ناکامی جرمن ٹیم کی، لیکن ’بطور تارک وطن قربانی کا بکرا‘ اوزل
مقبول ملک ولیم نوآ گلوکروفٹ
24 جولائی 2018
جرمن دارالحکومت اور وفاقی صوبے برلن کے سماجی انضمام اور تارکین وطن سے متعلقہ امور کے نگران کمشنر آندریاز گَیرمرہاؤزن کے مطابق جرمنی کے سٹار فٹبالر میسوت اوزل کو ایک ’تارک وطن کے طور پر قربانی کا بکرا‘ بنایا جا رہا ہے۔
اشتہار
میسوت اوزل ایک ایسے ترک نژاد جرمن شہری اور سٹار فٹبالر ہیں، جن کی اس سال مئی میں لندن میں ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے ساتھ اتروائی گئی ایک تصویر جرمنی میں شدید سیاسی بحث کی وجہ بنی تھی۔ اس بحث کا نقطہ عروج حال ہی میں کیا گیا میسوت اوزل کا یہ اعلان تھا کہ وہ جرمنی میں فٹبال کی سطح پر پائی جانے والی مبینہ نسل پرستی اور اپنے لیے عزت و احترام کی کمی کے خلاف احتجاجاﹰ جرمنی کی قومی فٹبال ٹیم سے ایک رکن کھلاڑی کے طور پر علیحدگی اختیار کر رہے ہیں۔
اس بارے میں برلن کی شہری ریاست کے سماجی انضمام اور تارکین وطن سے متعلقہ امور کے نگران کمشنر آندریاز گَیرمرہاؤزن نے پیر 23 جولائی کو ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ جس مبینہ ’نسل پرستی اور بےعزتی‘ کی وجہ سے اوزل نے جرمن فٹبال ٹیم سے اپنی علیحدگی کا اعلان کیا ہے، وہ جرمن معاشرے میں ایک ’ڈرا دینے والے رجحان‘ کی نشاندہی کرتی ہے۔
اس سوال کے جواب میں کہ میسوت اوزل کی جرمنی کے لیے بین الاقوامی فٹبال کھیلنے سے ریٹائرمنٹ پر ان کا ردعمل کیا ہے، گَیرمرہاؤزن نے کہا، ’’اوزل نے قریب دو ماہ تک اس بارے میں مکمل خاموشی اختیار کیے رہنے کے بعد تین حصوں میں (ٹوئٹر پر) اپنا جو بیان جاری کیا ہے، وہ خاصا ہلا کر رکھ دینے والا ہے۔ میرے لیے اوزل کا یہ جملہ سب سے زیادہ متاثر کن تھا: ’جب ہم (جرمن ٹیم) جیتیں، تو مجھے ایک جرمن کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ جب ہم ناکام ہو جائیں، تو مجھے ایک تارک وطن کے طور پر دیکھا جاتا ہے‘۔ تو میری رائے میں اوزل نے اپنے بیان میں جو بات کہی ہے، ہمیں اس پر سوچنے کی ضرورت ہے۔‘‘
گَیرمرہاؤزن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ 2010ء اور 2014ء کے ورلڈ کپ مقابلوں میں حصہ لینے والی جرمن ٹیمیں بہت باصلاحیت کھلاڑیوں پر مشتمل اور نسلی طور پر بڑی متنوع تھیں۔ حالیہ ورلڈ کپ مقابلوں میں بھی ایسا ہی تھا۔ لیکن اس بار جرمن ٹیم کامیاب نہ رہی اور ان مقابلوں سے بہت جلد ہی خارج ہو گئی۔
انہوں نے کہا، ’’موجودہ تنقید میں ہم اب دراصل دو باتیں دیکھ رہے ہیں۔ ایک تو یہ کہ جرمن ٹیم میں پایا جانے والا نسلی تنوع جیسے ٹوٹتا جا رہا ہے اور دوسرے یہ کہ اب اوزل کی صورت میں ایک تارک وطن کو قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے۔ اوزل بہت اچھے کھلاڑی ہیں، وہ 2014ء کے ورلڈ کپ مقابلوں میں بھی ایک ایسے جرمن کھلاڑی تھے، جس کا تعلق نسلی طور پر ترکی سے ہے۔ لیکن اب ہم پوری ٹیم کی ناکامی کے بعد ایک بہت اچھے کھلاڑی اور ایک تارک وطن شہری کو قربانی کا بکرا بنا رہے ہیں۔ ہمیں چار سال پہلے کی اپنی اسی سوچ کو دوبارہ مضبوط بنانا ہو گا کہ جرمن ٹیم کی مضبوطی اس کے تنوع ہی میں ہے۔‘‘
دفاعی چیمپیئن جرمنی کی مایوس کن شکست
جنوبی کوریا نے جرمنی کو شکست دے کر اسے فیفا فٹبال ورلڈ کپ سے باہر کر دیا ہے۔
تصویر: Getty Images/Bongarts/C. Koepsel
جرمن شائقین کے لیے بھی انتہائی مایوس کن
روسی شہر کازان میں کھیلے گئے گروپ ایف کے اہم میچ میں جرمن ٹیم کی شکست دنیا بھر میں جرمن ٹیم کے شائقین کے لیے بھی انتہائی مایوسی کا باعث بنی۔
تصویر: Reuters/P. Olivares
2014ء کا چیمپیئن
جرمنی نے 2014ء میں برازیل میں کھیلے جانے والے فیفا فٹبال ورلڈ کپ کے فائنل میں ارجنٹائن کو صفر کے مقابلے میں ایک گول سے شکست دی تھی۔ اس طرح جرمنی چوتھی بار فٹبال کے عالمی کپ کا فاتح قرار پایا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Gebert
جنوبی کوریا کا پہلا گول
جرمنی اور جنوبی کوریا کا میچ آخری منٹوں تک برابر رہا تاہم جنوبی کوریا کے کھلاڑی کِم یَنگ گون نے ایک شاندار گول کر کے اپنی ٹیم کو برتری دلا دی۔
تصویر: Reuters/P. Olivares
لائن ریفری کی طرف سے آف سائیڈ
لائن ریفری کی طرف سے کِم یَنگ گون کو ابتداء میں آف سائیڈ قرار دے دیا گیا تھا تاہم ویڈیو ریوو کے بعد ریفری نے جنوبی کوریا کے حق میں فیصلہ دے دیا اور یوں جنوبی کوریا نے ایک صفر کی برتری حاصل کر لی۔
تصویر: Reuters/D. Martinez
جرمن گول کیپر بھی جنوبی کوریا کے ڈی میں
دوسرا گول جرمن ٹیم اور جرمن فٹبال شائقین کے لیے بھی انتہائی مایوس کُن ثابت ہوا جب جرمنی کے گول کیپر مانویل نوئر اپنی ٹیم کی مدد کے لیے جنوبی کوریا کی ڈی میں پہنچے ہوئے تھے۔
تصویر: Reuters/D. Martinez
فیصلہ کن برتری
جنوبی کوریا کے فارورڈ سَن ہونگ مِن نے انتہائی آسانی کے ساتھ جرمنی کے خلاف دوسرا گول کر کے اپنی ٹیم کی کامیابی کو یقینی بنا دیا۔
تصویر: Reuters/D. Martinez
6 تصاویر1 | 6
جرمن فٹبال فیڈریشن کی طرف سے تردید
جرمن فٹبال فیڈریشن (ڈی ایف بی) نے میسوت اوزل کی طرف سے لگائے گئے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ جرمنی میں فٹبال کی نگران ملکی تنظیم میں کسی بھی قسم کی نسل پرستانہ سوچ یا رویے نہیں پائے جاتے۔ اسی دوران اوزل کے جرمن قومی فٹبال ٹیم سے مستعفی ہو جانے کے اعلان کے بعد کئی حلقے اب یہ مطالبے بھی کر رہے ہیں کہ جرمن فٹبال فیڈریشن کے صدر رائن ہارڈ گرِنڈل کو اپنے عہدے سے مستعفی ہو جانا چاہیے۔
اس بارے میں ڈی ایف بی نے اپنے تفصیلی ردعمل میں کہا ہے، ’’جرمن فٹبال فیڈریشن میسوت اوزل کے جرمن ٹیم سے استعفے پر افسوس کا اظہار کرتی ہے اور ساتھ ہی نسل پرستانہ سوچ سے متعلق الزامات کے خلاف فیڈریشن کے صدر گرِنڈل کا تحفظ بھی کرنا چاہتی ہے۔‘‘
ساتھ ہی جرمن فٹبال فیڈریشن نے یہ بھی کہا ہے کہ جرمن قومی فٹبال ٹیم میں کئی برسوں سے سماجی انضمام کے عمل پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے اور ڈی ایف بی، اس کے عہدیداروں، جملہ اہلکاروں، اس کے رکن فٹبال کلبوں اور فٹبال کے شائقین تک کی سطح پر اس عمل کی ترویج کی بھرپور کوششیں کی جاتی ہیں کہ ٹیم میں تنوع کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنایا جائے۔
