نسوانی جنسی اعضاء کی قطع برید کا خاتمہ بھی ترجیح ہونا چاہیے
6 جون 2019
دنیا کے کئی ممالک میں ایک خونریز روایت کے نام پر ہر سال لاکھوں لڑکیوں اور خواتین کے جنسی اعضاء کی قطع برید کی جاتی ہے، جو ’نسوانی ختنہ‘ بھی کہلاتی ہے اور ایسا قابل مذمت رواج ہے جس کا ترجیحی بنیادوں پر خاتمہ لازمی ہے۔
اشتہار
نسوانی جنسی اعضاء کی اس قطع برید کو انگریزی میں Female Genital Mutilation یا FGM کہتے ہیں اور دنیا بھر میں اس ظالمانہ رواج کے خلاف سرگرم کارکنوں اور سرکردہ تنظیموں نے مطالبہ کیا ہے کہ اس بربریت کی روک تھام کو ویسی ہی عالمی ترجیح بنایا جانا چاہیے، جیسی ایڈز اور ایچ آئی وی وائرس کے خلاف جنگ کو بنایا گیا ہے۔
’پاکستانی خواتین، نسائیت اور تنّوع‘ پاکستانی آرٹسٹ کی نظر سے
پاکستانی کارٹونسٹ شہزل ملک اپنے پُر فکر، لیکن دلکش فن پاروں سے قدامت پسند اور مردوں کی اجارہ داری والے پاکستانی معاشرے میں سماجی تبدیلی لانا چاہتی ہیں۔ اِن تصاویر میں شہزل ملک نے خواتین کے مسائل کو بے نقاب کیا ہے۔
تصویر: Shehzil Malik
عورت اور گھر سے باہر کا خوف
شہزل کا کہنا ہے کہ یہ بتانا آسان نہیں کہ ایک خاتون کسی تنگ نظر معاشرے میں گزارا کیسے کر سکتی ہے۔ شہزل کے مطابق یہ کامک اُن کو ہراساں کرنے کے ذاتی تجربات کا نتیجہ ہے۔ شہزل کا کہنا ہے ،’’ اس خوف کی کوئی عقلی تشریح نہیں جو گھر سے باہر نکلتے ہی ایک عورت کو گھیر لیتا ہے۔
تصویر: Shehzil Malik
’چار دیواری سے نکلیں، دنیا دیکھیں‘
شہزل معاشرے میں موجود ایسے رواجوں کو ناانصافی قرار دیتی ہیں جو عورت کو محض اس لیے پیچھے رہنے پر مجبور کرتے ہیں کیونکہ وہ عورت ہے یا ایک پاکستانی ہے۔ شہزل کہتی ہیں،’’ زندگی کم اور دنیا بہت خوبصورت ہے۔ اسے چاردیواری میں بیٹھ کر ضائع نہیں کرنا چاہیے۔‘‘
تصویر: Shehzil Malik
سانولا رنگ خوبصورت ہے
بہت سے پاکستانی، خواتین کی سانولی رنگت کو پسندیدہ نظر سے نہیں دیکھتے۔ اپنے لڑکپن کے دنوں میں شہزل نے اپنی ساتھی لڑکیوں کو اس احساسِ کمتری کے ساتھ جنگ کرتے دیکھا کہ وہ سانولے رنگ کی تھیں۔ شہزل ملک کا کہنا ہے کہ بعد میں جب کالج کے دور میں اُن کی ملاقات دنیا بھر سے آئی خواتین سے ہونے لگی تو انہوں نے جانا کہ خوبصورتی جلد کے تمام رنگوں اور ہر قدوقامت میں موجود ہے۔
تصویر: Shehzil Malik
حیران کن دیسی عورت
شہزل ملک کے بنائے خاکے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستانی عورت کیا ہے یا پھر یہ کہ وہ خود کو کیسے دیکھنا چاہتی ہے۔ ملک کا کہنا ہے کہ اگر آپ نے اپنی تربیت کی عمر کے دوران گندمی رنگت کی کسی سپر ہیرو ٹائپ خاتون کو دیکھا ہی نہ ہو تو آپ یہ کیسے جانیں گے کہ یہ ممکن ہو سکتا ہے؟
تصویر: Shehzil Malik
حجاب اور ’بائیک گرل‘
شہزل ملک نے بائیک پر سوار حجاب کیے ہوئے ایک لڑکی کا یہ اسکیچ اُس وقت بنایا جب انہوں نے اپنے پڑوس کی ایک لڑکی کو موٹر بائیک چلانا سیکھتے دیکھا۔ ملک نے اس کا پوسٹر بنا کر لاہور کی ایک گلی میں صرف یہ دیکھنے کے لیے چسپاں کیا کہ لوگوں کی طرف سے کیا ردعمل آتا ہے لیکن اگلی صبح تک وہ پوسٹر اتار دیا گیا تھا۔
تصویر: Shehzil Malik
’کتابی کیڑا‘ بہن
