1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ناکامیاں افغانستان کے اندر ہیں، زمینی حقائق پر توجہ دیں‘

13 اگست 2021

افغانستان کی موجودہ صورتحال میں پاکستان کے کردار اور افغانستان کے سیاسی مستقبل کے بارے میں پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے ڈی ڈبلیو کے چند برملا سوالات کا جواب دیا۔

Afghanistan Update Bildergalerie Taliban Kämpfer Kandahar
تصویر: AFP via Getty Images

افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے حتمی مراحل جیسے جیسے تکمیل کی طرف بڑھ رہے ہیں ویسے ویسے طالبان اپنے مکمل زور کے اظہار کے ساتھ ملک کے بیشتر حصوں پر قبضہ جماتے چلے جا رہے ہیں۔

پڑوسی ملک پاکستان اس وقت ایک بار پھر بین الاقوامی تنقید اور افغان حکام کی طرف سے الزامات کی زد میں ہے۔ افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی اور جارحانہ کارروائیوں کا ذمہ دار یہ کہہ کر پاکستان کو ٹھہرایا جا رہا ہے کہ اس نے طالبان جنگجوؤں کو اپنی سرزمین پر تربیت حاصل کرنے اور منظم ہونے دیا۔

اسلام آباد حکومت پر یہ دباؤ بھی غیر معمولی حد تک ڈالا جا رہا ہے کہ وہ طالبان کو کسی سیاسی تصفیے اور مذاکرات کے لیے قائل کرے نیز اس طرح کا تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ پاکستان کابل میں طالبان کی ممکنہ حکومت کو تسلیم کرنے کا اراداہ بھی رکھتا ہے۔

افغانستان اور پورے خطے کے لیے عدم استحکام کا سبب بننے والے موجودہ حالات میں پاکستان اپنی پالیسیوں کا دفاع کس طرح کر رہا ہے؟ اس بارے میں وزیر اعظم پاکستان کے سلامتی امور کے مشیر معید یوسف کیساتھ ڈی ڈبلیو نے خصوصی بات چیت کی۔

 

ڈی ڈبلیو:

بظاہر پاکستان کا طالبان پر کافی اثر و رسوخ دکھائی دیتا ہے۔ پاکستان طالبان کو افغان حکومت کے ساتھ سیاسی تصفیے اور مذاکرات پر قائل کیوں نہیں کرتا؟

معید یوسف:

یہاں پر اثر و رسوخ کے لفظ کا استعمال غلط ہے۔ کسی کو بھی یہ کہنا کہ وہ طالبان کو کسی تصفیے کے لیے تیار کرے 'احمقوں کی جنت‘ میں رہنے کے مترادف ہے۔ زمینی حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ طالبان کا افغانستان کے تقریباً 70 فیصد علاقے پر کنٹرول ہے۔ وہ ہر روز ایک نا ایک ضلعے پر قبضہ کر رہے ہیں۔ وہ اس طرح نقل و حرکت کر رہے ہیں جیسے کے وہ جنگ کے میدان میں ہوں۔

افغانستان سے افواج کا انخلاء 'غلطی' تھی، سابق نیٹو کمانڈر

طالبان ہوں، اشرف غنی یا دیگر سیاسی قوتیں، انہیں کسی تصفیے یا نتیجہ خیز عمل تک پہنچا کر کون فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔ کیا اس بارے میں کوئی شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں کہ افغان حکومت کو ایک ایک پائی امریکا، یورپ اور بین الاقوامی برادری سے ملتی ہے؟ ان کا افغان حکومت پر کتنا کنٹرول ہے۔ کیا یہ سیاسی قوتیں انہیں افغانستان میں ایک فعال حکومت بنانے یا بدعنوانی کے بارے میں بات چیت کرنے کے لیے قائل کر سکیں؟

ہمارا نہیں تمام مغربی پریس دیگر آؤٹ لیٹس یہاں تک کہ خود افغان اس بارے میں بات کر رہے ہیں۔ کیا یہ سب کچھ جان بوجھ کر ہو رہا ہے؟ ہرگز نہیں۔ یہ ایک ایسی صورت حال بن چکی ہے جس میں ایک ایک پیسہ باہر سے آ رہا ہے۔ خود امریکی انٹیلیجنس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ''افغان حکومت امریکا کے بغیر چھ ماہ بھی نہیں چل پائے گی۔‘‘

پاکستان کا ایسا کوئی تعلق نہیں رہا ہے۔ 90 کی دہائی میں بھی، اُس وقت جب محض تین ممالک نے طالبان حکومت کو تسلیم کیا تھا، انہوں نے کبھی پاکستان کی نہیں سُنی۔ یہ سب من گھڑت ہے۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ جب امریکا نے انخلا کا فیصلہ کیا اُسے اچھی طرح ادراک تھا کہ اس ملک میں جہاں وہ 20 سال سے زیادہ موجود رہا ہے، وہاں سے اس کے نکلنے کے بعد یہ ملک کتنا غیر مستحکم ہو گا اور طالبان پیش قدمی کریں گے۔

اب پاکستان کی طرف رخ کرنا اور اُس سے کہنا کہ وہ کچھ کرے۔ جس وقت افغانستان میں ایک لاکھ پچاس ہزار غیر ملکی فوجی تعینات تھے، اُس وقت پاکستان کہہ رہا تھا کہ افغانستان کے لیے کوئی سیاسی حل تلاش کیا جائے۔ 2002 ء کی شروعات سے لے کر 2006 ء تک پاکستان سیاسی حل کی بات کرتا رہا، تب کسی نے اس کی نا سُنی۔ اب برائے مہربانی ان 'ناکامیوں‘ پر توجہ مرکوز کریں۔ 'ناکامیاں افغانستان کے اندر کی ہیں۔‘ یہ ہمارا انتخاب نہیں تھا۔

اب 'پاکستان کو قربانی کے بکرے‘ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ کسی بھی ملک کے ساتھ اس سے زیادہ نا انصافی کی بات نہیں ہو سکتی کہ جس نے 80 ہزار انسانی جانوں اور ایک سو پچاس ملین ڈالر کا مالی نقصان اُٹھایا، ساڑھے تین تا چار ملین افغان مہاجرین کا بوجھ اب بھی اُٹھا رہا ہے، اُسے ہی مورد الزام ٹھہرایا جائے۔‘‘ جو شکار ہوا اُسے الزام دینا چھوڑ دیں۔

افغانستان کے بحران میں شروع ہی سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں تھا تب بھی ہم اس سخت جنگ میں مخلصانہ طریقے سے جدو جہد جاری رکھے ہوئے تھے، برائے کرم افغانستان میں ناکامی کے ضمن میں انگلی کابل کی طرف اُٹھائیں، پاکستان کی طرف نہیں۔  

طالبان کے ممکنہ قبضے پر امریکی انتباہ: کیا اسلام آباد کی مشکلات بڑھیں گی؟

 

پاکستان کے سلامتی امور کے مشیر معید یوسفتصویر: Getty Images/AFP/A. Wong

ڈی ڈبلیو:

پاکستان دوحہ معاہدے کو کیسے سہل بنا سکا؟

معید یوسف:

آپ کا سوال ایسا ہی ہے جیسے کہ میں آپ سے کہوں کہ میرے پاس ایک ممکنہ رپورٹ کا مواد یا ایک کہانی موجود ہے آؤ میرے ساتھ بیٹھو، سنو اور مشورہ دو۔ کیا اس کا مطلب یہ ہو گا کہ میں آپ پر زور زبردستی کروں اور بتاؤں کے آپ کونسا مضمون لکھیں۔ کیا آپ اسے قبول کریں گے۔ کسی سے مشورہ لینے کا مطلب یہ تو نہیں کہ آپ اُس پر اپنی مرضی چلائیں۔  پاکستان اس بارے میں کیوں باتیں کرتا رہا ہے؟

پاکستان میں بڑی تعداد میں افغان مہاجرین رہ رہے ہیں، ایسے افغان بھی موجود ہیں جنہوں نے پاکستانی سرزمین پرآنکھیں کھولیں، یا پیدا ہوئے۔ یہاں دونوں ممالک کے درمیان گہرے نسلی، ثقافتی تعلقات پائے جاتے ہیں اور اس کی ایک قدیم تاریخ ہے۔ ہم نے ہمیشہ کہا کہ ہم جو کچھ کرسکتے ہیں ، کریں گے۔ ویسے دیگر ممالک کے افغانستان کے ساتھ زیادہ رابطے اور تعلقات ہیں وہ زیادہ ان سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔

دوحہ میں جو کچھ ہوا اس سے امریکا نے اتفاق کیا تھا۔ انہیں کیمپ ڈیوڈ بلانے کی بھی بات ہو رہی تھی۔ دوسرے ممالک نے بھی ان سے بات چیت کی۔ تو برائے کرم پاکستان پر انگلیاں اُٹھانا بند کریں۔ ناکامی افغانستان کے اندر ہے جس کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتے۔

ہمارا کام یہاں یہ بتانا نہیں کہ کون فاتح ہے اور شکست خوردہ، ہم بین الاقوامی برادری کیساتھ مل کر کام کرنا چاہتے ہیں۔ افغانستان میں امن پاکستان کے لیے 'ناقابل بحث‘ موضوع ہے۔ اس کی اہمیت پر کوئی دو رائے نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم کسی سیاسی تصفیے تک پہنچنے کی بات کر رہے ہیں اور تمام فریقوں کو اس عمل میں اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔

میں حال ہی میں امریکا میں تھا اور مجھے وہاں یہ جان کر خوشی ہوئی کہ واشنگٹن بھی سیاسی تصفیے کے لیے پُرعزم ہے۔ وہ بھی کوشش کر رہا ہے اور ہم بھی سہولیات فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘‘

ڈوئچے ویلے:

پاکستان کے افغانستان کے معاملے میں غیر جانب داری کے دعوؤں کا بین الاقوامی برادری کیوں یقین کرے جبکہ پاکستان کی ریاستی گفت و شنید میں اسلام پسندوں کا اثر نظر آتا ہے؟

معید یوسف:

میں کسی سے نہیں کہہ رہا ہوں کہ وہ ہماری کسی بات کا یقین کرے۔ میرا یہ کہنا ہے کہ افغان باشندے اس سے بہتر حالات کے مستحق ہیں۔ افغان عوام چار دہائیوں سے اس تنازعے کا شکار ہیں، پاکستان بھی چار عشروں میں اس صورت حال کا شکار ہے۔ دوسرے ممالک دو ہزار میل دور بیٹھ کر پرتعیش ماحول میں اپنی اپنی رائے تو دے سکتے ہیں مگر پاکستان کی سالمیت اور وجود اس معاملے سے جڑا ہے۔

پاکستان ہی افغان پناہ گزینوں کا بوجھ اُٹھا رہا ہے، ہمیں گن کلچر پڑوس سے ملا ہے، ہم اب دوبارہ اس سب کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ہم کسی سے کچھ نہیں کہہ رہے صرف یہ چاہتے ہیں کہ افغانستان کے مسئلے کا کوئی حقیقی سیاسی حل تلاش کیا جانا چاہیے۔ جو بھی قائل کر سکے طالبان، اشرف غنی کی حکومت اور دیگر سیاسی فریقوں کو قائل کر کے وہ ایک ایک کمرے میں مذاکرات کے لیے اکٹھے ہوں۔افغان رہنماؤں کو اپنی جنگ خود ہی لڑنی ہو گی، جو بائیڈن

 

ان فریقوں کی کوشش ہونی چاہیے کہ ایک ایسا سیاسی حل تلاش کیا جا سکے جو افغانوں کی اپنی ملکیت ہو اور اس کی قیادت بھی وہ خود ہی کریں۔ وہ خود فیصلہ کریں کہ انہیں اپنا ملک کیسے چلانا ہے۔ پاکستان ہر اس عمل کا ساتھ دے گا جس میں افغان خود اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں۔ میں امید کرتا ہوں کہ عالمی برادری بھی اس عمل میں اپنا کردار ادا کرے گی اور پاکستان ایسے عمل کا مکمل ساتھ دے گا۔

میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ پاکستان جن حالات کا شکار رہا ہے، اس نے جتنا جانی اور مالی نقصان اُٹھایا ہے کسی دوسرے ملک نے نہیں اُٹھایا۔ پاکستان کے عوام کے لیے یہ امر ذلت اور توہین آمیز ہے کہ اتنی قربانیاں دے کر بھی پاکستان سے کہا جائے کہ '' ڈو مور‘‘ ۔ ہم بہت کافی کچھ کر چُکے، جنہیں اپنے ملک کے لیے کچھ کرنا چاہیے تھا، انہیں اب کھڑے ہو کر ہاتھ اُٹھا کر کہنا چاہیے کہ '' ہم ناکام رہے۔‘‘

ڈی ڈبلیو:

پاکستان میں افغان پالیسی سے کون نمٹ رہا ہے، وزیر اعظم خان یا پاکستانی ملٹری؟

 

معید یوسف:

مجھے نہیں پتا کے مجھے اس سوال کا جواب کتنی مرتبہ دینا ہوگا۔ میرا ایک ہی جواب ہے۔ پاکستان کے بارے میں اپنے بیانیے کو اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ برائے کرم یہاں آئیں، آکر دیکھیں کے یہ ملک کیسا ہے۔ پاکستان کا ایک وزیر اعظم ہے، جس کے احکامات پر تمام کام ہوتے ہیں۔ بس۔ فُل اسٹاپ۔ میں وزیر اعظم کا سکیورٹی ایڈوائزر ہوں۔ میرا نہ تو کوئی فوجی نہ سیاسی اور نہ ہی بیورو کریٹک پس منظر ہے۔

میں نے کئی سال مغرب میں گزارے ہیں، میں ایک اسکالر ہوں۔ وزیر اعظم ملک کی قیادت کرتے ہیں، اپنے تمام اداروں کے ساتھ اپنے آئینی اختیارات کے مطابق کام کرتے ہیں۔ وزیر اعظم کے پاک فوج کیساتھ بہت اچھے، بہت قریبی  اور تعمیری تعلقات ہیں جو ان کے یا حکومت کے زیادہ تر فیصلوں کی حمایت کرتی ہے۔ یہ سوال اب چھوڑ دیا جائے۔ حقیقی مسائل پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم افغانستان کے بحران سے نبرد آزما ہیں۔ پاکستان سے زیادہ کسی دوسرے ملک کو افغانستان میں قیام امن کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم یہ گزشتہ 20 سالوں سے زیادہ کے عرصے سے کہہ رہے ہیں۔ فوری سیاسی حل اور تصفیے کی اشد ضرورت ہے۔

کشور مصطفیٰ

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں