نامور مصور ایم ایف حسین انتقال کر گئے
9 جون 2011اُنہیں ’بھارت کا پکاسو‘ بھی کہا جاتا تھا۔ خبر رساں اداروں نے ایم ایف حسین کے اہل خانہ اور دوستوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ اُن کا انتقال لندن کے برومپٹن ہسپتال میں ہوا۔ بھارتی ٹی وی نیوز چینلز کے مطابق اُن کا انتقال حرکت قلب بند ہونے سے ہوا۔ بتایا گیا ہے کہ اُن کے پھیپھڑوں نے بھی کام کرنا بند کر دیا تھا۔
بھارت کے چوٹی کے نوجوان مصوروں میں شمار ہونے والے جتیش کلات نے این ڈی ٹی وی سے باتیں کرتے ہوئے بتایا:’’بھارت کے لیے یہ ایک بہت بڑا نقصان ہے کہ اُسے اس مصور کو اُس کے آخری لمحات میں دیکھنے کا اعزاز حاصل نہیں ہو سکا ہے۔‘‘
17 ستمبر سن 1915ء کو بھارت میں پندھر پور کے مقام پر پیدا ہونے والے ایم ایف حسین کی زندگی کا بیشتر حصہ شہر ممبئی میں گزرا۔ وہیں چند سال پہلے انتہا پسند ہندوؤں نے ان پر الزام عائد کیا کہ اپنی کچھ تصاویر میں اُنہوں نے ہندو دیوی دیوتاؤں کو برہنہ حالت میں دکھایا ہے، جس سے ہندو مذہب کی توہین ہوئی ہے۔ اس کے برعکس خود ایم ایف حسین کا کہنا یہ تھا کہ اُن کی یہ تصاویر پاکیزگی کی علامت تھیں۔
ایک انتہا پسند ہندو گروپ نے ایم ایف حسین کو ہلاک کرنے والے کے لیے 11.5 ملین ڈالر کے انعام کا اعلان کر دیا تھا جبکہ ’ہندو جذبات‘ کو مشتعل کرنے کے الزام میں اُن کے خلاف عدالتوں میں ہزاروں کیس بھی دائر کر دیے گئے۔ اپنے خلاف بڑھتی ہوئی معاندانہ فضا کے پیشِ نظر ایم ایف حسین سن 2006ء میں خود ساختہ جلا وطنی اختیار کرتے ہوئے خلیجی عرب ریاست قطر میں منتقل ہو گئے، یہاں تک کہ 2010ء میں اُنہوں نے قطر کی شہریت اختیار کر لی۔
سن 2008ء میں دائیں بازو کے ایک ہندو گروپ بجرنگ دل کی جانب سے نئی دہلی میں اِس مصور کے فن پاروں کو حملے کا بھی نشانہ بنایا گیا۔ اُسی سال ہندو مذہبی داستانوں پر مبنی اُن کی ایک پینٹنگ تقریباً دو ملین ڈالر میں فروخت ہوئی، جو کہ اُس وقت تک جنوبی ایشیا کے کسی جدید فن پارے کے لیے ادا کی جانے والی ریکارڈ رقم تھی۔
ایم ایف حسین نے اپنے کیریئر کا آغاز فلموں کے بڑے بڑے بورڈ پینٹ کرنے سے کیا تھا۔ پھر لیکن ایک ایسا وقت آیا کہ اُن کی بنائی ہوئی تصاویر لاکھوں کروڑوں میں فروخت ہوتی تھیں اور بھارت کا امیر طبقہ اُن کے عام پنسل سے بنائے ہوئے چھوٹے چھوٹے خاکے بھی اپنے گھروں میں سجا کر فخر محسوس کرتا تھا۔ وہ بیس ویں صدی کی چوتھی دہائی میں ہی ایک مشہور مصور بن چکے تھے۔
وہ سر تا پا ایک مجسم فنکار تھے۔ کروڑوں کا مالک بن جانے کے بعد بھی اُن کی سادگی مثالی تھی۔ اُن کا خاص وصف یہ تھا کہ وہ اپنے پاؤں میں کبھی بھی جوتے نہیں پہنتے تھے، جہاں جاتے ننگے پاؤں جاتے۔
اُنہوں نے چند ایک فلمیں بھی بنائیں، جن میں معروف بھارتی اداکارہ مادھوری ڈکشٹ کے ساتھ بنائی گئی فلم ’گج گامنی‘ بھی شامل ہے۔
’ایک مصور کی آنکھ سے‘ اُن کی پہلی فلم تھی، جو اُنہوں نے سن 1967ء میں بنائی اور جس نے جرمن دارالحکومت برلن کے بین الاقوامی فلمی میلے کا بہترین مختصر فلم کا گولڈن بیئر اعزاز جیتا تھا۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: کشور مصطفیٰ