سترہ سالہ لڑکا وولف کوکیئر ناسا میں کی جانے والی اپنی انٹرن شپ کو زندگی بھر نہیں بھول پائے گا۔ اس لڑکے نے دو سورج والی ایسی دنیا دریافت کی ہے، جو ابھی تک سائنسدانوں کی نظروں سے اوجھل تھی۔
اشتہار
نئی دنیا کی دریافت سے مشہور فلم اسٹار وارز کے کردار 'لُوک اسکائی واکرز‘ کی یاد تازہ ہو گئی ہے، جو اپنے آبائی سیارے ٹیٹوائن پر پہنچتا ہے اور وہاں دو سورج غروب ہوتے ہیں۔ وولف کویئر نے 'ٹی او آئی 1338 بی‘ نامی ایسی دنیا دریافت کی ہے، جہاں دو سورج ہیں۔ ایک سیارہ دو چمکتے ہوئے ستاروں کے ارد گرد 93 اور 95 دنوں میں ایک چکر مکمل کرتا ہے۔ ایک سورج زمینی سورج سے تھوڑا سا بڑا ہے جبکہ دوسرا سورج اس کی کیمیت کا ایک تہائی ہے۔ یہ نئی دنیا کائنات کے سہ پایہ (مجمع النجوم) نامی حصے میں واقع ہے اور زمین سے اس کا مشاہدہ ناممکمن ہے۔ ماہرین فلکیات کے مطابق نئی دریافت ہونے سیارے پر زندگی ناممکن ہے۔
ناسا کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق یہ نئی دنیا وولف کوکیئر نے گرمیوں میں اپنی انٹرنشپ کے دوران دریافت کی تھی۔ وولف کوکیئر کا اس حوالے سے کہنا تھا، ''تین دن بعد ہی میں نے 'ٹو او آئی 1338‘ نامی سسٹم سے ایک سِگنل موصول ہونے کا مشاہدہ کیا اور پھر وہ ایک سیارہ ثابت ہوا۔‘‘
نیا دریافت ہونے والا سیارہ زمین سے 13 سو نوری سال کی دوری پر واقع ہے اور ہماری زمین سے سات گنا بڑا ہے۔ اسے خلائی دوربین ٹیس سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار کی مدد سے تلاش کیا گیا ہے۔ وولف کوکیئر دنیا کا کوئی ایسا پہلا انٹرن نہیں ہے، جس نے کوئی نیا سیارہ دریافت کیا ہو۔ قبل ازیں سن 2015ء میں برطانیہ کی کیلے یونیورسٹی نے بیان جاری کیا تھا کہ انٹرنشپ کرنے والی ایک 15 سالہ لڑکی نے ایک نیا سیارہ دریافت کیا ہے۔ اس سیارے کو 'ڈبلیو اے ایس پی 142 بی‘ کا نام دیا گیا تھا۔ اس طرح کی کئی دیگر مثالیں بھی موجود ہیں۔
ٹیس ٹیلی اسکوپ کو سن 2018ء میں خلاء میں بھیجا گیا تھا تاکہ نظام شمسی سے باہر موجود سیاروں کو تلاش کیا جا سکے۔
ا ا / ا ب ا ( ڈی پی اے، اے ایف پی)
تین لاکھ نئی کہکشائیں دریافت
سائنسدانوں نے لاکھوں ایسی نئی کہکشائیں دریافت کر لی ہیں، جو اب تک انسانی نظر سے اوجھل تھیں۔ سائنسدانوں کے مطابق اس پیشرفت سے بلیک ہول اور کہکشاؤں کے جھرمٹ کے تخلیق ہونے کے بارے میں مزید معلومات مل سکیں گی۔
تصویر: LOFAR/Maya Horton
ٹمٹماتی ہوئی سرخ کہکشائیں
یہ تصویر HETDEX ریجن میں گردش کرتی متعدد کہکشاؤں کی نشاندھی کرتی ہے۔ اٹھارہ ممالک سے تعلق رکھنے والے دو سو سے زائد سائنسدانوں نے ان کہکشاؤں کو دریافت کیا ہے۔ ماہرین فلکیات نے ریڈیو ٹیلی اسکوپ نیٹ ورک LOFAR کے ذریعے ان کی نئی نقشہ بندی کی۔
تصویر: LOFAR/Judith Croston
چمکدار پر
ریڈیو ٹیلی اسکوپ کے ذریعے سے حاصل کردہ یہ امیج B3 0157+406 نامی خلائی ریجن کی میگنیٹک فیلڈ میں بڑے پیمانے پر ایک ہنگامی سرگرمی دکھا رہا ہے۔ ایسے لوگ جو فلکیات کے بارے میں زیادہ علم نہیں رکھتے، انہیں اس تصویر میں دو بڑے پر دکھائی دیں گے۔
تصویر: LOFAR/Maya Horton
پیچ دار کہکشاں
اس تصویر میں M106 نامی کہکشاں کی روشن دم دیکھی جا سکتی ہے۔ محققین کو یقین ہے کہ آتش فشانی کرتا یہ حصہ دراصل اس کہکشاں کے وسط میں واقع ایک بہت بڑے بلیک ہول کا ثبوت ہے۔ ہیمبرگ یونیورسٹی سے وابستہ ماہر اجرام سماوی مارکوس بروگن کے مطابق LOFAR کی مدد سے یہ جاننے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ بلیک ہول کے کہکشاؤں پر کیا اثرات پڑتے ہیں۔
تصویر: LOFAR/Cyril Tasse
گرداب نما کہکشاں
یہ تصویر M51 نامی کہکشاں کی ہے۔ اسے سائنسدان گرداب نما کہکشاں بھی کہتے ہیں، اس کا یہ نام اس تصویر سے ظاہر بھی ہوتا ہے۔ یہ زمین سے پندرہ اور 35 ملین نوری سال دور واقع ہے۔ اس کے وسط میں بھی ایک بہت بڑا بلیک ہول واقع ہے۔
تصویر: LOFAR/Sean Mooney
سرخ آنکھ کے مانند
کہکشاؤں کے اس جتھے کو CIZA J2242.8+5301 سے جانا جاتا ہے۔ سائنسدان اس کے شمالی حصے کو ’ساسیج‘ بھی کہتے ہیں۔ ماہر اجرام فلکیات کو یقین ہے کہ اس جتھے سے ملنے والی معلومات ظاہر کر سکیں گی کہ کہکشاؤں کے جتھے کس طرح ترتیب پاتے ہیں۔
تصویر: LOFAR/Duy Hoang
خلا میں دھماکے
اس تصویر میں IC 342 نامی پیچ دار کہکشاں میں ہونے والے سپر نووا دھماکوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ منظر دیکھنے میں شاندار معلوم ہوتا ہے۔ فرانسیسی سائنسدان سیرل تاشے دریافت ہونے والی اس نئی کہکشاں کو کائنات کا ایک نیا درز قرار دیتے ہیں۔
تصویر: LOFAR/Maya Horton
جھلملاتے ستارے
ٹیلی اسکوپ LOFAR سے حاصل کردہ یہ امیج رات کا منظر پیش کر رہا ہے۔ کبھی کبھار سائنسدانوں کو اس طرح کے دیدہ زیب منظر کو عکس بند کرنے میں بہت زیادہ مہارت دکھانا پرٹی ہے۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ سائنسدانوں کی یہ کوشش ناکام نہیں ہوئی۔
تصویر: LOFAR/Cyril Tasse
ط
کہکشاؤں کا جتھہ Abell 1314 زمین سے چار سو ساٹھ ملین نوری سال دور واقع ہے۔ LOFAR کے ماہرین کو اس جتھے کی اور نئی دریافت کی جانے والی تین لاکھ کہکشاؤں کی جامع اور مکمل تحقیق کی خاطر بڑے پیمانے پر ڈیٹا اسٹور کرنا ہو گا۔ بیلے فیلڈ یونیورسٹی سے وابستہ ماہر فلکیات ڈومینیک شوارٹس کا کہنا ہے کہ اس مقصد کی خاطر دس ملین ڈی وی ڈیز پر اسٹور کیے جانے والے مواد کا تجزیہ کرنا ہو گا۔