1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ناسا کے یوروپا کلپر مشن سے منسلک پاکستانی سائنسدان

17 نومبر 2024

ناسا نے 14 اکتوبر کو مشتری کے چاند یوروپا کی جانب ایک نیا مشن روانہ کیا ہے، جو 2030 میں اس چاند تک پہنچے گا۔ ڈی ڈبلیو اردو نے یوروپا کلپر مشن سے منسلک پاکستانی نژاد سائنسدان ڈاکٹر نوزیر خواجہ سے خصوصی بات چیت کی ہے۔

ڈاکٹر نوزیر خواجہ (بائیں طرف)
ڈاکٹر نوزیر خواجہ (بائیں طرف)تصویر: Privat

امریکی خلائی ادارے ناسا نے 14 اکتوبر کو فلوریڈا کے کیپ کارنیوال لانچ پیڈ سے مشتری کے چاند یوروپا کے جانب ایک اہم مشن روانہ کیا ہے۔ یہ اسپیس کرافٹ ایک اعشاریہ آٹھ بلین میل کا سفر طے کر کے 2030ء کے اوائل تک اپنی منزل پر پہنچے  گا جبکہ اس کے زریعے باقاعدہ سائنسی تحقیق کا آغاز 2031 ء تک ممکن ہو سکےگا۔

جرمنی میں طویل عرصے سے مقیم ڈاکٹر نوزیر خواجہ یوروپا کلپر مشن کی تحقیقی ٹیم میں شامل ہیں اور جاپان کے "ڈیسٹینی پلس" مشن کا بھی حصہ ہیں۔ پاکستان کے صوبے پنجاب میں پیدا ہو نے والے ڈاکٹر نوزیر اس سے قبل یورپین اسپیس ایجنسی اور ناسا کے کئی مشنز سے وابستہ رہ چکے ہیں۔

 ڈوئچے ویلے نے ان کے نئے مشن کے مقاصد اور اہمیت سے متعلق ڈاکٹر نوزیر خواجہ سے خصوصی بات چیت کی ہے۔

ناسا نے 14 اکتوبر کو فلوریڈا کے کیپ کارنیوال لانچ پیڈ سے مشتری کے چاند یوروپا کے جانب ایک اہم مشن روانہ کیاتصویر: CHANDAN KHANNA/AFP

یوروپا کلپر مشن کے بنیادی مقاصد کیا ہیں؟

ڈاکٹر نوزیر خواجہ نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ یوروپا کلپر مشن  بھیجنے کا بنیادی مقصد یہ معلوم کرنا ہے کہ مشتری کا یہ چاند کتنا  قابل  سکونت یا ہیبی ٹیبل ہے۔ ڈاکٹر نوزیر نے اس مشن کے تین دیگر اہم سائنسی مقاصد بھی بیان کیے۔ ان کے مطابق اس کا پہلا مقصد یورپا کی برفیلی تہہ کی موٹائی اور اس کے نیچے موجود سمندر کے ساتھ اس کے ربط یا انٹریکشن کی تفصیلات جاننا ہے۔   مشن کا دوسرا مقصد اس کے سمندر کی ترکیب اور اس کے مینٹل کے متعلق معلومات اکٹھا کرنا ہے۔ جبکہ تیسرا مقصد یوروپا کی سطح کی جیولوجی کی خصوصیات کا جائزہ لینا ہے۔

ڈاکٹر نوزیر کے مطابق یوروپا کی اس تفصیلی تحقیق سے سائنسدانوں کو ہماری زمین کے علاوہ دیگر دنیاؤں میں زندگی کے لیے موزوں ماحول کے امکانات کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد ملے گی۔

ڈاکٹر نوزیر خواجہ کہتے ہیں کہ عمو ما ذرائع  ابلاغ میں یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ یوروپا کلپر خلائی گاڑی مشتری کے اس چاند پر زندگی کے آثار یا "ایلین لائف" تلاش کرے گی۔ درحقیقت یہ مشن کا ثانوی مقصد ہوسکتا ہے کہ تلاش و تحقیق کے دوران وہاں سے زندگی کے آثار مل جائیں یا یوروپا کےسمندر میں زندگی کے لیے لازمی اجزاء موجود ہوں اور وہاں پری بایوٹک عوامل ہو رہے ہوں ۔

اس مشن میں ڈاکٹر نوزیر کا کردار کیا ہے؟

ڈاکٹر نوزیر خواجہ نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ جب کوئی خلائی مشن ڈیزائن کیا جاتا ہے تو اس میں شامل تمام تجربات سے متعلق ماہرین، محققین اور سائنسدانوں کو منصوبے کے لیے کمیشن کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر نوزیر بھی اس مشن سے  براہ راست منسلک ہیں اور خلائی گاڑی میں نصب ایک خاص آلے "سوڈا" یا ایس یو ڈی اے کے ٹیم ممبر ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ یہ ٹیم یوروپا کلپر میں نصب اس آلے سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کا جائزہ لے کر بتائے گی کہ برفیلے یورپا کی سطح کے نیچے پائے جانے والے پانی کے سمندر میں کون سے اجزا شامل ہیں۔ خاص طور پر اس آلے کی مدد سے سائنسدان زندگی کے لیے لازمی اجزاء جنھیں "بایو سگنیچر" کہا جاتا ہے، کے بارے میں جاننے کی کوشش کریں گے۔

یوروپا کلپر مشن  بھیجنے کا بنیادی مقصد یہ معلوم کرنا ہے کہ مشتری کا یہ چاند کتنا  قابل  سکونت یا ہیبی ٹیبل ہےتصویر: NASA/JPL-Caltech via REUTERS

کیا یوروپا کے سمندر میں زمین سے دگنا پانی موجود ہے؟

1997ء میں مشتری کے چاند یوروپا  کی جانب گلیلیو مشن بھیجا گیا تھا جس نے اس کے قریب سے 12 چکر (فلائی بائی) کاٹتے ہوئے اس کی برفیلی سطح کے نیچے چھپے سمندر کی نشاندہی کی۔ ایک اندازے کے مطابق  یوروپا کا سمندر  تقریبا 40 سے 100 میل تک گہرا ہے جو زمین کے سمندروں سے 16 گنا زیادہ گہرا ہے۔

 ڈاکٹر نوزیر خواجہ نے ڈو ئچے ویلے کو بتایا کہ یوروپا کے سمندر کا  نمکین پانی مائع حالت میں ہے جو  برف کی ایک موٹی تہہ کے نیچے چھپا ہوا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہ تہہ 10 سے 15 میل موٹی ہے۔  

وہ بتاتے ہیں کہ یوروپا کے سمندر میں کتنا پانی ہو سکتا ہے اس حوالے سے متعدد قیاس کیے جاتے ہیں، جن کی بنیاد گلیلیو مشن سے حاصل ہونے والا  اہم مواد ہے۔ اس سمندر میں زمین کے کل پانی سے دگنا پانی بھی ہوسکتا ہے لیکن اس حوالے سے حتمی نتائج تبھی مل سکیں گے، جب یوروپا  اسپیس کرافٹ وہاں پہنچ کر جدید ترین آلات کی مدد سے اہم معلومات بھیجے گا۔

سائنسدان یوروپا میں اتنی دلچسپی کیوں رکھتے ہیں؟

ڈاکٹر نوزیر خواجہ نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ مشتری کا چاند یوروپا ایک طویل عرصے سے سائنسدانوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ اکتوبر 2024 میں اس کی جانب یوروپا کلپر خلائی گاڑی بھیجی گئی ہے، جو کسی سیارے تک بھیجی جانے والی سب سے بڑا اسپیس کرافٹ ہے اور نو جدید ترین  سائنسی آلات سے مزین ہے۔

ڈاکٹر نوزیر مزید بتاتے ہیں کہ مشتری کے گرد چکر کاٹتے ہوئے یہ سیارہ اس چاند پر انتہائی طاقتور گریویٹی کی قوت ڈالتا ہے۔ جس کی وجہ سے یوروپا کا برفیلا بیرونی خول یا کور اور اسکے مینٹل (یا مرکز) میں کچھاؤ پیدا ہو جاتا ہے۔ اس کھچاؤ سے پیدا ہونے والی لچک یوروپا کی اندرونی سطح پر حرارت پیدا کرتی ہے۔ یہ حرارت برفیلی تہہ کے نیچے سمندر کو مائع حالت میں برقرار رکھتی ہے۔

مشتری کا چاند یوروپا ایک طویل عرصے سے سائنسدانوں کی توجہ کا مرکز ہےتصویر: JPL-Caltech/DLR/ZUMAPRESS/picture alliance

ڈاکٹر نوزیر خواجہ کے مطابق یوروپا کی اندرونی ساخت غالبا سلیکیٹ کی چٹانوں پر مشتمل ہے اور اس کی کرسٹ (سب سے اوپر والی  زمینی تہہ) نمکین پانی و برف سے بنی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جس طرح زمین پر سمندری پانی اور چٹانوں کے کیمیائی تعامل سے خوردبینی حیات وجود میں آئی تھی تو عین ممکن ہے کہ یوروپا کے برفیلے سمندر میں بھی ایسے تعاملات ہوتے ہوں۔

یوروپا کلپر اسپیس کرافٹ کون سی سائنسی تحقیقات کرے گا؟

ڈاکٹر نوزیر خواجہ نے ڈوئچے ویلے کو بتایاکہ یوروپا کلپر خلائی گاڑی میں کل نو آلات نصب ہیں۔ ان میں سے کچھ ریموٹ سینسنگ سے متعلق ہیں، جن کی مدد سے معلوم کیا جائے گا کہ یوروپا کے سمندر کے اوپر برفیلی تہہ کتنی موٹی ہے اور اس کے پانی میں نمکیات کی مقدار کتنی ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ یوروپا  کے نمکین سمندر میں ثانوی مقناطیسی فیلڈ پیدا ہوتی ہے جس سے مشتری کی مقناطیسی فیلڈ  کی سمت اور طاقت دونوں میں تبدیلی آتی رہتی ہے۔ یوروپا کلپر خلائی گاڑی میں ایسےآلات بھی نصب ہیں جن کی مدد سے ان تغیرات کا جائزہ لیاجائے گا۔

وہ مزید بتاتے ہیں کہ یوروپا کلپر ایک انتہائی دلچسپ مشن ہے۔ مشتری کا ماحول ریڈی ایشن کی وجہ سے کافی سخت ہے جس کے باعث وہاں سے ڈیٹا حاصل کرنے میں بہت سی دشواریوں کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔ لہذا  ایک فلائی بائی مشن وہاں بھیجا گیا ہے، جو یوروپا کے قریب 50 فلائی بائی کرے گا لیکن اس کے مدار میں داخل نہیں ہوگا۔

ڈاکٹر نوزیر کے مطابق زمین پر آئے روز شہاب ثاقب گرتے ہیں جبکہ متعدد کو زمین کی اَپر آٹموسفیر روک بھی دیتی ہے۔ لیکن یوروپا پر ایسا نہیں ہے۔ وہا ں جب کوئی شہاب ثاقب گرتا ہے تو یوروپا کی سطح کا میٹیریل ردعمل میں کئی کلومیٹر تک مائیکرو میٹر سائز کے ذروں کی شکل میں اوپر کی جانب اٹھتا ہے۔ ان ذروں کو یوروپا کلپر میں موجود آلات جیسے سوڈا یا ماس سپیکٹرو میٹر پکڑ سکتے ہیں جن کے مشاہدے سے اس کی سطح کی ساخت کی کمپوزیشن  سے متعلق معلومات حاصل ہوں گی۔

ڈاکٹر نوزیر بتاتے ہیں کہ اس ڈیٹا سے معلوم ہوگا  کہ یہ کمپوزیشن صرف یوروپاکی سطح کی ہیں یا ان کا ربط اس کے برفیلے سمندر کے ساتھ بھی ہے۔ لہذا ان تمام معلومات کی روشنی میں ہی حتمی طور پر بتایا جاسکے گا کہ یوروپا کتنا قابل سکونت یا ہیبی ٹیبل ہے۔

کیا مشتری کے چاند زندگی کے لیے موزوں ہیں؟

02:02

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں