1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتمتحدہ عرب امارات

متحدہ عرب امارات: نسل کشی کیس میں آئی سی جے کو اختیار نہیں

6 مئی 2025

متحدہ عرب امارات نے اقوام متحدہ کے نسل کشی کنونشن پر دستخط کرنے کے اپنے 'تحفظات' کا استعمال کرتے ہوئے دلیل دی کہ دارفور میں نسل کشی سے متعلق سوڈان کے الزامات پر بین القوامی عدالت کو کوئی اختیار حاصل نہیں ہے۔

سوڈان
اپریل 2023 سے ہی سوڈان کے فوجی سربراہ عبدالفتاح البرہان اور نیم فوجی دستوں (آر ایس ایف) کے کمانڈر محمد حمدان دقلو کے درمیان طاقت کی 'وحشیانہ کشمکش' کے سبب افراتفری میں ڈوبا ہوا ہےتصویر: Hussein Malla/AP Photo/picture alliance

ہالینڈ میں قائم بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے) نے پیر کے روز سوڈان کے اس دعوے کو مسترد کر دیا کہ متحدہ عرب امارات (یو اے ای) نے دارفور میں نسل کشی کو ہوا دینے کا کام کیا۔

گزشتہ ماہ خرطوم نے اقوام متحدہ کی اعلیٰ ترین عدالت کے سامنے یہ دلیل دی تھی کہ متحدہ عرب امارات نیم فوجی دستوں کو ہتھیار فراہم کر کے اقوام متحدہ کی نسل کشی کنونشن کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔

دار فور میں نسل کشی کے پیچھے یو اے ای کا ہاتھ ہے، سوڈان

عدالت نے کیا کہا؟

اس معاملے میں بین الاقوامی عدالت انصاف کے ججوں نے اپنے فیصلے میں متحدہ عرب امارات کا ساتھ دیا اور اس کے ان دلائل کو قبول کر لیا کہ اقوام متحدہ کی عدالت کے پاس اس کیس پر فیصلہ کرنے کے دائرہ اختیار کا "بظاہر فقدان" ہے۔

سوڈان نے عدالت سے خلیجی ملک کے خلاف فوری طور پر بعض اقدامات کی درخواست کی تھی۔

تاہم متحدہ عرب امارات نے اپنے حق میں مضبوطی سے دلیل دی کہ عدالت اس معاملے پر فیصلہ دینے کے لیے قانونی طور پر اہل ہی نہیں ہے۔

جب متحدہ عرب امارات نے سن 2005 میں اقوام متحدہ کے نسل کشی کنونشن پر دستخط کیے تھے، تو اس نے ایک اہم شق سے متعلق اپنے "تحفظ" کو بھی اس میں شامل کیا تھا، جس کے تحت تنازعات کی صورت میں ایک ملک کو دوسرے ملک کے خلاف آئی سی جے میں مقدمہ چلانے کی اجازت ہوتی ہے۔

سوڈان نے متحدہ عرب امارات کے خلاف عالمی عدالت میں نسل کشی کا مقدمہ دائر کر دیا

تاہم چونکہ اس وقت امارت نے یہ تحفظ حاصل کر لیا تھا، اس لیے آئی سی جے کو اب اس پر مقدمہ چلانے کا اختیار نہیں ہے۔

اماراتی فریق نے کہا کہ اس ریزرویشن کا مطلب یہ ہے کہ ہیگ میں قائم آئی سی جے کے پاس اس معاملے میں مداخلت کا کوئی اختیار ہی نہیں ہے۔

اقوام متحدہ کی اعلیٰ عدالت نے بھی اس بات سے اتفاق کیا کہ اسے نسہ کشی سے متعلق اس مقدمے میں کوئی اختیار حاصل نہیں ہے، البتہ اس نے خطے میں تشدد پر اپنی تشویش کا اظہار بھی کیاتصویر: Piroschka Van De Wouw/REUTERS

اقوام متحدہ کی اعلیٰ عدالت نے بھی اس بات سے اتفاق کیا، البتہ اس نے خطے میں تشدد پر اپنی تشویش کا اظہار بھی کیا۔

آئی سی جے نے کہا کہ اسے "سوڈان میں انسانی المیے پر گہری تشویش ہے، جو موجودہ تنازعے کا پس منظر پیش کرتا ہے۔"

سوڈان میں جنسی تشدد جنگی حربے کے طور پر استعمال ہو رہا ہے، اقوام متحدہ

عدالت نے مزید کہا، "پرتشدد تنازعے کا تباہ کن اثر یہ ہے کہ جس کے نتیجے میں جانوں کا بے حساب نقصان اور مصائب، خاص طور پر مغربی دارفور میں ہو رہا ہے۔"

اپنے فیصلے میں، ججوں نے مزید کہا کہ استثنی کے باوجود بھی ریاستیں "اپنے آپ سے منسوب ایسے اعمال کے لیے ذمہ دار ہیں، جو ان کی بین الاقوامی ذمہ داریوں کے خلاف ہوں۔"

سوڈان کی ایک مصروف مارکیٹ پر حملہ، کم از کم 54 افراد ہلاک

سوڈان کی خانہ جنگی میں کیا ہو رہا ہے؟

اپریل 2023 سے ہی سوڈان کے فوجی سربراہ عبدالفتاح البرہان اور نیم فوجی دستوں (آر ایس ایف) کے کمانڈر محمد حمدان دقلو کے درمیان طاقت کی 'وحشیانہ کشمکش' کے سبب افراتفری میں ڈوبا ہوا ہے۔

اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ رپورٹ کے مطابق اس تنازعہ نے ایسا بحران جنم دنیا ہے، جسے امدادی ایجنسیاں اب دنیا کا بدترین نقل مکانی اور بھوک کا بحران قرار دیتی ہیں۔ سرکاری طور پر ملک کے پانچ خطوں میں اس بحران کا اعلان کیا گیا ہے۔

شمالی دارفور ایک فلیش پوائنٹ بن چکا ہے، جہاں اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ صرف گزشتہ تین ہفتوں میں کم از کم 542 شہری مارے گئے۔

اتوار کے روز ہی آر ایس ایف نے پورٹ آف سوڈان پر حملہ کیا تھا، جو فوج کے مطابق ملک کی دو سالہ جنگ کے دوران فوج سے منسلک حکومتی علاقے پر پہلا بڑا حملہ تھا۔

ص ز/ ج ا  (اے ایف پی، روئٹرز)

سوڈانی جرنیلوں کی اقتدار کی جنگ کی قیمت ادا کرتے عام شہری

03:38

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں