تیونس کے صدر نے وزیر اعظم کی برطرفی اور پارلیمان تحلیل کرنے کے دو ماہ بعد ایک خاتون کو نئی حکومت بنانے کی دعوت دی ہے۔ قدرے غیر معروف نجلا بودن رمضان تیونس کی پہلی خاتون وزیر اعظم ہوں گی۔
اشتہار
تیونس کے صدر قیس سعید نے منتخب حکومت کی برطرفی اور اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے تقریبا ًدو ماہ بعد نجلا بودن رمضان نامی ایک خاتون کو وزیر اعظم مقرر کرنے کا اعلان کیا۔ اس طرح وہ تیونس کی پہلی خاتون وزیر اعظم بن گئی ہیں۔
صدر نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر اس کا اعلان کرتے ہوئے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا ہے، ''صدر مملکت قیس سعید نے نجلا بودن کو جتنی جلدی ممکن ہو سکے نئی حکومت تشکیل دینے کا اختیار دیا ہے۔''
قیس سعید نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ تیونس کی تاریخ میں، ''پہلی بار ایک خاتون وزیر اعظم حکومت کی قیادت کریں گی۔'' ان کا کہنا تھا کہ وہ، ''کئی ریاستی اداروں میں پائی جانے والی بدعنوانی اور افراتفری سے نمٹنے کے لیے مضبوط عزم کے ساتھ'' رمضان کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔
اطلاعات کے مطابق نجلا بودن کے بارے میں بہت زیادہ معلومات نہیں ہیں تاہم وہ پیشے کے لحاظ سے انجینئر ہیں اور ورلڈ بینک کے لیے کام کرتی رہی ہیں۔ صدر نے بھی اپنے اس فیصلے کے بارے میں کوئی خاص معلومات فراہم نہیں کی کہ آخر انہوں نے کن اسباب کے بناپر نجلا بودن کو وزیر اعظم مقرر کیا ہے۔
اشتہار
نجلا کون ہیں؟
تریسٹھ سالہ نجلا کے بارے میں بہت زیادہ معلومات نہیں ہیں تاہم اتنا معلوم ہے کہ وہ انجینئرنگ کے شعبے کی محقق ہیں۔ وہ تیونس کے مرکزی علاقے کیراؤن میں سن 1958 میں پیدا ہوئی تھیں اور دارالحکومت کے ہی نیشنل اسکول آف انجینئرنگ میں پروفیسر ہیں۔
سن 2011 میں انہیں اعلی تعلیم کی وزارت میں سربراہ مقرر کیا گیا تھا تاہم انہیں سیاست کا نہ تو کوئی خاص تجربہ ہے اور نہ ہی ان کی سیاسی فکر کے بارے میں کچھ زیادہ معلومات ہیں۔
جمہوریت خطرے میں
نجلا بدون رمضان ایک ایسے وقت اعلی سیاسی عہدے پر فائز ہو رہی ہیں جب ملک شدید سیاسی بحران سے دو چار ہے۔ دو ماہ قبل ہی صدر نے یکطرفہ اقدام کرتے ہوئے منتخب وزیر اعظم ہشام مشیشی کو برطرف کرکے پارلیمان کو بھی تحلیل کر دیا تھا۔ سیاسی جماعتوں نے صدر کے اس اقدام کو بغاوت کا نام دیا ہے۔
سن 2019 میں صدارتی انتخابات کی مہم کے دوران قیس سعید کو ایک بہت ہی با وقار قانون کے پروفیسر کے طور پر بڑی احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا اور ان سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بایاں محاذ اور اسلامی پارٹیوں سمیت تقریبا ًتمام سیاسی جماعتوں نے ان کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔
لیکن اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی ان پر کئی حلقوں کی جانب سے شدید نکتہ چینی ہوتی رہی ہے۔ کبھی پولیس کی زیادتیوں کے حوالے سے تو کبھی کورونا وائرس کی وبا پر صحیح طرح سے کنٹرول حاصل نہ کرنے کے لیے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ ملک اس وقت شدید معاشی بحران سے بھی دو چار ہے۔
اس برس کے اوائل میں ہی ان کی انتظامیہ کے خلاف دارالحکومت میں بڑے پیمانے پر مظاہرے شروع ہوئے تھے جنہیں کچلنے کے لیے فورسز نے طاقت کا بے جا استعمال کیا پھر بعد میں 25 جولائی کو صدر نے پارلیمان کو ہی تحلیل کرنے کا متنازعہ فیصلہ کر لیا۔ گزشتہ ہفتے ہی انہوں نے اعلان کیا تھا کہ اب وہ ملک کی انتظامیہ خود ہی چلائیں گے۔
گزشتہ روز ہی جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے سعید قیس سے فون پر بات کی تھی اور ملک کے استحکام کے لیے جمہوریت کی اہمیت پر زور دیا تھا۔ چانسلر کے ترجمان اسٹیفین زیبریٹ کے مطابق انگیلا میرکل نے صدر سے کہا تھا کہ وہ، ''پارلیمانی جمہوریت کی بحالی کے لیے تمام سیاسی جماعتوں سے مذاکرات شروع کریں۔''
ص ز/ ج ا (اے ایف پی روئٹرز)
تیونس کے سابق صدر کے خاندان کی عیاشی سے بد حالی کا دور
تیونس کے ڈکٹیٹر زین العابدین بن علی کے پرتعیش زندگی گزارنے والے خاندان کو اب بدحالی کا سامنا ہے۔ سن 2011 میں زین العابدین بن علی زور دار عوامی تحریک کی وجہ سے حکومت چھوڑ کر سعودی عرب فرار ہو گئے تھے۔
تصویر: AP
لیلیٰ بن علی اور ان کی اولاد
سابق تیونسی صدر زین العابدین بن علی کی چونسٹھ سالہ اہلیہ لیلیٰ بن علی کو ملک میں ’حجامہ‘ کی عرفیت سے پکارا جاتا ہے۔ سابق صدر سے شادی سے قبل وہ ایک ہیئر ڈریسر تھیں۔ اس وقت وہ سعودی عرب کے شہر جدہ میں مقیم ہیں۔ ان کے ساتھ ان کا بیٹا محمد اور بیٹی نسرین بھی رہتی ہے۔ انہیں تیونس میں کئی مقدمات کا بھی سامنا ہے۔ ان کی بیٹی نسرین نے ایک گلوکار سے شادی کی تھی, اب دونوں میں طلاق ہو چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
بلحسن طرابلسی
اٹھاون سالہ بالحسن طرابلسی ایک دولت مند کاروباری شخصیت تھے اور انہیں ایک طرح سے بن علی کے خاندان کا ’گاڈ فادر‘ قرار دیا جاتا ہے۔ وہ عوامی انقلاب کے بعد اٹلی فرار ہو گئے تھے۔ اٹلی سے وہ کینیڈا پہنچے اور وہاں حکومت نے انہیں سن 2016 میں سیاسی پناہ دینے سے انکار کر دیا۔ نئی تیونسی حکومت نے ان کی مصالحت کی درخواست بھی منظور نہیں کی۔ وہ سن 2019 سے فرانس کی جیل میں ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Belaid
عماد الطرابلسي
چھیالس سالہ عماد الطرابلسی سن 2011 میں فرار ہوتے ہوئے ہوائی اڈے پر گرفتار کیا گیا تھا۔ وہ اپنے خاندان کے ساتھ فرانس جانے والے تھے۔ وہ بن علی خاندان کے واحد اہم فرد ہیں جو تیونی جیل میں ہیں۔ انہیں جرمانے کے علاوہ ایک سو سال تک کی قید کا سامنا ہے۔ عماد نے ملکی عوام سے کھلے عام معافی بھی مانگی ہے۔ حکومت کے مصالحتی کمیشن نے ان کے ساتھ معاملات طے کرے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے لیکن ابھی فیصلہ باقی ہے۔
تصویر: dpa/picture alliance
لیلیٰ بن علی کے بھائیوں کے حالات
سابق تیونسی آمر کی بیوی لیلیٰ بن علی کے ایک بھائی منصف طرابلسی سن 2013 میں دماغ کے کینسر کی وجہ سے جیل میں دم توڑ چکے ہیں اور دوسرے بھائی مراد الطرابلسی سن 2020 میں کئی بیماریوں میں مبتلا رہنے کے بعد زندگی سے نجات پا چکے ہیں۔ ان کی ہلاکت کی وجہ جیل حکام کی جانب سے ان عدم نگہداشت بتائی گئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
محمد صخر المطیری
صخر المطیری بن علی اور لیلیٰ بن علی کی لاڈلی بیٹی نسرین کے شوہر تھے۔ انتالیس سالہ صخر اب نسرین سے علیحدگی اختیار کر چکے ہیں۔ وہ پہلے قطر پہنچے اور پھر سیشیلز جزائر میں جا کر براجمان ہو گئے۔ ایسا بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے سیشیلز کی شہریت حاصل کر لی ہے۔ انہوں نے ملک کے حقائق کمیشن کے ساتھ مصالحت کی ڈیل طے کر لی ہے۔ انہیں واپس وطن آنے کے لیے پانچ سو ملین دینار (تیونسی کرنسی) دینے ہوں گے۔
تصویر: picture alliance/dpa
مروان بن مبروک
زین العابدین کی پہلی بیوی کے بیٹے مروان بن مبروک ایک کاروباری ہیں اور میڈیا پر انہیں بہت کم دیکھا گیا۔ وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ تیونس کے سب سے بڑے شاپنگ مال کے مالک ہیں۔ ان کا کاروبار خاصا پھیلا ہوا ہے۔ ان کے اثاثے سن 2011 میں منجمد کیے گئے تھے۔ سن 2019 میں ان کے اثاثوں میں سے بعض واپس کر دیے گئے۔ ان پر یورپی یونین کی جانب سے پابندی ہٹائے کے بعد موبائل کمپنی کے حصص بھی اب بحال ہو گئے ہیں۔
تصویر: Fethi Belaid/Getty Images/AFP
سليم شيبوب
سلیم شیبوبزین العابدین بن علی کے قریب ترین افراد میں سے ایک سلیم شیبوب ہیں۔ ان کی عمر اکسٹھ برس ہے۔ وہ تیونس کے سب سے بڑے اسپورٹس کلب کے مالک ہیں۔ وہ بن علی کی پہلی بیوی سے بیٹی درساف کے شوہر ہیں۔ وہ متحدہ عرب امارات سے سن 2014 میں واپس تیونس پہنچ گئے تھے۔ ان کا مصالحتی معاملہ زیرِ بحث ہے اور اس باعث زیرِ حراست بھی ہیں۔