1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نامعلوم پتوں کے نامے

زبیر بشیر17 جولائی 2013

افغان دارالحکومت میں بہت سی گلیاں ایسی ہیں جن کا کوئی نام ہی نہیں اور ان گھروں کی بھی کوئی کمی نہیں جن پرکوئی نمبر نہیں، ایسے میں محکمہ ڈاک کے ملازمین کو کسی پتے پر خط پہنچانے کے لیے کسی جاسوس کی طرح کام کرنا پڑتا ہے۔

تصویر: Fotolia/V. Kudryashov

شہر میں ایک طرف دہشت گردی کا خطرہ ہے تو دوسری طرف منزل نامعلوم لیکن پھر بھی محمد رحیم اپنی پرانی سائیکل پر سوار کابل کی تباہ حال، پہاڑی گلیوں اور سڑکوں پر گھومتا پھرتا ہے۔ اسے ڈاکیے کی نوکری کرتے ہوئے دس برس بیت چکے ہیں۔ اس دوران وہ کبھی بھی نہیں گھبرایا۔ اس نے ایسے خطوط کو بھی ان کی منزل پر پہنچانے کی اکثر ٹھانی ہے، جن پر لکھے پتے بالکل ہی جعلی معلوم ہوتے تھے۔

46 سالہ رحیم کہتا ہے، ’’ میرے پاس ایک خط ہے، یہ محمد نعیم نامی ایک شخص کو پہنچانا ہے، جو ڈاکٹر حشمت کے گھر کے پاس رہتا ہے، مجھے پتہ معلوم نہیں ہے، تو آئیے دیکھتے ہیں کہ ہم یہ پتہ کیسے تلاش کرتے ہیں۔‘‘

ہمارے گھر امریکا، جرمنی، کینیڈا اور پاکستان سے خطوط آتے ہیں۔ ڈاکیے بروقت اور بحفاظت یہ خطوط ہم تک پہنچا دیتے ہیں: مسز نعیمتصویر: picture-alliance/CTK

اُس کے پاس اِس خط کی منزل کو تلاش کرنے کا صرف ایک سراغ ہے اور وہ ہے ڈاکٹر کا نام اور خط کے لفافے کی پشت پر لکھی ہوئی ہدایت، ’’ کارتہ سخی پہاڑی چوٹی عقب وزارت زراعت ۔‘‘

سر پر سیاہ فر کی ٹوپی، نیلی جینز اور بنفشی ٹی شرٹ پہنے رحیم خط پہنچانے کے لیے روانہ ہوتا ہے۔ وہ کابل کی ایک جانی پہچانی شخصیت ہے۔ شہر کے اکثر لوگ اسے جانتے ہیں۔ وہ خط پہنچانے کی جگہ کے قریب پہنچ کر لوگوں سے مدد لیتا ہے۔ ایک دکاندار کو آواز دیتا ہے، ’’ بھائی کیا تم مجھے بتا سکتے ہو ڈاکٹر حشمت کا گھر کہاں ہے۔‘‘ جواب آتا ہے، ’’ سیدھا پہاڑی کے اوپر چڑھ جاؤ، آگے سے دائیں مڑ جانا، ڈاکٹر حشمت کا گھر آجائےگا۔‘‘ وہاں پہنچ کر وہ ایک شخص سے نعیم کے گھر کی بابت سوال پوچھتا ہے۔ وہ شخص کہتا ہے، ’’سیدھا جا کر دائیں مڑنا اور مڑتے ساتھ ہی بائیں ہاتھ پر تیسرا گھر محمد نعیم کا ہے۔ ‘‘ رحیم مطلوبہ جگہ پر پہنچ کر دستک دیتا ہے، اندر سے محمد نعیم کی بیوی نکلتی ہے اور خط وصول کر لیتی ہے۔

محمد نعیم کی 40 سالہ بیوی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ’’ ہمارے گھر امریکا، جرمنی، کینیڈا اور پاکستان سے خطوط آتے ہیں۔ ڈاکیے بروقت اور بحفاظت یہ خطوط ہم تک پہنچا دیتے ہیں۔‘‘

شہر میں خطرات کے باوجود محمکہ ڈاک کے ملازمین اپنے کام میں لگے ہیںتصویر: Reuters

رحیم ہر روز درجنوں خطوط دارالحکومت کابل کے مغرب اور جنوب مغرب میں پہنچاتا ہے۔ اس شہر کا بیشتر حصہ سن 1992تا 1996جاری رہنے والی خانہ جنگی کے بعد کھنڈرات میں تبدیل ہوچکا تھا۔ اب یہاں آبادی تیزی سے بڑھنا شروع ہوگئی ہے۔ ملک کے دیگر حصوں سے لوگ روزگار کی تلاش میں اس شہر کا رخ کر رہے ہیں۔

وہاں پتوں کو لے کر پیدا ہونے والی مشکلات اب ماضی کا حصہ بن جائیں گی۔ ملک کی مرکزی وزارت مواصلات نے شہری حکومت کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں جس کے مطابق شہر کی ہر گلی اور گھر کی جدید اصولوں کے مطابق ’کوڈنگ‘ کی جائے گی اور یہ عمل دوسال میں مکمل ہوجائے گا۔ مشکلات میں گھرے محکمہ ڈاک کے ملازمین پر امید ہیں کہ ڈاک کا نیا نظام آجانے سے ان کا کام بہت آسان ہوجائے گا۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں