوں تک خوراک پہنچاتے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/C. Rehder
ہر طرف برف ہی برف
سردیوں کا موسم انسانوں کے لیے کافی پریشان کن بھی ہوتا ہے۔ لوگوں کو اپنے گھروں کے سامنے پڑی برف ہٹانا پڑتی ہے اور اپنی سفید ہو چکی گاڑیوں کو بھی بڑی محنت سے صاف کر کے برف سے نجات دلوانا پڑتی ہے۔ جس کسی کو دو تین مہینے مسلسل اس عمل سے گزرنا پڑے، وہ پھر بہار کی جلد آمد کی دعائیں مانگنے لگتا ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/T. Hase
سردیوں کے موسم میں ساحلوں کے مناظر
کچھ جزائر سردیوں کے موسم میں مین لینڈ سے بالکل کٹ جاتے ہیں کیونکہ جھیلیں جم جاتی ہیں اور کسی کشتی یا جہاز کے لیے سفر کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ شکر ہے کہ ایسا کم کم ہوتا ہے۔ یہ منظر جرمن جزیرے زِلٹ کا ہے، وہاں کا ساحل پر اکثر اس طرح کے مناظر دکھائی دیتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Ossinger
ہیمبرگ: سرما کی سب سے بڑی پارٹی
جب ہیمبرگ شہر کی جھیل آلٹرزے جَم جاتی ہے تو ہزارہا لوگ مخصوص جوتے پہن کر اس پر پھسلنے کے لیے یا ویسے ہی سیر کرنے کے لیے جاتے ہیں۔ آخری مرتبہ یہ جھیل 2012ء میں مکمل طور پر جمی تھی۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کی وجہ سے اب ایسا کم کم ہونے لگا ہے۔