امریکا کا خلائی تحقیقاتی ادارہ ناسا اپنا ایک خصوصی مشن سورج کے جانب روانہ کر رہا ہے، جو سورج سے انتہائی قریب پہنچ کر سورج کے ’کرہء ہوائی‘ اور ’شمسی ہواؤں‘ کی تصاویر بنائے گا۔
اشتہار
ناسا کے اس منصوبے کے مطابق اس خصوصی مشن میں نصف کیمرے زومنگ ٹیکنالوجی کی مدد سے سورج کے قریب پہنچ کر اس ستارے کے ’کرہ ہوائی‘ کا جائزہ لیں گے۔ اسی حصے میں سولر وِنڈز یا شمسی ہوائیں پیدا ہوتی ہیں۔
پارکر سولر پروب نامی یہ روبوٹک خلائی جہاز ایک چھوٹی کار جتنا ہے۔ اسے چھ اگست کو فلوریڈیا کے کیپ کانیورل اڈے سے روانہ کیا جائے گا۔ اس خلائی جہاز کا یہ سات سال پر محیط مشن سورج سے صرف 6.1 ملین کلومیٹر دور سے تصاویر لے گا۔ اس سے قبل سورج کی جانب روانہ کیے جانے والے خلائی جہازوں کے مقابلے میں یہ فاصلہ سات گنا کم ہے۔
جانز ہاپکن اپلائیڈ فزکس لیبارٹری اور اس پروجیکٹ سے وابستہ سائنس دان نِکولا فاکس نے جمعے کے دن ایک نیوزکانفرنس میں کہا، ’’کوئی خلائی جہاز وہاں بھیجنا، جہاں اس سے پہلے کبھی کوئی جہاز نہیں پہنچ پایا، دلچسپ بات ہے۔ اگر وہ علاقہ انتہائی سفاک حالات کا مالک ہو، تو یہ دلچسپی بیان سے باہر ہوتی ہے۔‘‘
واضح رہے کہ سورج کی جانب سن 1976 میں ایک مشن ہیلیوس ٹو روانہ کیا گیا تھا، جو سورج سے 43 ملین کلومیٹر دوری تک پہنچ گیا تھا۔ واضح رہے کہ سورج اور زمین کے درمیان فاصلہ ڈیڑھ سو ملین کلومیٹر کا ہے۔
سورج کے کرہ ہوائی کا بیرونی حصہ ’کرونا‘ شمسی ہواؤں کا باعث بنتا ہے اور اس میں انتہائی چارج ذرات سورج کی جانب سے نظام شمسی کے بیرونی حصے کی جانب چلتے ہیں۔ اس وِنڈ کا زمین کی میگنیٹک فیلڈ یا مقناطیسی میدان پر بے انتہا اثر ہوتا ہے اور کمیونیکشن کے نظام میں بعض اوقات خلل کا باعث بھی یہی شمسی ہوائیں ہوتی ہیں۔
ہمارا سورج: گرم گیسوں کا گولہ
کائنات میں ہمارے سورج جیسے اربوں ستارے ہیں۔ ہمارے نظام شمسی میں سورج کے بغیر زمین پر زندگی کا وجود ممکن نہیں تھا۔ سورج کے بارے میں صدیوں سے تحقیق کی جا رہی ہے۔ آئیے اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Arco Images GmbH/Irlmeier, K.
