1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نریندر مودی صدر پوٹن سے مذاکرات کے لیے روس پہنچ گئے

8 جولائی 2024

یوکرین جنگ کے آغاز کے بعد پہلی مرتبہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی دو روزہ دورے پر ماسکو پہنچ گئے ہیں، جہاں وہ صدر پوٹن سے بھی تفصیلی ملاقات کریں گے۔ اس وقت دونوں طاقتوں کے درمیان تعلقات ایک اہم موڑ پر ہیں۔

روس کی بڑھتی ہوئی سفارتی اور اقتصادی تنہائی کے درمیان بھارت ماسکو کے لیے اور بھی اہم پارٹنر بن گیا ہے
روس کی بڑھتی ہوئی سفارتی اور اقتصادی تنہائی کے درمیان بھارت ماسکو کے لیے اور بھی اہم پارٹنر بن گیا ہےتصویر: Valery Sharifulin/TASS/dpa/picture alliance

روس کی سرکاری نیوز ایجنسی تاس کے مطابق بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی دو روزہ دورے کے آغاز پر پیر کو ماسکو پہنچے، جہاں وہ صدر ولادیمیر پوٹن سے ملاقات کریں گے۔ کریملن کے ترجمان دیمتری پیسکوف نے ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ دونوں رہنما پیر کی شام ایک غیر رسمی ملاقات کریں گے، جس میں دونوں رہنماؤں کو ''ایک آزاد ایجنڈے کے ساتھ ون آن ون‘‘ بات چیت کرنے کا موقع ملے گا۔

سن 2019 کے بعد نریندر مودی کا روس کا یہ پہلا دورہ ہے۔ اس وقت ان دونوں رہنماؤں نے مشرق بعید کے شہر ولادی ووستوک میں ملاقات کی تھی۔ یہ رہنما ستمبر 2022 میں ازبکستان میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہی اجلاس میں بھی ملاقات کر چکے ہیں۔ قبل ازیں صدر پوٹن نے سن 2021 میں نئی دہلی کا دورہ کیا تھا۔

روس، بھارت اور چین: پیچیدہ تعلقات

یوکرین میں روس کی جنگ نے ماسکو اور نئی دہلی کے درمیان تعلقات کو پیچیدہ بنا دیا ہے، جو روایتی طور پر سرد جنگ کے زمانے سے مضبوط تعلقات کے حامل رہے ہیں۔ حالیہ چند برسوں میں بھارت مغربی ممالک، خاص طور پر امریکہ کے قریب آیا ہے لیکن روس کے حوالے سے یہ مغربی ممالک کے متعدد مطالبات ماننے سے انکار کر بھی چکا ہے۔ یورپی یونین اور امریکہ کے دباؤ کے باوجود نئی دہلی حکومت نے ابھی تک یوکرین پر روسی حملے کی مذمت نہیں کی ہے۔

روس کی بڑھتی ہوئی سفارتی اور اقتصادی تنہائی کے درمیان بھارت ماسکو کے لیے اور بھی اہم پارٹنر بن گیا ہے۔ اسی طرح چین بھی روس کے لیے انتہائی اہم ہے، جو بھارت کے بڑے علاقائی حریفوں میں سے ایک ہے۔

روس کی بڑھتی ہوئی سفارتی اور اقتصادی تنہائی کے درمیان بھارت ماسکو کے لیے اور بھی اہم پارٹنر بن گیا ہےتصویر: Alexandr Demyanchuk/SPUTNIK/AFP

نریندر مودی کی گزشتہ ہفتے چینی قیادت میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں غیر حاضری بھی نمایاں تھی۔ روس میں بھارت کے سابق سفیر بالا وینکاتیش ورما نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو اس حوالے سے بتایا، ''خطے میں چین کی بڑھتی ہوئی جارحیت کے تناظر میں چین کے ساتھ روس کے تعلقات بھارت کے لیے تشویش کا باعث بنے ہوئے ہیں۔‘‘

تجزیہ کاروں کے مطابق، جب سے روس کے چین کے ساتھ تعلقات بڑھتے جا رہے ہیں، نئی دہلی حکومت روس سے نالاں نظر آتی ہے۔ برطانیہ میں قائم چتھم ہاؤس کے جنوبی ایشیاء کے سینئر ریسرچ فیلو چتیگ باجپائی کہتے ہیں کہ بھارت تیزی سے ان فورمز سے الگ ہوتا جا رہا ہے، جن میں روس اور چین نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔

تجارتی عدم توازن

روس جنوبی ایشیائی ملک بھارت کے لیے ایک اہم تجارتی پارٹنر بھی ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ ونے موہن کواترا نے نریندر مودی کے ماسکو کے دورے سے قبل صحافیوں کو بتایا کہ دونوں ممالک کے درمیان سن 2023 تا 2024 مالی سال کے لیے تجارتی حجم 65 بلین ڈالر کے قریب ہونے والا ہے۔

تاہم یہ تجارتی توازن روس کے حق میں بہت زیادہ ہے کیوں کہ بھارت کی روس سے خریداری مجموعی طور پر تقریباً 60 بلین ڈالر کی ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق، جب سے روس کے چین کے ساتھ تعلقات بڑھتے جا رہے ہیں، نئی دہلی حکومت روس سے نالاں نظر آتی ہےتصویر: Anupam Nath/AP/picture alliance

روسی برآمدات میں کوئلہ، کھاد، خوردنی تیل اور قیمتی دھاتیں شامل ہیں۔ علاوہ ازیں بھارت اپنے تیل کا 40 فیصد اور اپنے ہتھیاروں کا 60 فیصد ماسکو سے خریدتا ہے۔ روسی ہتھیاروں کی سپلائی منطقی طور پر تناؤ کا شکار ہو چکی ہے کیونکہ صدر پوٹن یوکرین کے خلاف جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق نریندر مودی دفاع کے حوالے سے بھی بات چیت کریں گے کیوں کہ نئی دہلی حکومت روس پر اپنا انحصار کم کرنے کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔ بھارت اپنی دفاعی خریداریوں کو متنوع بنا رہا ہے اور اب امریکہ، اسرائیل، فرانس اور اٹلی سے بھی ہتھیار خرید رہا ہے۔

بھارتی حکام کے مطابق نریندر مودی صدر پوٹن سے ان بھارتی شہریوں کے بارے میں بھی بات چیت کریں گے، جو مبینہ طور پر روسی فوج میں شامل ہوتے ہوئے یوکرین کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ ماضی میں نئی دہلی حکومت نے ایسے افراد کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا اعلان کیا تھا، جو بھارتی شہریوں کو روس تک پہنچانے میں ملوث ہیں۔

ا ا / ع ت (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)

بھارت کا روس اور مغرب کے ساتھ تعلقات میں توازن کا فن

02:22

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں