نصرت فتح علی خان اپنی آواز میں امر
16 اگست 2013گذشتہ صدی کے آخری حصے کو اپنے سحر میں لیے رکھنے والے استاد نصرت فتح علی خان 13 اکتوبر 1948ء کو فیصل آباد میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد انہیں ڈاکٹر یا انجینئر بنانا چاہتے تھے لیکن نصرت کے سامنے تو ایک اور ہی دنیا تسخیر کی منتظر تھی۔ نصرت فتح علی خان نے اس حوالے سے ایک مرتبہ ڈوئچے ویلے کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں بتایا تھا، ’’میرے والد کی خواہش تھی کہ میں فنِ موسیقی سےآگاہی تو ضرور حاصل کروں لیکن اس کو پیشے کے طور پر نہ اپناؤں۔ وہ مجھے ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے۔‘‘
ساز و آواز سے نصرت کی روح اور دل کی ہم آہنگی ہی کے باعث سننے والے ان کے کلام میں کھو جایا کرتے ہیں۔ اس کی مثال معروف بھارتی شاعر جاوید اختر کچھ یوں پیش کرتے ہیں، ’’نصرت فتح علی خان اپنے کام میں اس قدر مگن ہو جایا کرتے تھے کہ وہ اس کا حصہ محسوس ہوتے تھے۔ میری غزلوں کی البم ’سنگم‘ کی ایک غزل جس کے بول تھے، ’اب کیا سوچیں، کیا ہونا ہے، جو ہو گا، اچھا ہو گا‘ کی ریکارڈنگ کے دوران وہ روتے رہے اور ریکارڈنگ کرواتے رہے۔‘‘
نصرت فتح علی خان کے ساتھ بہت سی نشستیں رکھنے اور غیر ملکی سفر کرنے والے پاکستانی شاعر امجد اسلام امجد کہتے ہیں کہ نصرت فتح علی خان پر جیسے ہی خیالات وارد ہوتے، وہ اچانک ہارمونیم اپنی طرف کھینچتے اور ان کی انگلیاں اس پر رقصاں ہو جاتیں۔
ڈوئچے ویلے سے خصوصی گفتگو میں اس بات کی تصدیق جاوید اختر نے ان الفاظ میں کی، ’’میں نے اکثر دیکھا کہ نصرت فتح علی خان دیر تک خاموش بیٹھے خلا میں گھورتے رہتے اور پھر اچانک ہارمونیم اپنے قریب کرتے اور اسے بجانا شروع کر دیتے۔ وہ اپنے کام سے عشق کرتے تھے۔‘‘
نصرت فتح علی خان اپنے کام میں یکتائی کی وجہ سے پاکستان اور بھارت ہی نہیں بلکہ مغربی دنیائے موسیقی کی بھی ضرورت بنے ہوئے تھے۔ اگست 1997ء میں ان کی ناگہانی وفات نے سبھی کو سوگوار کر دیا۔ پاکستان کے صف اول کے اداکار مصطفیٰ قریشی نے اس حوالے سے کچھ ان خیالات کا اظہار کیا، ’’نصرت فتح علی خان کی وفات سے صرف پاکستان ہی کا نقصان نہیں ہوا بلکہ ان کی موت پوری دنیائے موسیقی کے لیے ایک بڑا نقصان تھی۔ انہوں نے فن قوالی کو دنیا کے سبھی خطوں میں مقبول کیا‘‘۔
بر صغیر کی معروف گلوکارہ لتا منگیشتر نے ان کی وفات کے فوری بعد ڈوئچے ویلے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے اپنے جذبات کا اظہار ان الفاظ میں کیا، ’’میں یہ سمجھتی ہوں کہ نصرت صاحب کی موت سے دنیائے موسیقی کو بہت نقصان ہوا ہے۔ وہ اپنے ملک ہی نہیں بلکہ ہمارے ہاں بھی بہت زیادہ مقبول تھے۔ نصرت صاحب نے ایک فلم کی موسیقی ترتیب دی تھی، جس کے گیت مجھے گانا تھے لیکن میں کسی مصروفیت کی وجہ سے وہ گیت نہ گا سکی، جس کا مجھے عمر بھر افسوس رہے گا‘‘۔
نصرت فتح علی خان نے اپنے پیچھے عارفانہ کلام ،گیتوں، غزلوں اور قوالیوں کا اتنا بڑا خزانہ چھوڑا ہے کہ یہ موسیقی میں روح کی غذا تلاش کرنے والوں کو ایک طویل عرصے تک سیر کرتا رہے گا۔ ان کے جانے کا غم ان کے چاہنے والوں کے لیے پہلے روز کی طرح آج بھی تازہ ہے۔