شہزل ملک کو اپنی تمام کامکس میں سے یہ سب سے زیادہ پسند ہے۔ یہ اسکیچ اُن کی چھوٹی بہن کا ہے جنہیں ملک نرم دلی، اور علم کی علامت سمجھتی ہیں۔ شہزل کہتی ہیں،’’ یہ اُن خواتین کو خراج عقیدت ہے جو پڑھ رہی ہیں، جو ہمارے علم میں اضافہ کرتی ہیں یا ہمیں بہتر انسان بننا سکھاتی ہیں۔‘‘
تصویر: Shehzil Malik
عورت کا جسم اور سیاسی بیانیے
شہزل ملک نے یہ تصویر اُس وقت بنائی تھی جب فرانس کی حکومت نے ساحل سمندر پر مسلمان خواتین کے برکینی پہننے پر پابندی عائد کی تھی۔ وہ کہتی ہیں،’’ عورت کے جسم پر بلا ضرورت سیاسی بیانیوں کا اظہار کیا جاتا ہے۔‘‘
تصویر: Shehzil Malik
باہر نکلو
عوامی مقامات پر خواتین کے مسائل اور محسوسات کے خاکے بنانے کے بعد اب شہزل ملک نے ’سٹیپ آؤٹ‘ نامی پراجیکٹ شروع کیا ہے جس میں خواتین شہر کی اونرشپ لیتی نظر آتی ہیں۔
تصویر: Natasha Zubair
8 تصاویر1 | 8
اس بارے میں خبر رساں ادارے تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن نے اپنے ایک تفصیلی مراسلے میں کینیڈا کے شہر وینکوور سے جمعرات چھ جون کو لکھا کہ یہ عمل ایک ایسی قدیم روایت ہے، جس کے تحت لڑکیوں اور خواتین کے نازک جنسی اعضاء کے بیرونی حصے جزوی یا مکمل طور پر کاٹ دیے جاتے ہیں۔
یہ طرز عمل متاثرہ خواتین کے لیے عمر بھر جاری رہنے والی شدید نوعیت کی طبی مشکلات کا سبب بنتا ہے، جو ان کی نفسیاتی صحت کو بھی بری طرح متاثر کرتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بارے میں پوری دنیا میں کوئی مصدقہ اعداد و شمار موجود ہی نہیں کہ ’نسوانی ختنے‘ کا شکار ہونے والے خواتین میں سے بعد میں کتنی، اسی روایت کے طبی اثرات کے نتیجے میں، یا تو بہت زیادہ خون بہہ جانے سے موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں یا پھر بعد میں اپنے بچوں کو جنم دیتے ہوئے انتقال کر جاتی ہیں۔ خواتین کی ایسی ہلاکتوں میں بھی اس ’نسوانی ختنے‘ کے اثرات کا عمل دخل واضح اور مصدقہ ہوتا ہے۔
بیس کروڑ متاثرہ خواتین اور لڑکیاں
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت پوری دنیا میں نسوانی جنسی اعضاء کی قطع برید سے متاثرہ خواتین اور لڑکیوں کی تعداد کا تخمینہ 200 ملین لگایا جاتا ہے۔ لیکن کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ بیس کروڑ کی یہ تعداد اپنی جگہ انتہائی باعث افسوس ہونے کے باوجود اصل سے بہت ہی کم ہے۔
اقوام متحدہ کے یہ اندازے صرف 30 ممالک سے حاصل شدہ ڈیٹا پر مشتمل ہیں، جن میں اکثریت افریقی ریاستوں کی ہے۔ کینیڈا میں ہونے والی ایک حالیہ بین الاقوامی کانفرنس ویمن ڈلیور (Women Deliver) کے شرکاء کے مطابق اس بات کے واضح اور مطالعاتی شواہد موجود ہیں کہ ایف جی ایم کہلانے والی اس انسانیت سوز روایت پر دنیا کے 30 سے بھی کہیں زیادہ ممالک میں آج تک عمل کیا جاتا ہے۔
اس بارے میں امریکا میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم Equality Now کی ڈائریکٹر شیلبی کوآسٹ کے مطابق، ’’ہمیں ہر روز ایسی رپورٹیں ملتی ہیں کہ دنیا کے مزید ایسے کئی خطے ہیں، جہاں اس روایت پر عمل کیا جاتا ہے۔‘‘
یہ خطے عام طور پر ترقی پذیر ممالک کے ایسے علاقے ہوتے ہیں جہاں روایت پسندی، قدامت پرستی اور معاشرے میں مردوں کی اجارہ داری اس حد تک ہوتی ہے کہ وہ بلاشبہ پدرشاہی معاشرے ہوتے ہیں اور ان میں خواتین کے ساتھ ایسا ظالمانہ سلوک اسی پدر شاہانہ معاشرتی سوچ کے تحت کیا جاتا ہے۔
متاثرین میں پاکستانی اور بھارتی خواتین بھی شامل
تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کے مطابق عالمی ادارے نے اس موضوع پر اب تک جو ڈیٹا جمع کیا ہے، اس میں وہ ممالک شامل ہی نہیں جہاں یہ روایت پائی تو جاتی ہے لیکن جہاں اس کی موجودگی سخت گیر سماجی رویوں اور روایات کے باعث ابھی تک باقاعدہ ریکارڈ نہیں کی جاتی۔ اس سلسلے میں ماہرین جن ممالک کے نام لیتے ہیں، ان میں جارجیا، روس، عمان، سری لنکا، ایران، بھارت، پاکستان، ملائیشیا، تھائی لینڈ اور سنگاپور جیسی ریاستیں بھی شامل ہیں۔
ماہواری سے جڑی فرسودہ روایات
ایک بھارتی مندر میں تین خواتین کے داخل ہو جانے پر بڑا فساد ہوا۔ ان خواتین نے کئی صدیوں پرانی پابندی جو توڑ دی تھی۔ حیض کی عمر تک پہنچ جانے والی خواتین کو دنیا کے دیگر کئی ممالک اور خطوں میں بھی امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔
تصویر: Fotolia/Alliance
عبادت نہ کرو
براعظم ایشیا کے کئی حصوں میں دوران حیض خواتین کو عبادت اور دیگر مذہبی رسومات میں شرکت سے استثنا حاصل ہے۔ ہندوستان کے علاوہ چین اور جاپان کی بودھ کمیونٹی کے افراد بھی یہی تصور کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں مسلمان خواتین بھی پیریڈز کے دوران نہ تو مسجد جا سکتی ہیں اور نہ ہی دیگر مذہبی سرگرمیاں سر انجام دے سکتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
کھانا نہیں پکانا
دنیا کے کئی حصوں میں خیال کیا جاتا ہے کہ خاتون کو اس حالت میں کھانا نہیں پکانا چاہیے۔ بھارت کے کئی علاقوں میں یہ تاثر ہے کہ اگر کوئی خاتون دوران حیض اچار کو چھو لے گی تو وہ خراب ہو جائے گا۔ کچھ معاشروں میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ماہواری کے دوران خواتین مکھن، کریم یا مایونیز جما سکتی ہیں۔ کچھ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اگر کسی خاتون نے حالت حیض میں آٹے کو چھو لیا تو وہ ٹھیک طریقے سے پکے کا نہیں۔
تصویر: Reuters
گھر بدر
انڈونیشیا کے کچھ حصوں کے ساتھ ساتھ بھارت، نیپال اور نائجیریا کے کچھ قبائل بھی حیض کو ’ناپاک‘ تصور کرتے ہیں۔ یہ خواتین کو ایام مخصوصہ کے دوران گھر سے نکال دیتے ہیں اور عمومی طور پر ان بچیوں اور خواتین کو ماہواری کے دن جانوروں کے لیے بنائی گئی جگہوں پر گزارنا ہوتے ہیں۔ حالیہ عرصے میں نیپال میں کئی خواتین موسم سرما کے دوران گھر بدر کیے جانے کے باعث ہلاک بھی ہوئیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Mathema
نہانا نہیں ہے
بھارت سے لے کر اسرائیل اور کئی یورپی اور جنوبی امریکی ممالک میں کہا جاتا ہے کہ خواتین کو دوران حیض نہانا نہیں چاہیے اور بال بھی نہیں دھونا چاہییں۔ یہ سمجھتے ہیں کہ یوں خواتین بانجھ ہو جائیں گی یا بیمار۔ ان خطوں میں پیریڈز کے دوران خواتین کسی سوئمنگ پول یا ساحل سمندر پر غوطہ بھی نہیں لگا سکتیں۔
تصویر: AFP/Getty Images/C. Khanna
بنو سنورو مت
’خواتین پیریڈز کے دوران بالوں کو نہ تو کاٹیں اور نہ ہی رنگیں یا سنواریں‘۔ کچھ کا یہ خیال بھی ہے کہ اگر خواتین حالت حیض میں جسم کے بال صاف کریں گی تو وہ دوبارہ زیادہ تیزی سے بڑے ہو جائیں گے۔ کچھ خواتین کو تو ناخن تراشنے یا رنگنے کی بھی ممانعت ہوتی ہے۔ وینزویلا میں مبینہ طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی خاتون دوران حیض ’بیکنی لائن‘ سے بالوں کو صاف کریں گی تو ان کی جلد کالی اور خراب ہو جائے گی۔
تصویر: Fotolia/davidevison
پودوں سے دور رہو
کچھ معاشروں میں کہا جاتا ہے کہ دوران حیض خواتین کو پودوں اور پھولوں کے قریب نہیں جانا چاہیے اور کھیتوں سے دور رہنا چاہیے۔ ان فرسودہ روایات کے مطابق اگر یہ خواتین حالت حیض میں نباتات کو چھو لیں گی تو وہ سوکھ یا مر جائیں گی۔ بھارت میں ایسی خواتین کو کہا جاتا ہے کہ وہ مقدس پھولوں کو نہ تو چھوئیں اور ہی پانی دیں۔
تصویر: DW/S. Tanha
مردوں سے دوری
دنیا کے متعدد قدامت پسند خطوں میں پیریڈز کے دوران مردوں کے ساتھ رابطوں کو ممنوع قرار دیا جاتا ہے۔ آتھوڈکس یہودی مذہب میں خواتین کا حالت حیض میں مردوں سے جنسی رابطہ ممنوع ہے۔ پیریڈز ختم ہونے کے بعد یہ خواتین روایتی طور پر نہاتی ہیں اور اس کے بعد ہی یہ سیکس کر سکتی ہیں۔ پولینڈ اور روانڈا کے کچھ حصوں میں یہ کہا جاتا ہے کہ دوران حیض کسی خاتون سے جماع مرد کی ہلاکت کا باعث ہو سکتا ہے۔
کچھ فرسودہ عقائد کے مطابق پیریڈز کے دوران ورزش یا کھیل خاتون کے جسم کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ سن دو ہزار سولہ میں چینی خاتون اسٹار پیراک فو یوناہی نے آشکار کیا تھا کہ انہوں نے حالت حیض میں ریو اولمپک مقابلوں میں حصہ لیا تھا۔ اس بات نے چین میں ایک اہم شجر ممنوعہ توڑ دیا تھا اور یہ پیشرفت ایک نئی بحث کا باعث بن گئی تھی۔
تصویر: Fotolia/Brocreative
ٹیمپون استعمال نہ کرو
دنیا کے قدامت پسند ممالک اور خطوں میں پیریڈز کے دوران ٹیمپون کے استعمال کا درست خیال نہیں کیا جاتا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے استعمال سے خاتون کا پردہ بکارت پھٹ سکتا ہے، جو ان ممالک یا خطوں میں انتہائی شرمندگی کا باعث سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان اور بھارت سمیت کئی قدامت پسند ممالک میں پیریڈز کے دوران ٹیمپون کے ساتھ ساتھ سینیٹری پیڈز کا استعمال بھی متنازعہ خیال کیا جاتا ہے۔
امریکا میں سفید فام میسحی خواتین بھی اسی بربریت کا شکار
نوجوان لڑکیوں اور خواتین کے جنسی اعضاء کی اس قطع برید کی روایت صرف ایشیا اور افریقہ کے ترقی پذیر ممالک میں ہی نہیں پائی جاتی۔ اسی سال امریکا میں ایک سفید فام مسیحی خاتون کی داستان کا منظر عام پر آنا بھی ہر کسی کے لیے ایک بڑے دھچکے کا سبب بنا۔ اس خاتون نے تصدیق کر دی تھی کہ اس کا بھی بچپن میں ’نسوانی ختنہ‘ کر دیا گیا تھا۔
امریکی ریاست کینٹکی کی رہنے والی اس خاتون کے اس انکشاف کے بعد کئی مسیحی حلقوں نے اس انکشاف کی مذمت بھی کی تھی جبکہ بہت سے دیگر حلقوں نے اس کی مذمت کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ یہ ظالمانہ عمل جہاں کہیں بھی ہوتا ہے، اس کی ہر جگہ پر مکمل روک تھام کی جانا چاہیے۔
ایڈز کے مریضوں اور نسوانی ختنے کی متاثرین کا موازنہ
’نسوانی ختنوں‘ کے خلاف بین الاقوامی سطح پر سرگرم برطانیہ کی ایک تنظیم ’اورچِڈ‘ کے تخمینوں کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں ایچ آئی وی ایڈز کے مریضوں کی تعداد تقریباﹰ 37 ملین بنتی ہے اور سن 2017ء میں ایڈز کے خلاف جنگ کے لیے تقریباﹰ 20 بلین ڈالر خرچ کیے گئے تھے۔ لیکن اس کے برعکس ایف جی ایم کے خلاف عالمی سطح پر مہیا کردہ رقوم کی مالیت 2018ء سے لے کر 2021ء تک کے عرصے کے لیے صرف 200 ملین ڈالر بنتی ہے۔
اس تنظیم نے دنیا کی کئی دیگر تنظیموں کی طرح مطالبہ کیا ہے کہ ’نسوانی ختنے‘ کی اس ظالمانہ روایت کے خلاف جنگ اور اس میں کامیابی کے لیے اسے بھی ایسی ہی ترجیح بنایا جانا چاہیے، جیسی کہ ایڈز کے خلاف جنگ کو بنایا گیا ہے۔
م م / ع ح / تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن
سعودی عرب میں خواتین کے حقوق کی جدوجہد: ایک جائزہ
سعودی عرب نے اعلان کیا ہے کہ خواتین کو قانونی سرپرست کی اجازت کے بغیر ہی ڈرائیونگ لائسنس جاری کیے جائیں گے۔ آئیے نظر ڈالتے ہیں کہ اس اسلامی جمہوریہ میں خواتین کے حقوق کی صورتحال کس طرح مثبت انداز میں بدل رہی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
سن 1955: لڑکیوں کے لیے پہلا اسکول
سعودی عرب میں لڑکیاں اس طرح کبھی اسکول نہیں جا سکتی تھیں، جیسا کہ ریاض میں لی گئی اس تصویر میں نظر آ رہا ہے۔ سعودی عرب میں لڑکیوں کو اسکولوں میں داخلے کا موقع پہلی مرتبہ سن 1955 میں ملا تھا۔ اسی طرح سعودی عرب میں خواتین کی اعلیٰ تعلیم کا پہلا ادارہ سن 1970 میں قائم کیا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
سن2001 : شناختی کارڈز کا اجراء
اکیسویں صدی کے آغاز پر سعودی عرب میں خواتین کے لیے پہلی مرتبہ شناختی کارڈز کا اجراء شروع کیا گیا۔ کسی مشکل صورت میں مثال کے طور پر وارثت یا جائیداد کے کسی تنازعے میں ان خواتین کے لیے یہ کارڈ ہی ایک واحد ایسا ثبوت تھا کہ وہ اپنی شناخت ظاہر کر سکیں۔ آغاز میں یہ کارڈز صرف مرد سرپرست کی اجازت سے ہی جاری کیے جاتے تھے۔ تاہم سن دو ہزار چھ میں اس پابندی کا خاتمہ بھی کر دیا گیا۔
تصویر: Getty Images/J. Pix
سن2005 : جبری شادیوں کا اختتام ( کاغذی سطح پر)
سعودی عرب میں سن دو ہزار پانچ میں قانونی طور پر خواتین کی جبری شادیوں کا خاتمہ کر دیا گیا۔ تاہم آج بھی اس اسلامی ریاست میں حقیقی طور پر کسی خاتون کا اپنی رضا مندی سے شادی کرنا ناممکن ہی معلوم ہوتا ہے۔ اب بھی سعودی عرب میں شادیوں کے حتمی فیصلے لڑکیوں کے والد اور ان کے ہونے والے شوہر ہی کرتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/A.Hilabi
سن 2009 : پہلی وزیر خاتون
سن دو ہزار نو میں شاہ عبداللہ نے ملک کی پہلی خاتون حکومتی وزیر کو چنا۔ تب نورہ بنت عبد الله الفايز کو نائب وزیر برائے تعلیم نسواں مقرر کیا گیا تھا۔
تصویر: Foreign and Commonwealth Office
سن 2012 : اولمپک مقابلوں کے لیے پہلی خاتون ایتھلیٹ
سعودی عرب نے سن دو ہزار بارہ میں پہلی مرتبہ اجازت دے دی کہ اولمپک مقابلوں کے لیے ملکی خواتین ایتھلیٹس کا دستہ بھی بھیجا جائے گا۔ اس دستے میں سارہ عطار بھی شامل تھیں، جنہوں نے اس برس لندن منعقدہ اولمپک مقابلوں میں ہیڈ اسکارف کے ساتھ آٹھ سو میٹر ریس میں حصہ لیا۔ تب ایسے خدشات تھے کہ اگر ریاض حکومت نے ملکی خواتین کو ان مقابلوں میں شریک ہونے کی اجازت نہ دی تو سعودی عرب پر پابندی عائد کی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/J.-G.Mabanglo
سن 2013: موٹر سائیکل اور بائیسکل چلانے کی اجازت
سعودی عرب کی حکومت نے سن دو ہزار تیرہ میں پہلی مرتبہ خواتین کو موٹر سائیکل اور بائیسکل چلانے کی اجازت دے دی۔ تاہم اس کے لیے سیر و سیاحت کے کچھ مقامات کو مختص کیا گیا۔ خواتین باقاعدہ مکمل لباس کے ساتھ اپنے مرد رشتہ داروں کے ساتھ ہی وہاں جا کر اپنا یہ شوق پورا کر سکتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP
سن 2013: مشاورتی شوریٰ میں خواتین کی نمائندگی
فروری سن دو ہزار تیرہ میں شاہ عبداللہ نے سعودی عرب کی مشاورتی کونسل کے لیے تیس خواتین کا انتخاب کیا۔ تب اس قدامت پسند ملک میں خواتین کے لیے ان اہم عہدوں پر فائز ہونے کو ایک اہم پیشرفت قرار دیا گیا تھا۔
تصویر: REUTERS/Saudi TV/Handout
سن 2015: ووٹ ڈالنے اور الیکشن لڑنے کا حق
سعودی عرب میں سن دو ہزار پندرہ میں پہلی مرتبہ خواتین کو حق رائے دہی استعمال کرنے کی اجازت ملی۔ اسی برس اس ملک میں منعقدہ بلدیاتی انتخابات میں خواتین پہلی مرتبہ الیکشن میں حصے لینے کی بھی اہل قرار پائیں۔ نیوزی لینڈ وہ پہلا ملک تھا، جس نے خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق دیا تھا، یہ بات ہے سن 1893 کی۔ جرمنی میں خواتین کو ووٹ کا حق 1919ء میں ملا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Batrawy
سن 2017: سعودی اسٹاک ایکسچینج کی خاتون سربراہ
فروی سن دو ہزار سترہ میں سعودی اسٹاک ایکسچینج کی سربراہ کے طور پر سارہ السحیمی کا انتخاب کیا گیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ سعودی عرب میں اس اہم عہدے پر کسی خاتون کا تقرر عمل میں آیا۔
تصویر: pictur- alliance/abaca/Balkis Press
سن 2018: ڈرائیونگ کی اجازت
چھبیس ستمبر سن دو ہزار سترہ کو سعودی حکومت نے اعلان کیا کہ خواتین کو گاڑی چلانے کی قانونی اجازت دی جا رہی ہے۔ جون سن دو ہزار اٹھارہ سے سعودی خواتین کو ضرورت نہیں رہے گی کہ وہ ڈرائیونگ لائسنس کے لیے اپنے کسی مرد سرپرست سے اجازت لیں یا گاڑی چلاتے ہوئے مرد سرپرست کو بھی ساتھ بٹھائیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Jamali
سن 2018: اسٹیڈیمز میں جانے کی اجازت
انتیس اکتوبر سن دو ہزار سترہ کو سعودی عرب کی ’جنرل اسپورٹس اتھارٹی‘ نے اعلان کیا کہ خواتین کو کھیلوں کے اسٹیڈیمز میں جانے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ سن دو ہزار اٹھارہ سے سعودی خواتین ملک میں قائم تین بڑے اسپورٹس اسٹیڈیمز میں جا کر وہاں منعقد ہونے والے کھیلوں کے مقابلوں سے لطف انداز ہو سکیں گی۔