1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نسلوں کے گھن چکر

13 جنوری 2025

نسلوں کی لیبلنگ اسٹیریو ٹائپ سوچ کی عکاس ہونے کے ساتھ پاپولر اور کنزیومر کلچر کو فروغ دینے کا آلہ کار نظر آتی ہیں۔ جب کہ دنیا کی ایک بڑی آبادی کے مسائل کچھ اور ہی ہیں جن سے مصلحتاً چشم پوشی کی جارہی ہے۔

تصویر: privat

سوشل میڈیا کی بدولت جہاں ہمیں پوری دنیا کے بدلتے رجحانات، نئی تحقیقات، ان گنت مسائل، تعلیم اور روزگار کے مواقع سے آگاہی ملی ہے وہیں ہم پاپولر کلچر، برانڈنگ، لیبلنگ اور ورچوئل زندگی سے بھی روشناس ہوئے ہیں۔ سوشل میڈیا کے توسط سے آج ہمیں ان باتوں کا علم بھی ہو جاتا ہے جو ہمیں آج سے ڈیڑھ دو دہائی قبل پتا ہی نہ تھیں۔ مثلاً ہم میں سے کتنوں کو یہ معلوم تھا کہ ہم کس جنریشن سے تعلق رکھتے ہیں۔ جبکہ اب حالات یہ ہیں کہ 2025 شروع ہونے سے پہلے ہی سوشل میڈیا پر "جنریشن بیٹا " کا شور برپا ہو چکا تھا۔ 2025 سے 2039 کے درمیان پیدا ہونے والے بچے جنریشن بیٹا کہلائیں گے۔ جب 2013 میں مجھے اپنی بھانجی کی پیدائش پر دبئی جانا ہوا تب میرے فرشتوں کو بھی علم نہ تھا کہ یہ ننھی بچی "الفا نسل" ہے جبکہ میری بیٹیاں جین زی کی فہرست میں آتی ہیں۔ تاہم سوال یہ ہے کہ پوری دنیا کی نسلوں کو لیبل کرنے، انھیں برسوں میں تقسیم اور قید کرنے کی شروعات کب سے، کیوں اور کیسے ہوئی؟
کہا جاتا ہے کہ نسل کا نام اس وقت کے تاریخی، ثقافتی اور اقتصادی واقعات کی بنیاد پر طے کیا جاتا ہے جبکہ نسل کی شروعات اور اختتام کسی غیر معمولی واقعے سے متاثر ہو کر کیا جاتا ہے۔ اگر ماہرین کی اس دلیل کو مان لیا جائے تو کیا نسلوں کی یہ لیبلنگ پوری دنیا پر لاگو کی جا سکتی ہے یا آیا صرف امریکہ اور مغربی ممالک کے سیاسی، سماجی، اقتصادی اور نفسیاتی مسائل کو مدنظر رکھ کر یہ تقسیم کی جاتی رہی ہے؟ 
یہ جاننے کے لیے ہمیں ماضی پر ایک نظر ڈالنی پڑے گی کہ "اور بھی ممالک ہیں، مغربی دنیا کے سوا"
نسلوں کو نام دینے کا سلسلہ بیسویں صدی سے شروع ہوا۔ کچھ ماہرین کے مطابق 1901 سے 1927 کے دوران پیدا ہونے والی نسل کو "گریٹیسٹ جنریشن" کہا گیا۔ کیونکہ یہ نسل پہلی عالمی جنگ سے نبرد آزما ہوئی تھی۔ جب کہ دنیا کے مختلف خطوں میں رہنے والی اس وقت کی نسلیں بھی کئی تبدیلیاں رونما ہوتے دیکھ رہی تھیں۔ مثلاً روس جاپان جنگ، بلقان کی جنگ، 1911 کا انقلاب چین، 1912 میں میکسیکو کا انقلاب اور پھر 1918 میں پہلی عالمی جنگ کے نتیجے میں کئی ممالک سے شہنشاہیت کا خاتمہ ہوا جس میں جرمن، رشین، آسٹرو ہنگیرین اور سلطنت عثمانیہ شامل تھیں۔ وہیں برصغیر میں گاندھی کی قیادت میں تحریک آزادی زور پکڑ رہی تھی جس میں جلیاں والا باغ جیسے کئی خونی واقعات وقوع پذیر ہوئے۔

پہلی عالمی جنگ کے بعد عالمی کساد بازاری (گریٹ ڈپریشن) نے امریکہ اور یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جس نے تقریباً پوری دنیا کو متاثر کیا۔ کساد بازاری کے اثرات ابھی پوری طرح ماند بھی نہ پڑے تھے کہ دوسری عالمی جنگ میں جانی اور مالی نقصان نے مزید تباہی و بربادی کی داستان رقم کی اور وہیں برطانیہ کا برسوں سے چمکتا سورج بھی غروب ہو گیا اور امریکہ ایک نئی طاقت کے طور پر ابھر کر سامنے آیا۔
1928 سے 1945 کے درمیان پیدا ہونے والی نسل کو "سائیلنٹ جنریشن" کا نام دیا گیا کہ پہلی عالمی جنگ کے سانحہ کے بعد گریٹ ڈپریشن کی تباہی بھی جھیلی۔ جبکہ دوسری جانب جاپان کا منچوریا پر حملہ، چین کے علاقوں پر جاپان کے حملے، برصغیر میں گورنمنٹ آف انڈیا 1935 کا نفاذ، 1933 میں ہٹلر کا جرمنی پر قبضہ، یہودیوں کا قتل عام، مسولینی کا ایتھوپیا پر حملہ، دوسری عالمی جنگ میں کروڑوں افراد کی ہلاکت اور زخمی ہونے کے باوجود کیا وجہ تھی کہ یہ نسل خاموش تماشائی بنی رہی جبکہ دنیا میں اتنی قتل و غارت ہو رہی تھی؟
دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا میں امریکہ اور سوویت یونین کے بیچ رسہ کشی شروع ہوئی۔ ایک طرف سامراجیت تھی تو دوسری جانب اشتراکیت۔
1946 سے 1964 کے دوران پیدا ہونے والی نسل "بے بی بومرز " کہلائی کیونکہ اس نسل نے دوسری عالمی جنگ اور کساد بازاری کے بعد آبادی میں تیزی سے اضافہ کیا جسے جنگ کے بعد دنیا بھر میں امن، خوشحالی، اور استحکام کی بحالی کے نتیجے سے اخذ کیا گیا۔
جب کہ دنیا کے دیگر خطوں کی نسلیں سنگین حالات سے گزر رہی تھیں۔ مثلاً سرد جنگ کا آغاز ہو چکا تھا جبکہ چین میں ماؤ کی قیادت میں لاکھوں افراد کا لانگ مارچ اور چین کا کمیونسٹ انقلاب، 1947 میں برصغیر کی تقسیم دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا کا سب سے بڑا انسانی المیہ تھا جس میں کروڑوں لوگ بے گھر ہوئے، لاکھوں ہلاکتیں ہوئیں، لاکھوں عورتیں ریپ کا شکار اور دربدر ہوئیں۔ 1948 میں اسرائیل کا قیام عمل میں آیا جس کے نتیجے میں کئی عرب اسرائیل جنگیں ہوئیں۔ ہنگری میں سوویت یونین کی فوج کشی، 1952 میں کوریا کی جنگ کے نتیجے میں کوریا کی تقسیم، 1954 میں فرانس کی ویت نام میں شکست، 1959 میں کیوبا کا کمیونسٹ انقلاب اور امریکہ کی جانب سے کیوبا کی ناکہ بندی، 1962
میں کیوبا کا میزائل بحران، 1966 میں انڈونیشیا میں لاکھوں افراد کا قتل عام " ہونا کیا اس نسل کو بے بی بومرز کہلائے جانے میں حق بجانب ہے؟ 
اب تک کی نسلوں کا تعین کرتے ہوئے ماہرین نے ان نسلوں میں حب الوطنی اور قوم پرستی کو نمایاں جگہ دی تھی کہ حالات کا یہی تقاضا تھا۔
اب آتے ہیں اگلی نسلوں کی طرف"1965 سے 1980 کی جنریشن ایکس"۔ یہ امریکہ اور مغربی دنیا میں صارف معاشرے کا عروج تھا اور پاپولر کلچر کا فروغ اس کا ایک لازمی جز تھا اس لیے اگلی نسلوں کا تعین صارفین کے طور پر کیا جانے لگا۔
جنریشن ایکس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ایم ٹی وی اور ہپ ہاپ نسل تھی جہاں دونوں والدین کام پر اور بچے اسکول سے خود گھر آکر اپنے کھانے پینے کا انتظام کرتے تھے جبکہ طلاق کا تناسب بڑھ چکا تھا۔ اب آتے ہیں دنیا کے دیگر ممالک کی جانب۔
امریکی صدر جانسن کے دور حکومت میں ویت نام کی جنگ میں شدت آئی اور لاکھوں ٹن بم گرائے گئے۔
1968 میں چیک سلکواکیہ پر سوویت یونین کی فوج کشی، 1970 کے عشرے میں چلی اور پاکستان میں فوجی بغاوتیں اور جمہوری حکومتوں کا خاتمہ، 
1971 میں مشرقی پاکستان میں بنگالیوں کا قتل عام اور بنگلہ دیش کی جنگ آزادی، 1973 میں عرب اسرائیل جنگ اور عالمی توانائی کا بحران، 1978 میں افغانستان کا انقلاب،  1979 میں ایران میں شہنشاہیت کا خاتمہ اور خمینی کا اقتدار پر قبضہ، 
1980 میں روس کا افغانستان پر قبضہ اور ایک لمبی طویل جنگ جبکہ ایران عراق جنگ کا آغاز اور نکاراگوا کا انقلاب بھی اسی سن میں رونما ہوا۔ سوال یہ ہے کہ ان خطوں کی جنریشن ایکس کے مسائل، خامی، خوبیاں بھی وہی تھیں جو کہ مندرجہ بالا بیان کیے گئے ہیں؟
جنریشن وائی یا ملینیلس 1981 سے 1996

