نسلی امتیاز کے خلاف کانفرنس اختتام پذیر
25 اپریل 2009![](https://static.dw.com/image/4190330_800.webp)
ان ماہرین کا خیال ہے کہ اس کانفرنس سے نسل پرستی اورامتیازی سلوک کی روک تھام کے حوالے سے مزید پیش رفت ہوئی ہے جبکہ اس کانفرنس کا کئی ملکوں نے بائیکاٹ بھی کیا۔
اس ہفتے کے آغاز سے 182 ممالک کے نمائندوں نے اس بات پربحث کی کہ آٹھ سال قبل نسل پرستی کے موضوع پر ہونے والی پہلی کانفرنس کے اختتامی اعلامیے پر کب اور کیسے عمل درآمد کیا جائے۔ اقوام متحدہ کے زیراہتمام ہونے والی اس کانفرنس میں آغاز سے اختتام تک مشرقی وسطی کا موضو ع چھایا رہا۔ دس ممالک جن میں امریکہ، اسرائیل اور جرمنی بھی شامل ہیں کانفرنس میں شرکت کرنے سے اس وجہ سے انکار کردیا تھا کہ اس کانفرنس کو اسرائیل کے خلاف پروپگینڈے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ایرانی صدر محمود احمد نژاد نے ان ممالک کے ان خدشات کو درست ثات کرتے ہوئے کانفرنس کے آغاز میں اپنی تقریر میں اسرائیل پرکڑی تنقید کی۔ جرمنی میں انسانی حقوق کے ادارے سے منسلک Petra Follmar Otto نے اس حوالے سے کہا کہ پوری کانفرنس میں ایرانی صدر وہ واحد شخص تھے جنہں نے اسرائیل پر تنقید کی ۔ اس وجہ سے جرمنی کا کانفرنس میں شرکت نہ کرنا ایک غلطی تھا۔
شرکاء اس بات پر خوش نظر آ رہے تھے کہ کانفرنس کا اختتام ایک اچھے طریقے سے ہوا۔ کیونکہ کانفرنس کے اختتامی اعلامیے کے مسودے پر کئی ممالک کو اعتراض تھا۔ جس میں تبدیلی کے بعد کانفرنس کی کارروائی میں کوئی بد نظمی نہیں ہوئی۔ اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندہ برائے نسل امتیاز Githu Muigai نے بتایا کہ کانفرنس اور کس لحاظ سے کامیاب رہی۔
کیا اب نسل پررستی کے خلاف ایک اور کانفرنس منعقد ہو گی ۔ اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ تا ہم ضرورت اس بات کی ہے کہ ڈربن اورجنیوا میں طے پانے والے فیصلوں پر کام کیا جائے۔