نجی ڈیٹا تک ریاستی رسائی بہت زیادہ ہے، جرمن آئینی عدالت
17 جولائی 2020
جرمن سکیورٹی اداروں کو مجرموں اور دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں صارفین کے موبائل اور انٹرنیٹ ڈیٹا تک رسائی حاصل کرنے کی اجازت ہے۔ اب وفاقی جرمن آئینی عدالت نے اسے بنیادی حقوق کے قانون کی خلاف ورزی قرار دے دیا ہے۔
اشتہار
جرمنی میں شہری حقوق کے لیے سرگرم تنظیمیں پہلے ہی سکیورٹی اداروں کی شہریوں کے نجی ڈیٹا تک رسائی کو تنقید کا نشانہ بناتی آئی ہیں۔ ناقدین کا کہنا تھا کہ ریاست کے لیے کسی شہری کے نجی ڈیٹا تک رسائی کو بہت آسان بنا دیا گیا ہے اور اس عمل کو مشکل بنانے کی ضرورت ہے۔ جرمنی کی وفاقی آئینی عدالت نے اب اپنا فیصلہ ان ناقدین کے حق میں سنایا ہے۔
جرمنی آئینی عدالت کے مطابق انسداد دہشت گردی اور مجرموں کو پکڑنے کے نام پر ریاست کی عام شہریوں کی نجی معلومات تک رسائی بہت ہی زیادہ ہے۔ وفاقی آئینی عدالت کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق نام نہاد ڈیٹا کا حصول کے لیے بنائے گئے متعدد ضوابط غیر آئینی ہیں۔ جمعہ سترہ جولائی کے روز جرمن شہر کارلسروئے میں واقع اس وفاقی عدالت نے کہا، ''یہ (ضوابط) مواصلاتی رازداری اور معلومات فراہم کرنے کے بنیادی حق خود ارادیت کی نفی کرتے ہیں۔‘‘
اس عدالتی فیصلے کے بعد جرمن ریاست کو ٹیلی مواصلاتی ایکٹ اور اس سے متعلقہ قواعد و ضوابط میں سن دو ہزار اکیس کے آخر تک ترمیم کرنا ہو گی۔ جب تک یہ ترامیم نہیں کی جاتیں، موجودہ قوانین ہی رائج رہیں گے۔ قبل ازیں ایک ٹیلی کمیونیکیشن قانون بنایا گیا تھا، جس کے تحت جرمن پولیس، انسداد جرائم کے وفاقی ادارے اور خفیہ ایجنسیوں کو جرائم کے ارتکاب یا دہشت گردانہ واقعات کو روکنے کے لیے مخصوص شرائط پوری کرتے ہوئے کسی بھی مشتبہ شخص کے نجی ڈیٹا تک رسائی حاصل کرنے کی اجازت تھی۔ مثال کے طور پر یہ ریاستی ادارے انٹرنیٹ اور موبائل فون کمپنیوں سے صارف کا نام، پتہ، تاریخ پیدائش اور اس کے سمارٹ فون یا کمپیوٹر کا آئی پی ایڈریس بھی پوچھ سکتے تھے۔
عدالت کے مطابق سکیورٹی ادارے اب بھی ایسا کرنے کے مجاز ہوں گے لیکن انہیں اس کے لیے طے شدہ مخصوص شرائط پوری کرنا ہوں گی۔ یہ شرائط بھی سخت بنا دی گئی ہیں اور ریاستی اداروں کو یہ بھی ثابت کرنا ہو گا کہ کسی جرم یا دہشت گردی کا حقیقی خطرہ موجود ہے۔ تاہم اگر ادارے اس قانون کو ایسے ہی چلانا چاہتے ہیں، تو جرمن حکومت کو ٹیلی مواصلاتی ایکٹ میں تبدیلی لانا ہو گی۔
جو شخص بھی انٹرنیٹ کا استعمال کرتا ہے، اس کے موبائل فون یا کمپیوٹر کا ایک مخصوص آئی پی ایڈریس ہوتا ہے، جس سے اس شخص کی شناخت کا پتا چلایا جا سکتا ہے۔ جرمنی میں اس آئی پی ایڈریس کے تحفظ کے لیے خاص قوانین موجود ہیں۔
آج کے عدالتی فیصلے کی وجہ دو آئینی شکایات بنی تھیں۔ ان میں سے ایک درخواست انٹرنیٹ کی آزادی کے لیے کام کرنے والی سیاسی جماعت 'پیراٹن‘ کے پیٹرک بریئر اور دوسری انہی کی ایک سابقہ خاتون ساتھی کاتارینا نوکون نے دائر کی تھی۔ ان دونوں کو اپنے ہزاروں ساتھیوں اور پارٹی کارکنوں کی حمایت حاصل تھی۔
ا ا / م م ( ڈی پی اے، اے ایف پی)
مشہور رقاصہ اور ’ڈبل ایجنٹ‘ ماتا ہری کون تھیں؟
مشہور ڈچ رقاصہ اور ’جاسوسہ‘ مارگریٹا سیلے کی سزائے موت پر عملدرآمد کو سو برس بیت گئے۔ پہلی عالمی جنگ کے دوران جرمنی کے لیے جاسوسی کے الزام میں اس فنکارہ کو فرانسیسی فائرنگ اسکواڈ نے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔
تصویر: picture alliance/Heritage Images/Fine Art Images
’آنکھیں بند نہیں کرنا‘
اپنے نیم عریاں رقص کے باعث مشہور ہونے والی فنکارہ ماتا ہری کو اکتالیس برس کی عمر میں سزائے موت دی گئی تھی۔ اپنے فن اور فیشن کے ذوق کے باعث وہ پاپولر کلچر میں آج بھی زندہ ہیں۔ سو برس قبل پندرہ اکتوبر سن 1917 کو جب انہیں فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کھڑا گیا تھا تو انہوں نے شوٹنگ سے قبل اپنی آنکھوں پر پٹی باندھنے سے انکار کر دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/maxppp
بزنس مین کی بیٹی
مارگریٹا سیلے ایک ڈچ بزنس مین کی بیٹی تھیں۔ انہوں نے اپنی نوجوانی میں اپنی عمر سے کافی بڑے ایک فوجی افسر سے شادی کی تھی لیکن جلد انہیں احساس ہو گیا کہ وہ اسے زیادہ دیر نہیں چلا سکتیں۔ تب سن 1903 میں وہ رشتہ ازداوج کو توڑتے ہوئے (انڈونیشیا سے) فرانس چلی گئیں۔ اس وقت ان کی عمر صرف ستائیس برس تھی۔
تصویر: picture-alliance/Heritage-Image
خالی ہاتھ فرانس میں
جب خوبرو مارگریٹا پیرس پہنچیں تو ان کے ہاتھ بالکل خالی تھے۔ تب انہوں نے ایک کلب میں نیم برہنہ رقص کرنا شروع کیا اور اپنا نام بدل کر ماتا ہری رکھ لیا۔ جلد ہی وہ مشہور ہو گئیں اور یورپ بھر میں ان کا چرچا ہو گیا۔ انیس سو دس کی دہائی میں وہ بطور فنکارہ ایک معروف شخصیت کا روپ دھار چکی تھیں۔
واشنگٹن ٹائمز نے سن دو ہزار سات میں لکھا تھا، ’’اپنے وقت میں وہ میڈونا کی طرح مشہور و معروف تھیں۔‘‘ اپنی خوبصورتی اور اداؤں سے انہوں نے اس وقت کے بڑے بڑے فوجی افسران اور سفارتکاروں سے تعلقات قائم کر لیے تھے۔ تب انہیں مال و زر کی کوئی فکر نہیں رہی تھی۔
تصویر: Getty Images
’دلربا معشوق‘
پندرہ اکتوبر سن انیس سو سترہ میں جب ماتا ہری کو جرمن افواج کے لیے جاسوسی کے الزام میں فرانس میں سزائے موت سنائی گئی تھی تو یورپ بھر میں مقتدر حلقے انہیں جانتے تھے۔ کہا جتا ہے کہ ہالینڈ، فرانس اور جرمنی سمیت دیگر یورپی ممالک میں وہ دلربا کے نام سے مشہور تھیں۔
تصویر: picture-alliance/United Archiv
جسم فروشی پر مجبور
سن انیس سو چودہ میں البتہ ان کی شہرت کچھ مانند پڑ گئی تھی۔ اس زمانے میں وہ پیرس میں ایک کال گرل کے طور پر کام کرنا شروع ہو گئی تھیں۔ ان کا کام تب وزراء اور دیگر بڑی شخصیات کی جنسی ہوس کو پورا کرنا ہی رہ گیا تھا۔ اب ان کے پاس مال و دولت بھی کم ہو گئی تھی۔ آرام و آسائش سے زندگی گزارنے والی ماتا ہری کے لیے یہ ایک بڑی تکلیف دہ بات تھی۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
جاسوسی کا آغاز
سن انیس سو سولہ میں ماتا ہری نے رقوم کی خاطر فرانس کی جاسوسی کرنے کی حامی بھری۔ تب ایک جرمن سفارتکار نے انہیں پیشکش کی تھی کہ اگر وہ فرانسیسی راز جرمن حکومت کو فراہم کریں گی تو ان کے تمام قرضہ جات ادا کر دیے جائیں گے۔ ماتا ہری کے لیے اس مشکل وقت میں اور کیا راستہ ہو سکتا تھا؟
تصویر: picture-alliance/akg-images
’ڈبل ایجنٹ‘
بعد ازاں ماتا ہری نے فرانسیسی خفیہ ایجنسیوں کو پیشکش کر دی کہ وہ ان کے لیے بھی جاسوسی کا کام کر سکتی ہیں۔ اس وقت فرانسیسی حکام کو پہلے سے شبہ ہو چکا تھا کہ یہ خوبرو خاتون جرمنوں کے لیے جاسوسی کر رہی ہے۔ اس کے باوجود فرانسیسی خفیہ اداروں نے انہیں کئی مشن دیے لیکن اس دوران ماتا ہری کی نگرانی جاری رہی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
شک یقین میں بدل گیا
فرانسیسی خفیہ اداروں کا شک اس وقت یقین میں بدلا، جب ماتا ہری نے پہلی عالمی جنگ کے دوران فیٹل کے مشرقی محاذ پر جانے کی درخواست کی۔ اس وقت وہاں ایک نیا فوجی ہوائی اڈہ تعمیر کیا جا رہا تھا۔ ماتا ہری کے مطابق وہ وہاں اپنے ایک روسی فوجی دوست سے ملنے جانا چاہتی تھی۔
جنوری سن انیس سو سترہ میں فرانسیسی حکام کو یقین ہو گیا کہ ماتا ہری جرمن فوج کے لیے جاسوسی کر رہی ہے۔ جرمن فوج نے ماتا ہری کا نام ایجنٹ H21 رکھا ہوا تھا۔ تب ہری کو ڈبل ایجنٹ ہونے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ انہیں پچیس جولائی سن انیس سو سترہ کو سزائے موت سنائی گئی۔
کہا جاتا ہے کہ پندرہ اکتوبر سن انیس سو سترہ کو جب سزائے موت پر عملدرآمد کی خاطر ماتا ہری کو فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کھڑا کیا گیا تو انہوں نے اپنی آنکھوں پر پٹی باندھنے سے انکار کر دیا اور شوٹنگ سے پہلے انہوں نے فائرنگ اسکواڈ کی طرف ’فلائینگ کس‘ بھی کیے۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
پاپولر کلچر
ماتا ہری کی زندگی پر ادب بھی تخلیق کیا گیا اور کئی فلمیں بھی بنائی گئیں۔ تحقیقات کے بعد ابھی تک واضح نہیں ہو سکا ہے کہ ماتا ہری نے ڈبل ایجنٹ کے طور پر جرمن اور فرانسیسی افواج کو کیا کیا معلومات فراہم کی تھیں۔ اب بھی کئی حلقے ماتا ہری کو بے قصور قرار دیتے ہیں۔