فٹبال عالمی کپ کی تاریخ کی مختصر جھلکیاں
روس میں چودہ جون سے اکیسویں عالمی کپ فٹبال کا آغاز ہونے جارہا ہے۔ ارجنٹائن کے ایک کارٹونسٹ گیرمان آکچیل نے چراسی سالہ عالمی مقابلوں کے چند اہم و دلچسپ لمحات کو مزاحیہ تحریروں کے ساتھ کارٹون کی صورت میں پیش کیا ہے۔
تصویر: Aczel / Edel Books
ایک دفعہ کا ذکر ہے۔۔۔
پہلا عالمی کپ 1930ء میں یوروگائے میں منعقد ہوا تھا۔ زیادہ تر ٹیموں کا تعلق شمالی، وسطی اور جنوبی امریکا سے تھا، جبکہ یورپ سے صرف چار ٹیموں نے بحری جہازوں کے ذریعے طویل سفر کر کے عالمی مقابلے میں شرکت کی۔ فائنل میں میزبان ٹیم نے روایتی حریف ارجنٹائن کو چار کے مقابلے میں دو گول سے شکست دے کر عالمی کپ اپنے نام کیا تھا۔
تصویر: Aczel/Edel Books
سوئس شہر ’بیرن‘ میں معجزہ
دوسری عالمی جنگ کے بعد 1954ء میں پہلا فٹبال عالمی کپ سوئٹزرلینڈ میں منعقد ہوا۔ اس بار ہنگری کی ٹیم نے سپر سٹار کھلاڑی فرینک پسکاس کے ساتھ عمدہ کھیل کا مظاہرہ کیا۔ راؤنڈ میچز میں تو جرمن ٹیم کو ہنگری کے خلاف شکست سے دوچار ہونا پڑا لیکن فائنل میں جرمنی نے دو کے مقابلے تین گول سے ہنگری کو شکست دے کر پہلی مرتبہ عالمی چیمپئن کا اعزاز حاصل کرلیا۔
تصویر: Aczel/Edel Books
برطانیہ کا ابھی تک کا واحد اعزاز
1966ء میں میزبان ملک برطانیہ، فٹبال کی تاریخ میں پہلی مرتبہ عالمی کپ جیتنے میں کامیاب ہوا۔ فائنل کے سنسنی خیز مقابلے میں برطانیہ نے جرمنی کو دو کے مقابلے چار گول سے شکست دی تھی۔ اس میچ کے حوالے سے شائقین فٹبال آج بھی مشہور ’ویمبلی گول‘ کا ذکر کرتے ہیں۔ تصویر میں برطانوی کھلاڑی بابی مور دیگر کھلاڑیوں کے ہمراہ فاتح ٹرافی کے ساتھ دیکھے جاسکتے ہیں۔
تصویر: Aczel/Edel Books
’پیلے‘ کا سامبا رقص
1970ء میں برازیل تیسری مرتبہ عالمی چیمپئن بن گیا۔ بیسویں صدی کے بہترین کھلاڑی پیلے نے ساتھی کھلاڑیوں کے ہمراہ اٹلی کو فائنل میں شکست دی۔ برازیل کی ٹیم عالمی ٹورنامنٹ کے چھ میچوں میں انیس گول کرنے میں کامیاب رہی۔ یہ پہلا موقع تھا جب تمام کھلاڑی ٹیلی وژن کی رنگین سکرین پر نمودار ہوئے تھے۔
تصویر: Aczel/Edel Books
جرمنی میں عالمی کپ کی میزبانی
1974ء میں مشرقی و مغربی جرمنی کی فٹبال ٹیموں کے درمیان مقابلہ اس عالمی کپ کی خاص یادگاروں میں سرفہرست ہے۔ میونخ کے اولمپک سٹیڈیم میں میزبان ٹیم ہالینڈ کے خلاف فائنل میں فاتح ٹیم رہی۔ فاتح گول کرنے والے جرمن کھلاڑی گیئرڈ میولر کو ’بومبر دیر ناشیون‘ یعنی ’قومی بمبار‘ کے نام سے آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔
تصویر: Aczel/Edel Books
میراڈونا کے ناقابل یقین گول
1986ء کے عالمی کپ کو ارجنٹائن کے سپرسٹار کھلاڑی دئیگو میراڈونا سے منسلک کیا جاتا ہے۔ میراڈونا کے غیر معمولی کھیل کی وجہ سے ارجنٹائن دوسری بار عالمی چیمپئن بن گیا۔ میراڈونا نہ صرف خوبصورت بلکہ نا ممکن گول کرکے اپنے شائقین کو حیران کرتے تھے۔
تصویر: Aczel/Edel Books
فٹبال کے میدان پر حملے کا انوکھا انداز
1990ء میں اٹلی میں جرمنی نے تیسری مرتبہ عالمی چیمپئن کا اعزاز اپنے نام کرلیا۔ فائنل میں جرمنی نے ارجنٹائن کو شکست دی تھی۔ تاہم اس عالمی کپ کی یادگار بنا کوارٹر فائنل میں ہالینڈ کے قومی کھلاڑی فرانک ریکارڈ کا جرمن کھلاڑی روڈی فؤلر پر تھوکنا۔ نتیجتاﹰ ریفری نے دونوں کھلاڑیوں کو میدان سے باہر نکالنے کا فیصلہ کردیا۔
تصویر: Aczel/Edel Books
زیڈان کی ٹکر
2006ء میں جرمنی نے ایک مرتبہ پھر عالمی کپ کی میزبانی کے فرائض انجام دیے۔ اٹلی اور فرانس کے درمیان سنسنی خیز فائنل کا فیصلہ پیلنٹی سٹروک کے ذریعہ کیا گیا۔ فرانسیسی کپتان زیڈان کا اطالوی کھلاڑی ماتا رازی کو غصہ میں سر سے ٹکر مارنا ٹورنامنٹ کا یادگار لمحہ رہا۔ جس کے بعد زیڈان کے شاندار کیریئر کا اختتام ایک افسوسناک انداز میں پیش آیا۔
تصویر: Aczel/Edel Books
آخرکار قسمت کی دیوی اسپین پر بھی مہربان
عالمی کپ 2010ء اس بار قسمت کی دیوی ہسپانوی ٹیم پر مہربان ہوگئی۔ اسپین نے اپنے مخصوص کھیل کے انداز’ ٹیکی ٹاکا‘ سے جنوبی افریقہ کو شکست دی۔ اس جیت کا سپین کی بہترین فتوحات میں شمار ہوتا ہے۔
تصویر: Aczel/Edel Books
لیونل میسی، فٹبال کے بادشاہ
برازیل میں منعقدہ عالمی کپ 2014ء کے فائنل تک ارجنٹائن کو پہنچانے کا سہرا فٹبال کے بادشاہ کہلانے والے لیونل میسی کے سر جاتا ہے۔ تاہم فائنل میں جرمنی نے کانٹے دار مقابلے میں ایک گول سے فتح حاصل کرلی۔
تصویر: Aczel / Edel Books
جرمنی، چوتھی مرتبہ عالمی چیمپئن
ریو ڈی جینیرو کے ماراکانا سٹیڈیم میں پچھتر ہزار شائقین کی موجودگی میں کھیلے جانے والے فائنل میں جرمن ٹیم امریکی براعظم پر عالمی کپ جیتنے والی پہلی یورپی ٹیم بن گئی۔ اس تصویر میں جرمنی کی فاتح ٹیم دیکھی جاسکتی ہے۔
تصویر: Aczel / Edel Books
متنازعہ میزبان ملک
چودہ جون سے شروع ہونے والے عالمی کپ کی میزبانی روس کررہا ہے۔ تاہم عالمی مقابلے سے قبل کرپشن اور ڈوپنگ جیسی خبروں نے روس کو متنازعہ بنادیا ہے۔ عالمی کپ 2018ء کا افتتاحی میچ سعودی عرب اور روس کے درمیان کھیلا جائے گا۔
تصویر: Aczel / Edel Books
فٹبال ورلڈ کپ کی تاریخ، کارٹون کی صورت میں
’ورلڈ کپ 1930ء سے 2018ء‘ تک کے عنوان سے شائع ہونے والی کتاب میں فٹبال ورلڈ کپ کی چوراسی سالہ تاریخ کو کارٹون کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ مزید ان دلچسپ لمحات کی کہانی کو مزاحیہ تحریروں میں بیان کیا گیا ہے۔ کتاب کے سرِورق پر مشہور کھلاڑیوں کے کارٹون بنائے گئے ہیں، جن میں رونالڈو، میسی، نوئر اور نیمار شامل ہیں۔
تصویر: Aczel / Edel Books
کارٹونسٹ گیرمان آکچیل
ارجنٹائن سے تعلق رکھنے والے کارٹونسٹ نے اپنے فن کا آغاز آبائی شہر بیونس آئرس سے کیا۔ جہاں وہ مختلف کھیل کے ایک جریدے ’ایل گرافیکو‘ سے منسلک رہے۔ چھبیس سال کی عمر میں وہ جرمنی منتقل ہوگئے۔ اب وہ فٹبال کے معروف انگریزی جریدے ’فور فور ٹو‘ کے لیے کارٹون بناتے ہیں۔