1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نسل پرستانہ ٹوئیٹس پر مِس یونیورس آرگنائزیشن تنقید کی زد میں

شامل شمس2 اگست 2016

امریکا میں مِس یونیورس کا ادارہ موجودہ مِس ٹین امریکا کی سابقہ نسل پرستانہ ٹوئیٹس کی وجہ سے ایک بار پھر زیر عتاب آ گیا ہے۔ گزشتہ برس ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات نے بھی اس کی ساکھ کو نقصان پہنچایا تھا۔

تصویر: picture alliance/ANP

نیا تنازعہ اس وقت کھڑا ہوا جب ہفتے کے روز ریاست ٹیکساس سے تعلق رکھنے والی اٹھارہ سالہ کیرلی ہے کو مِس ٹین یو ایس اے کا تاج پہنایا گیا اور اس کے فوراً بعد سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں نے کیرلی کا ایک سابقہ ٹوئیٹر اکاؤنٹ ڈھونڈ نکالا جس میں انہوں نے سن دو ہزار تیرہ سے چودہ کے درمیان نسل پرستانہ زبان استعمال کی تھی۔

ادارے کو فوراً ہی اس صورت حال پر قابو پانے کے لیے اقدامات کرنا پڑ گئے۔

گزشتہ برس بھی مِس یونیورس آرگنائزیشن کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس وقت ادارے کے مالک اور ری پبلکن پارٹی کے موجودہ صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے میکسیکن افراد کے خلاف چند بیانات دیے تھے۔

ادارے نے منگل کے روز ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا، ’’جو زبان کیرلی نے ٹوئیٹس میں استعال کی ہے وہ کسی بھی طور پر ہمارے ادارے کی اقدار کی عکاسی نہیں کرتی۔‘‘

تاہم ادارے کا کہنا ہے کہ ماضی میں جس وقت کیرلی نے یہ ٹوئیٹس کی تھیں وہ اس وقت زندگی کے کسی اور ہی دور میں تھیں۔ ’’کیرلی نے اس کے بعد بہت سے سبق سیکھے ہیں اور جدوجہد کی ہے جس نے ان کو تبدیل کیا ہے اور نئی اقدار سکھائی ہیں۔ ہم ایک ادارے کے طور پر پوری کوشش کریں گے کہ ان کا یہ ارتقاء جاری رہے۔‘‘

ادارے نے کیرلی کی طرف سے ٹوئٹر اور انسٹاگرام پر جاری کی گئی ایک معافی کی طرف بھی اشارہ کیا اور کہا کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انہیں اپنے کیے پر ندامت ہے۔

ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ٹرمپ مِس یونیورس ادارے سے بھی وابستہ رہے تھےتصویر: Getty Images/AFP/Alexander Nemenov

اس کے باوجود بہت سے افراد یہ سمجھتے ہیں کہ مِس یونیورس آرگنائزیشن نے کیرلی کو منتخب کر کے ایک غلط فیصلہ کیا تھا۔ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ کیرلی سے ان کا تاج واپس لے لیا جانا چاہیے۔

ٹرمپ کے ادارے سے علیحدہ ہونے کے بعد نئے مالکان نے مِس ٹین امریکا کے فارمیٹ میں بعض تبدیلیاں کی ہیں۔ انہوں نے سوئم سوٹ مقابلے کو ختم کر کے اس کی جگہ ایتھلیٹک لباس کے مقابلے کی ابتداء کی ہے۔ اس اقدام کی تعریف بھی ہوئی ہے اور تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ اس سے لڑکیوں کی ذہنی اور جسمانی طاقت پر توجہ مرکوز کی گئی ہے نہ کہ ان کی جنسیات کو ابھارا گیا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں