نرگس سمندری طوفان کا ایک برس مکمل ہوگیا
2 مئی 2009میانمار کی فوجی حکومت نے سیاسی بنیادوں پر ان متاثرین کی فلاح اور دوبارہ آبادکاری کے لئے کام کرنے والی بین الاقوامی امدادی تنظیموں کے کارکنان کے ملک میں داخلے پر تازہ پابندیاں لگانے کا عندیہ دیا ہے۔
گزشتہ برس دو مئی کو میانمار سے ٹکرانے والے نرگس نامی سمندری طوفان سے 138،000 سے زائد افراد ہلاک یا لاپتہ ہوگئے تھے۔ لیکن اتنے بڑے پیمانے پر تباہی کے باوجود میانمار کی حکومت نے امدادی اداروں کو ملک میں داخلے کی اجازت دینے سے انکار کردیا تھا۔ جس پر نہ صرف بین الاقوامی برادری کی طرف سے میانمار کی فوجی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا بلکہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کو انسانی بنیادوں پر امدادی سرگرمیوں کی اجازت کے لئے اپیل کرنا پڑی تھی۔ بین الاقوامی امدادی اداروں کے مطابق اس طوفان سے 25 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے تھے جن میں سے اکثر ابھی تک خوراک اور رہائش کی عدم دستیابی جیسے مسائل کا شکار ہیں۔
میانمار کے ساحلی علاقے اراواڈی ڈیلٹا میں طوفان کے متاثرین تک امداد پہنچانے میں بین الاقوامی امدادی اداروں کو کس حد تک مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اس کا اندازہ رنگون میں اقوام متحدہ کے دفتر اطلاعات کے ترجمان آئے ون Aye Win کے اُس بیان سے ہوتا ہے جو انہوں نے طوفان کے فورا بعد امدادی سرگرمیوں کے حوالے سے میڈیا کو دیا تھا۔
" اس علاقے تک رسائی بہت ہی مشکل ہے۔ علاقے میں رسل ورسائل کے ذرائع بہت محدود ہیں۔ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ گئی ہیں، پل بہہ گئے ہیں۔ امدادی سامان پہنچانے کے لئے ہم صرف ہلکے وزن کی گاڑیاں استعمال کر پا رہے ہیں جو زیادہ سے زیادہ پانچ یا چھ ٹن وزن لے جاسکتی ہیں۔ اقوام متحدہ کے لئے ان علاقوں میں امدادی سامان پہنچانا ایک چیلنج سے کم نہیں ہے "
اتنے بڑے پیمانے پر ہونے والے نقصانات کے بعد آلودہ پانی سے پھیلنے والی وبائی امراض سے مزید ہلاکتوں کا خدشہ تھا لیکن خوش قسمتی سے کوئی ایسے امراض نہیں پھیلے جس سے بڑے پیمانے پر مزید ہلاکتیں ہوتیں۔ اس طوفان کو ایک سال گزرنے کے باوجود بھی اس علاقے میں لوگ شدید مشکلات کا شکار ہیں کیونکہ متاثرین کی آبادکاری کے لئے دستیاب وسائل ضرورت سے کہیں کم ہیں۔ امدادی سرگرمیوں کے لئے اقوام متحدہ کی اپیل پر دنیا کے مختلف ملکوں کی جانب سے 315 ملین ڈالر کی امداد موصول ہوئی جو کہ کل اپیل کی گئی رقم کا قریب 66 فیصد بنتا ہے۔
آج کل بہت سے ملک سیاسی وجوہات کی بناء پر مزید امداد دینے سے گریزاں ہیں، کیونکہ میانمار کی فوجی حکومت نے جمہوریت کی بحالی کے لئے کوشش کرنے والی اپوزیشن سیاسی رہنما آنگ سان سوچی کو مسلسل نظر بند کررکھا ہے۔ اس طرح کی وجوہات کی بنا پر میانمار کو اقوام متحدہ اور یورپی یونین کی طرف سے پابندیوں کا سامنا ہے۔