نسل پرستوں کی مقبولیت میں اضافہ، جرمنی کے لیے لمحہ فکریہ
2 ستمبر 2019
جرمنی میں اسلام اور امیگریشن مخالف پارٹی دو مشرقی ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں دوسری پوزیشن پر آگئی ہے۔ اے ایف ڈی پارٹی کا کہنا ہے کہ اُس کی کامیابی وفاق میں چانسلر میرکل کی مخلوط حکومت سے چھُٹکارا پانے کی شروعات ہے۔
اشتہار
انتخابی نتائج کے مطابق ریاست سیکسنی میں اس جماعت کے ووٹوں میں تین گناہ اضافہ دیکھنے میں آیا اور وہ چانسلر میرکل کی جماعت کرسچن ڈیموکریٹس یونین (سی ڈی یو) کے بعد دوسری نمبر پر رہی۔ اسی طرح ریاست برانڈن برگ میں اس کی حمایت میں دوگنا اضافہ ہوا اور وہ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) کے بعد دوسرے نمبر پر آگئی۔
ریاست سیکسنی تین دہائیوں سے چانسلر میرکل کی سی ڈی یو پارٹی کا گڑھ رہی ہے جبکہ ریاست برانڈن برگ میں ایس پی ڈی نوے کی دہائی سے برسرِ اقتدار رہی ہے۔ دونوں پرانی جماعتیں وفاق میں حکومتی اتحادی ہیں۔
انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت اے ایف ڈی کو قائم ہوئے صرف چھ سال ہوئے ہیں۔ قوم پرستی کی دعویدار یہ جماعت خود کو روایتی پارٹیوں کے مقابلے میں حقیقی عوامی متبادل کے طور پر پیش کررہی ہے۔
مرکزی پارلیمان میں اے ایف ڈی پارٹی کی رہنما ایلس وائیڈل کا کہنا ہے کہ تازہ نتائج باقی پارٹیوں کے لیے واضع پیغام ہے کہ تبدیلی ناگزیر ہو چکی ہے۔
دیوارِ برلن کے انہدام اور جرمنی کے دوبارہ اتحاد کے تقریباً تیس سال بعد مختلف حکومتوں نے ملک کے سابقہ مشرقی جرمنی میں کافی سرمایاکاری کی اور تعمیر و ترقی کے کام کیے۔ لیکن مبصرین کے نزدیک مشرقی جرمنی کے لوگوں میں آج بھی مغربی حصے کی نسبت احساس محرومی پایا جاتا ہے۔ الیکشن سے پہلے ریاست سیکسنی میں ایک عوامی جائزے میں مختلف پارٹیوں سے وابستہ اکثر لوگوں کا کہنا تھا کہ وہ خود کو مغربی جرمنوں کے مقابلے میں 'دوسرے درجے‘ کے شہری تصور کرتے ہیں۔
اسلام مخالف سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے بارے میں اہم حقائق
مہاجرت اور اسلام مخالف سیاسی پارٹی متبادل برائے جرمنی ملکی سیاست میں ایک نئی قوت قرار دی جا رہی ہے۔ اس پارٹی کے منشور پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Weigel
مہاجرت مخالف
اے ایف ڈی کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں کو بند کر دینا چاہیے تاکہ غیر قانونی مہاجرین اس بلاک میں داخل نہ ہو سکیں۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملکی سرحدوں کی نگرانی بھی سخت کر دی جائے۔ اس پارٹی کا اصرار ہے کہ ایسے سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کو فوری طور پر ملک بدر کر دیا جائے، جن کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Schmuelgen
یورپی یونین مخالف
متبادل برائے جرمنی کا قیام سن دو ہزار تیرہ میں عمل میں لایا گیا تھا۔ اس وقت اس پارٹی کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ یورپی یونین کے ایسے رکن ریاستوں کی مالیاتی مدد نہیں کی جانا چاہیے، جو قرضوں میں دھنسی ہوئی ہیں۔ تب اس پارٹی کے رہنما بیرنڈ لوکے نے اس پارٹی کو ایک نئی طاقت قرار دیا تھا لیکن سن دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں یہ پارٹی جرمن پارلیمان تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
دائیں بازو کی عوامیت پسندی
’جرمنی پہلے‘ کا نعرہ لگانے والی یہ پارٹی نہ صرف دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں ہے بلکہ یہ ایسے افراد کو بھی اپنی طرف راغب کرنے کی خاطر کوشاں ہے، جو موجودہ سیاسی نظام سے مطمئن نہیں ہیں۔ کچھ ماہرین کے مطابق اے ایف ڈی بالخصوص سابق کمیونسٹ مشرقی جرمنی میں زیادہ مقبول ہے۔ تاہم کچھ جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پارٹی جرمنی بھر میں پھیل چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
علاقائی سیاست میں کامیابیاں
اے ایف ڈی جرمنی کی سولہ وفاقی ریاستوں میں سے چودہ صوبوں کے پارلیمانی اداروں میں نمائندگی کی حامل ہے۔ مشرقی جرمنی کے تمام صوبوں میں یہ پارٹی ایوانوں میں موجود ہے۔ ناقدین کے خیال میں اب یہ پارٹی گراس روٹ سطح پر لوگوں میں سرایت کرتی جا رہی ہے اور مستقبل میں اس کی مقبولیت میں مزید اضافہ ممکن ہے۔
تصویر: Reuters
نیو نازیوں کے لیے نیا گھر؟
اے ایف ڈی جمہوریت کی حامی ہے لیکن کئی سیاسی ناقدین الزام عائد کرتے ہیں کہ اس پارٹی کے کچھ ممبران نیو نازی ایجنڈے کو فروغ دے رہے ہیں۔ یہ پارٹی ایک ایسے وقت میں عوامی سطح پر مقبول ہوئی ہے، جب انتہائی دائیں بازو کے نظریات کی حامل پارٹیاں تاریکی میں گم ہوتی جا رہی ہیں۔ ان میں این پی ڈی جیسی نازی خیالات کی حامل پارٹی بھی شامل ہے۔
تصویر: picture alliance/AA/M. Kaman
طاقت کی جنگ
تقریبا پانچ برس قبل وجود میں آنے والی اس پارٹی کے اندر طاقت کی جنگ جاری ہے۔ ابتدائی طور پر اس پارٹی کی قیادت قدرے اعتدال پسندی کی طرف مائل تھی لیکن اب ایسے ارکان کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔ ناقدین کے مطابق اب اس پارٹی کے اہم عہدوں پر کٹر نظریات کے حامل افراد فائز ہوتے جا رہے ہیں۔ ان میں اس پارٹی کی موجودہ رہنما ایلس وائڈل بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler
پيگيڈا کے ساتھ ناخوشگوار تعلقات
اے ایف ڈی اور مہاجرت مخالف تحریک پیگیڈا کے باہمی تعلقات بہتر نہیں ہیں۔ پیگیڈا مشرقی جرمن شہر ڈریسڈن میں باقاعدہ بطور پر احتجاج کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ تاہم اے ایف ڈی نے پیگیڈا کے کئی حامیوں کی حمایت بھی حاصل کی ہے۔ تاہم یہ امر اہم ہے کہ پیگیڈا ایک سیاسی پارٹی نہیں بلکہ شہریوں کی ایک تحریک ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/S. Kahnert
میڈیا سے بے نیاز
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بریگزٹ رہنما نائیجل فاراژ کی طرح جرمن سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے رہنما بھی مرکزی میڈیا سے متنفر ہیں۔ اے ایف ڈی مرکزی میڈیا پلیٹ فارمز کے ساتھ دوستانہ تعلقات بنانے کے لیے کوشش بھی نہیں کرتی بلکہ زیادہ تر میڈیا سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات دینا بھی مناسب نہیں سمجھتی۔
تصویر: picture alliance/dpa/Aktivnews
8 تصاویر1 | 8
اے ایف ڈی پارٹی کے بارے میں خیال ہے کہ وہ معاشی و سیاسی بے چینی کو نسلی اور مذہبی رنگ دے کر اپنی مقبولیت بڑھا رہی ہے، جس میں اُس کا خاص نشانہ مسلم ممالک سے آنے والے پناہ گزین اور تارکین وطن رہے ہیں۔
لیکن ڈی ڈبلیو کی ایڈیٹراِن چیف اِنس پول کے مطابق آزادی مذہب یقینی بنانا اور جنگ اور نفرت کے ستائے ہوئے لوگوں کو پناہ دینا جرمنی کے وہ اصول ہیں جن پر کبھی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔ اُن کے مطابق اے ایف ڈی کی مقبولیت میں بتدریج اضافہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔
جرمنی وہ ملک ہے، جہاں دوسری عالمی جنگ اور اُس سے پہلے کمزور طبقات پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے گئے۔ بڑا سوال یہ ہے کہ کیا اس ملک میں کبھی اے ایف ڈی جیسی نسل پرست پارٹی بر سر اقتدار آ سکتی ہے؟
مبصرین کے نزدیک اِس پر جرمنی کی بڑی سیاسی جماعتوں کو سوچنا ہوگا کہ کئی برسوں کی زبردست معاشی کامیابی کے باوجود بعض لوگوں میں بے چینی اور مایوسی کیوں پھیل رہی ہے؟ اور وہ کیوں روایتی پارٹیوں سے نالاں ہو کر اے ایف ڈی جیسی تنظیموں کی طرف دیکھنا شروع کر رہے ہیں۔
’جرمنی کی اسلام اور مہاجرین مخالف جماعت کا انتخابی منشور‘