نسل پرستی پر گرما گرم بحث چھوٹے سے جرمن قصبے تک پہنچ گئی
25 جولائی 2020
جرمن صوبے باویریا کے ایک چھوٹے سے قصبے کوبُرگ کے امتیازی نشان پر بحث شدید تر ہو گئی ہے۔ اس نشان کو دو خواتین نے ’نسلی امتیاز‘ کا عکاس قرار دے کر اس کے ہٹائے جانے کی مہم شروع کر رکھی ہے۔
اشتہار
جنوبی جرمن صوبے باویریا کے شمال میں واقع کوبُرگ قدیم وضع کا ایک بہت جاذبِ نظرقصبہ ہے، لیکن اس قصبے کو 'بلیک لائیوز مَیٹر‘ نامی تحریک نے بے چین کر دیا ہے۔ کوبُرگ شہر کے روایتی نشان یا کوٹ آف آرمز (Coat of Arms) سے متعلق مقامی آبادی میں واضح حد تک تقسیم محسوس کی جا رہی ہے۔
اس امتیازی نشان پر تنقید کرنے والوں کا خیال ہے کہ یہ نسلی امتیاز پر مبنی ایک امیج ہے۔ کوبُرگ کے مرکزی نشان پر تیسری صدی عیسوی کی معروف مسیحی مذہبی شخصیت سینٹ موریس کی شبیہ بنی ہوئی ہے۔
سینٹ موریس کا تعلق قدیم مصر کے شہر تھیبیس سے تھا اور قبطی مسیحی برادری ان سے گہری عقیدت رکھتی ہے۔ اس امتیازی نشان میں ان کی صورت روایتی سیاہ فام افریقی باشندوں جیسی نظر آتی ہے۔ یہ عکس اس پورے قصبے میں جا بجا دکھائی دیتا ہے۔
'کوبُرگ کا مُور‘
اس امیج کو نسلی امتیاز کی علامت قرار دینے کی مہم جرمن دارالحکومت برلن کی دو خواتین ژولیانے روئتھر اور علیشا آرچی نے شروع کی ہے۔ ان دونوں خواتین کا تعلق 'بالائی فرانکونیا‘ کے علاقے سے ہے، جو کوبُرگ کے نزدیک ہی واقع ہے۔
ان خواتین کا موقف ہے کہ یہ نشان نوآبادیاتی دور کی علامت ہے۔ انہوں نے ایک آن لائن مہم بھی شروع کر رکھی ہے اور ان کی کاوشوں کا مقصد یہ مطالبہ تسلیم کروانا ہے کہ کوبُرگ کا کوٹ آف آرمز دوبارہ ڈیزائن کیا جائے۔ اس مہم کی بانی علیشا آرچی کے بقول یہ نشان نسلی تعصب کو ظاہر کرتا ہے اور اس کے لیے آج کی دنیا میں کوئی جگہ نہیں ہے۔
کوبُرگ کے شہری سینٹ موریس کی شبیہ والے نشان کو عرف عام میں 'کوبُرگ مُور‘ بھی کہہ کر پکارتے ہیں۔ کئی مقامی باشندے اس امتیازی نشان کی تبدیلی کی مہم پر مایوسی کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔ ایک مقامی شہری نے کہا کہ یہ 'مُور‘ آج کے کوبُرگ کا ہر حوالے سے ایک حصہ ہے۔ ایک اور شہری کا کہنا تھا، ''برلن میں آرچی اور روئتھر کے پاس بہت زیادہ فالتو وقت ہے، انہیں کوئی اور کام بھی کرنا چاہیے۔‘‘
کوبُرگ کے میئر کے دفتر میں اس بحث اور مہم کا کوئی واضح نوٹس نہیں لیا گیا۔ اس دفتر نے اس مہم کو بے معنی اور بے وقعت قرار دیتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی کوبُرگ کی 'محافظ مذہبی شخصیت‘ کے بارے میں نسلی تعصب کی بات کر ہی نہیں سکتا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ اس چھوٹے سے شہر کا 'پیٹرن سینٹ‘ سیاہ فام ضرور ہے لیکن وہ ہر لحاظ سے باعث عزت و تکریم ہے۔
تاریخِ ثقافت کے ماہرین کا موقف
تاریخِ ثقافت کے ماہر محقق ہُوبیرٹُس ہابیل کے پی ایچ ڈی کے مقالے کا موضوع کوبُرگ کے مختلف امتیازی نشانات کی ثقافتی تاریخ کا کھوج لگانا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ کوبُرگ کے کوٹ آف آرمز پر شبیہ یقینی طور پر ایک سیاہ فام کرسچین سینٹ کی ہے، جنہیں اپنے عقیدے سے گہرے لگاؤ کی بنیاد پر قتل کر دیا گیا تھا۔
ہابیل کے مطابق اس نشان پر یہ شبیہ نسلی امتیاز کو ظاہر نہیں کرتی بلکہ یہ اس صدیوں پرانی مسیحی مذہبی شخصیت کے ساتھ محبت اور عقیدت کے اظہار کا طریقہ ہے۔
ایک اور ریسرچر سوزن آرنٹ پوری طرح ہابیل کے اس خیال سے اتفاق نہیں کرتیں کہ یہ کوئی مثبت نشان ہے۔ آرنٹ کا تعلق جنوبی جرمنی کی بائےروئتھ یونیورسٹی سے ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ آغاز ہی سے سفید فام مسیحی پس منظر میں دیا جاناے والا ایک امتیازی حوالہ ہے، جسے کبھی بھی مثبت قرار نہیں دیا جا سکتا۔
پولیس کے ہاتھوں سیاہ فاموں کے قتل پر امریکا سراپا احتجاج
امریکا میں پولیس کے ہاتھوں سیاہ فاموں کے خلاف منظم غیر منصفانہ سلوک کے خلاف مظاہروں نے پر تشدد شکل اختیار کر لی ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق ملکی فوج اس صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے تیار ہے اور استعمال کی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/newscom/C. Sipkin
’میرا دم گھٹ رہا ہے‘
پولیس کی طرف سے سیاہ فام باشندوں کے ساتھ گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری مبینہ ظالمانہ طرز عمل کے خلاف تازہ مظاہروں کا آغاز پیر 25 مئی کو چھیالیس سالہ افریقی نژاد امریکی شہری جارج فلوئڈ کی ہلاکت کے بعد ہوا۔ ایک پولیس افسر نے فلوئڈ کو منہ کے بل گرا کر اس کے ہاتھوں میں ہتھ کڑی ڈالنے کے باوجود اس کی گردن کو اپنے گھٹنے سے مسلسل دبائے رکھا۔ اس کی وجہ سے فلوئڈ سانس گھٹنے سے موت کے منہ میں چلا گیا۔
تصویر: picture-alliance/newscom/C. Sipkin
پر امن احتجاج سے پرتشدد جھڑپیں
ہفتے کے دن تک زیادہ تر مظاہرے پر امن تھے مگر رات کے وقت کچھ جگہوں پر پرتشدد واقعات بھی پیش آئے۔ واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کے باہر نیشنل گارڈز تعینات کر دیے گئے۔ انڈیاناپولس میں کم از کم ایک شخص گولی لگنے سے ہلاک ہو گیا مگر پولیس کا کہنا تھا کہ اس میں اس کا کوئی کردار نہیں۔ فلاڈیلفیا میں پولیس اہلکار زخمی ہوئے جبکہ نیویارک میں پولیس کی گاڑی نے احتجاجی مظاہرین کو ٹکر دے ماری۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA/J. Mallin
دکانوں میں لوٹ مار اور توڑ پھوڑ
لاس اینجلس میں ’بلیک لائیوز میٹر‘کے نعرے لگانے والے مظاہرین پر پولیس کی طرف سے لاٹھی چارج کیا گیا اور ان پر ربڑ کی گولیاں چلائی گئیں۔ بعض شہروں، جن میں لاس اینجلس، نیویارک، شکاگو اور مینیاپولس شامل ہیں، مظاہرے جھڑپوں میں بدل گئے۔ ساتھ ہی لوگوں نے مقامی دکانوں اور کاروباروں میں تھوڑ پھوڑ اور لوٹ مار کی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Pizello
’لوٹ مار کب شروع ہوئی ۔۔۔‘
امریکی صدر نے دھمکی دی ہے کہ وہ مظاہروں کو کچلنے کے لیے فوج بھیج سکتے ہیں۔ ٹرمپ کے بقول ان کی انتظامیہ پرتشدد مظاہروں کو سختی سے روکے گی۔ ٹرمپ کے یہ الفاظ ملک بھر میں غم و غصے کا سبب بنے۔ ٹرمپ نے تشدد کی ذمہ داری انتہائی بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے گروپوں پر عائد کی۔ تاہم مینیسوٹا کے گورنر کے بقول ایسی غیر مصدقہ اطلاعات ہیں کہ سفید فاموں کی برتری پر یقین رکھنے والے لوگ تشدد کو بھڑکا رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA/K. Birmingham
میڈیا بھی نشانہ
ان مظاہروں کی کوریج کرنے والے بہت سے صحافیوں کو بھی سلامتی کے ذمہ دار اداروں کے اہلکاروں نے نشانہ بنایا۔ جمعے کو سی این این کے سیاہ فام رپورٹر عمر جیمینیز اور ان کے ساتھی کو پولیس نے گرفتار کر لیا۔ کئی صحافیوں کو اس وقت نشانہ بنایا گیا یا گرفتار کیا گیا جب وہ براہ راست رپورٹنگ کر رہے تھے۔ ڈی ڈبلیو کے صحافی اسٹیفان سیمونز پر بھی اس وقت گولی چلا دی گئی جب وہ ہفتے کی شب براہ راست رپورٹ دینے والے تھے۔
تصویر: Getty Images/S. Olson
مظاہروں کا سلسلہ دنیا بھر میں پھیلتا ہوا
یہ مظاہرے پھیل کر اب دیگر ممالک تک پہنچ چکے ہیں۔ ہمسایہ ملک کینیڈا میں ہفتے کے روز ہزاروں افراد نے ٹورانٹو اور وینکوور میں سڑکوں پر مارچ کیا۔ جرمنی، برطانیہ اور نیوزی لینڈ کے علاوہ کئی یورپی ملکوں میں بھی سیاہ فاموں کے خلاف ناروا سلوک اور نسل پرستی کے خلاف مظاہرے کیے گئے ہیں۔ ان مظاہروں میں امریکی مظاہرین کے ساتھ اظہار یک جہتی بھی کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Shivaani
ہیش ٹیگ جارج فلوئڈ
ہفتے کے روز جرمن دارالحکومت برلن میں واقع امریکی سفارت خانے کے سامنے ہزاروں لوگوں نے مارچ کیا۔ مظاہرین نے جارج فلوئڈ کی ہلاکت اور امریکا میں منظم انداز میں نسل پرستی پھیلائے جانے کے خلاف احتجاج کیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M:.Schreiber
7 تصاویر1 | 7
'کوبُرگ کا مُور یہیں رہے گا‘
اس مہم کے حق اور مخالفت میں دلائل کے باوجود کوبُرگ کی بلدیاتی کونسل فی الحال اس معاملے پر بحث پر آمادہ دکھائی نہیں دیتی۔
اس امتیازی نشان کو تبدیل کر دینے کے حوالے سے پیش کی گئی متعدد درخواستیں مسترد کی جا چکی ہیں۔ بظاہر مخالفت جاری ہے لیکن قصبے کے کوٹ آف آرمز کا موجودہ ڈیزائن برقرار رکھنے کے حامی بھی اب سامنے آنے لگے ہیں۔
اب مقامی شہریوں نے ایک ایسی مہم کا آغاز بھی کر دیا ہے، جس کا نام ہے، ''کوبُرگ کا مُور یہیں رہے گا۔‘‘
اس مہم کے حامی شہریوں کی تعداد بتدریج بڑھتی جا رہی ہے۔ جرمنی میں آباد سیاه فام افراد کو لفظ 'مُور‘ پر اعتراض ہے، جو اب متروک ہو چکا ہے لیکن سینٹ موریس کے احترام کو وہ بھی اہم سمجھتے ہیں۔
کرسٹینا کیُوفنر (ع ح / م م)
کیمنِٹس کے انتہائی دائیں بازو اور نازی سیلیوٹ کرتا بھیڑیا
جرمنی میں کئی مقامات پر تانبے سے بنے بھیڑیے کے ایسے مجسمے نصب کیے گئے ہیں جو نازی دور کے سیلیوٹ کے حامل ہیں۔ اب ان مجسموں کو مشرقی شہر کیمنٹس میں بھی نصب کیا گیا ہے، جہاں ان دنوں اجانب دشمنی کی وجہ سے خوف پایا جا رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
’بھیڑیوں کی واپسی‘
جرمنی میں تانبے کے 66 مجسموں کی ایک سیریز تخلیق کی گئی، یہ نازی سیلیوٹ کا انداز بھی اپنائے ہوئے ہیں، یہ جرمنی میں ممنوع ہے۔ مجسمہ ساز رائنر اوپولکا کے بقول یہ تخلیق نسل پرستی کے خطرے کی علامت ہے۔ تاہم انتہائی دائیں بازو کے نظریات کے ہمدرد خود کو بھیڑیے سے تشبیہ دینے لگے ہیں۔ مہاجرت مخالف AFD کے رہنما ہوئکے نے کہا ہے کہ ہٹلر کے پراپیگنڈا وزیر گوئبلز نے 1928ء میں بھیڑیے کی اصطلاح استعمال کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
کیمنٹس میں دس بھیڑیے
فنکار رائنر اوپولکا نے اپنے یہ مجسمے ایسے مقامات پر لگائے ہیں جہاں اجانب دشمنی اور نسل پرستانہ رویے پائے جاتے ہیں۔ ان کو ڈریسڈن میں پیگیڈا تحریک کی ریلیوں کے دوران نصب کیا گیا تھا۔ میونخ کی عدالت کے باہر بھی یہ مجسمے اُس وقت نصب کیے گئے تھے جب انتہائی دائیں بازو کی خاتون بیاٹے شاپے کو قتل کے جرم میں سزا سنائی گئی تھی۔ شاپے نیو نازی گروپ این ایس یو کے دہشت گردانہ سیل کی رکن تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
انتہائی دائیں بازو کے بھیڑیے
کیمنٹس شہر میں گزشتہ جمعے کو انتہائی دائیں بازو کی ایک نئی ریلی کا انتظام کارل مارکس کے مجسمے اور تانبے کے بھیڑیے کے سامنے کیا گیا۔ اس ریلی میں انتہائی دائیں بازو کے کارکنوں نے بھیڑیے کے پہناوے میں جارح رویہ اپنا رکھا تھا اور بعض نے آنکھوں کو چھپا رکھا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
’کیمنٹس میں جرأت ہے‘
رواں برس ماہِ ستمبر کے اوائل میں انتہائی دائیں بازو کی ریلیوں کی وجہ سے کیمنٹس کے تشخص پر انگلیاں بھی اٹھیں۔ اس دوران مرکزِ شہر میں نسل پرستی اور قوم پرستی کی مذمت کے جہاں بینر لگائے گئے وہاں ایک بڑے میوزیکل کنسرٹ کا اہتمام بھی کیا گیا۔ اس کنسرٹ میں 65 ہزار افراد نے شرکت کر کے واضح کیا کہ اُن کی تعداد دائیں بازو کے قوم پرستوں سے زیادہ ہے۔
تصویر: Reuters/T. Schle
شہر کے تشخص پر نشان
کیمنِٹس کی شہری انتظامیہ نے انتہائی دائیں بازو کی ریلیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان سے فاصلہ اختیار کر رکھا ہے۔ سٹی ایڈمنسٹریشن کے کئی اہلکاروں کے مطابق انتہائی دائیں بازو کی ریلیوں سے کیمنِٹس کا تشخص مستقلاً مسخ ہو سکتا ہے۔ شہری انتظامیہ نے مطالبہ کیا ہے کہ ایسے انتہا پسندوں کے خلاف عدالتی عمل کو سرعت کے ساتھ مکمل کیا جائے جنہوں نے نفرت کو فروغ دے کر تشدد اور مظاہروں کو ہوا دی تھی۔