آگ کا قدیمی گولہ
زمین پر انسانی وجود سے بھی اربوں برس پہلے سے سورج جگمگا رہا ہے۔ نظام شمسی کے دیگر سیاروں کے ہمراہ 4.6 بلین برسوں قبل سورج گیسوں کے بادلوں کے سبب وجود میں آیا۔ ماہرین کے مطابق آئندہ پانچ بلین سالوں تک سورج کا وجود قائم رہے گا جس کے بعد اس کی توانائی ختم ہو جائے گی۔
تصویر: Reuters/Y. Behrakis
توانائی پر تحقیق کرنے والوں کی توجہ کا مرکز
سورج بنیادی طور پر ایک بڑے ایٹمی ری ایکٹر کے مانند ہے۔ اس کے مرکز میں درجہ حرارت اور دباؤ اس قدر شدید ہےکہ ہائیڈروجن کے ایٹم ضم ہو کر ہیلیم کے ایٹم بن جاتے ہیں۔ اس عمل کے دوران بڑی مقدار میں توانائی خارج ہوتی ہے۔
تصویر: rangizzz/Fotolia.com
زمین سے سو گنا بڑا
زمین سے دیکھتے ہوئے سورج اتنا بڑا دکھائی نہیں دیتا لیکن اس کا نصف قطر یا رداس سات لاکھ کلو میٹر ہے۔ سورج کے مرکز میں درجہ حرارت پندرہ ملین ڈگری سیلسیئس سے بھی زیادہ ہے جب کہ سطح پر سورج کا درجہ حرارت ساڑھے پانچ ہزار ڈگری ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Rumpenhorst
اربوں میں ایک
خلا میں چمکتے ستاروں کے مرکز میں توانائی پیدا ہوتی ہے۔ ہمارا سورج بھی کائنات میں موجود ایسے ہی اربوں ستاروں میں سے ایک ہے۔ دوسرے ستاروں کے مقابلے میں سورج درمیانے حجم کا ستارہ ہے۔ کائنات میں ان گنت ستارے سورج سے سینکڑوں گنا بڑے بھی ہیں۔
تصویر: Ye Aung Thu/AFP/Getty Images
سطح پر دکھنے والی بے چینی
سورج کے اندر سے نکلنے والا انتہائی روشن اور گرم مادہ سطح پر پہنچنے کے بعد ٹھنڈا ہو جاتا ہے تاہم درجہ حرارت کم ہوتے ہی واپس مرکز کی جانب مڑ جاتا ہے۔ کائنات میں صرف سورج ہی وہ واحد ستارا ہے جس کا ماہرین اتنی باریک بینی سے تجزیہ کر پائے ہیں۔
تصویر: Getty Images/Q. Rooney
جادوئی سیاہ دھبے
سورج کی سطح پر سیاہ دھبوں کا مشاہدہ قبل از مسیح کے زمانے سے کیا جا چکا ہے۔ گیلیلیو کی تحریروں میں بھی ان کا ذکر موجود ہے۔ گزشتہ وقتوں کے انسانوں کے لیے یہ حیرت انگیز مشاہدے تجسس کا سبب تھے۔ لیکن اب ہم جان چکے ہیں کہ انتہائی مضبوط مقناطیسی میدان ان سیاہ دھبوں کا سبب بنتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ dpa
خطرناک طوفان
جب سورج پر سرگرمی بڑھ جائے تو ’جیو میگنیٹک‘ طوفان پیدا ہوتا ہے۔ اس وقت سورج سے بڑی مقدار میں ’چارج شدہ‘ ذرات خلا میں داخل ہوتے ہیں۔ یہ ذرات خلا میں موجود سیٹلائٹس کو تباہ کر سکتے ہیں اور زمین پر بھی پاور اسٹیشنز کو متاثر کر سکتے ہیں۔
تصویر: dapd
جب آسمان دمکتا ہے
ایسے ہی طوفان ایک دلفریب منظر کا سبب بنتے ہیں اور آسمان دمک اٹھتا ہے۔ یہ تب ہوتا ہے کہ چارج شدہ ذرات زمین کے کرہ ہوائی سے ٹکراتے ہیں۔ اس مظہر کو ’پولر روشنی‘ کہا جاتا ہے۔
تصویر: dapd
لیکن یاد رکھیے!
سورج گرہن کو کبھی ننگی آنکھ سے مت دیکھیے۔ سورج اس وقت بھی انتہائی روشن ہوتا ہے جب چاند اس کے سامنے آ چکا ہو۔ خاص طرح کی عینک پہنے بغیر سورج گرہن دیکھنے سے بینائی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Nietfeld
9 تصاویر1 | 9
سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اس نئے مشن کے ذریعے ماہرین زمینی کے خلائی ماحول سے متعلق بہتر پیش گوئیاں کر سکیں گے۔ اس پروجیکٹ پر ڈیڑھ ارب ڈالر کی لاگت آئی ہے اور یہ ناسا کے اسٹار پروگرام کا پہلا بڑا مشن ہے۔
امریکی ماہر فلکیات اوجین نیومین پارکر کے نام سے موسوم یہ خلائی جہاز انتہائی سفاک حالات اور تاب کاری کو برداشت کرنے کی صلاحیت کا حامل ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ جس مقام سے یہ سورج کی تصاویر لے گا، وہاں درجہ حرارت 1370 ڈگری سینٹی گریڈ ہو گا۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس خلائی جہاز میں موجود آلات زیادہ سے زیادہ 29 ڈگری سینٹی گریڈ تک کی حرارت برداشت کر سکتے ہیں، اس لیے ان آلات کو انتہائی جدید ڈھال فراہم کی گئی ہے، تاکہ وہ اس انتہائی بلند درجہ حرارت میں متاثر نہ ہوں۔