ماہرین کے مطابق یہ نسل تعلیم یافتہ، تخلیقی اور روادار ہونے کے ساتھ جدید ٹیکنالوجی اور ایل جی بی ٹی کی اصطلاحات سے آشنا تھی۔ جبکہ دنیا کے دوسرے علاقوں میں وائی نسل کن حالات سے دوچار تھی آئیں نظر ڈالتے ہیں۔ عراق ایران کی وائی نسل آٹھ سال کی جنگ بھگت رہی تھی۔ افغانستان میں مسلسل خانہ جنگی نے زندہ رہنے کے تمام رستے مسدود کردیے تھے۔ پاکستان میں ضیاآلحق کی آمریت میں جمہوری عناصر کچلے جارہے تھے انسانی حقوق کی پامالی عروج پر تھی۔ عورت دشمن قوانین کا نفاذ ہوا۔ ضیاالحق نے افغان جہاد اور ہیروئن و کلاشنکوف کلچر کو ملک میں فروغ دیا۔
1994 میں روانڈا میں ہوتو قبیلے کا روتستی قبیلے پر حملہ، جس کے نتیجے میں آٹھ لاکھ لوگ ہلاک ہوئے۔
یوگوسلاویہ سے آزادی کے اعلان پر مسلم ریاست بوسنیا ہیرسے گووینا کا طویل محاصرہ اور 1995 میں سربرینتسا میں آٹھ ہزار مسلمانوں کا قتل عام وائی نسل نے اپنے آنکھوں سے ہوتے دیکھا۔

جنریشن زی 1996 سے 2010

ڈیجیٹل اور اسمارٹ فون کے دور کی نسل۔
جبکہ اس دور کی نسل نے عراق اور افغانستان پر قبضہ کرنے کی دوڑ میں کتنے بم دھماکے، خود کش حملے اور جدید ہتھیاروں سے انسانی جانوں کا خون بہتا دیکھا ہے۔ 9/11 کے بعد دہشت گردی کی اصطلاح عام ہوئی۔
2002 میں افغانستان پر حملہ،
تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی عراق میں موجودگی کا بہانہ بنا کر 2003 میں عراق پر قبضہ اور طویل جنگ کا آغاز،
2008 میں معاشی کساد بازاری کے باعث نہ صرف غریب ممالک مشکلات کا شکار ہوئے  بلکہ ترقی یافتہ ملکوں میں بھی بے روزگاری اور غربت نے جنم لیا۔
جنریشن الفا 2011 سے 2024
یہ نسل بھی سمارٹ فون، ٹیبلٹ اور دیگر ڈیجیٹل آلات کے ساتھ بڑے ہوئے، جس کی وجہ سے ان کی ڈیجیٹل مہارتیں نمایاں ہیں۔ تعلیمی میدان میں یہ نسل آن لائن تعلیم اور ای لرننگ پلیٹ فارم استعمال کرتی ہے۔
شام اور لیبیا کی الفا نسل ان تمام ٹیکنالوجی کے ہوتے ہوئے مسلسل خانہ جنگی کے باعث بھوک اور بموں سے موت کے دہانے پر کھڑی تھی۔ مصر میں ایک اور فوجی آمریت مسلط ہوئی۔ بھارت میں ہندو انتہا پسندی کا فروغ۔ روس کی یوکرین پر چڑھائی، افغانستان میں طالبان کا غلبہ اور انسانی حقوق کی بے دریغ پامالی، فلسطینی الفا بچوں کی ہلاکتیں اور افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم اور گھر سے نکلنے پر پابندی عائد رہی۔
جنریشن بِیٹا 2025 - 2039

وہ نسل جو اے آئی کے دور میں پیدا ہوئی اور اسی میں پروان چڑھے گی۔
لیکن دنیا کے دوسرے خطوں میں بیٹا نسل بھی اے آئی دور کی نسلیں کہلائی جائیں گی جہاں موت،  بھوک،  غربت وافلاس، بے روزگاری اور جہالت کا راج ہے۔
یہ نسلوں کی لیبلنگ (Generation cohorts) اسٹیریو ٹائپ سوچ کی عکاس ہونے کے ساتھ پاپولر اور کنزیومر کلچر کو فروغ دینے کا آلہ کار نظر آتی ہیں جب کہ دنیا کی ایک بڑی آبادی کے مسائل کچھ اور ہی ہیں، جن سے مصلحتاً چشم پوشی کی جارہی ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔





 

 

صنوبر ناظر تاریخ میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کر چکی ہیں۔ مختلف غیر سرکاری فلاحی تنظیموں کے ساتھ وابستہ رہ چکی ہیں۔
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں