جرمنی میں موجود ایسے تارکین وطن جنہیں ’انضمام کا کورس‘ کروایا گیا، ان میں سے نصف تعداد اس کورس کے خاتمے کے بعد لیے جانے والے امتحان میں ناکام رہی۔
اشتہار
مبصرین کا کہنا ہے کہ مہاجرین کی اتنی بڑی تعداد میں جرمن زبان کے امتحان میں ناکامی کی بڑی وجہ ان کا کورسز میں غیرحاضر رہنا ہے۔
جرمنی کے وفاقی دفتر برائے مہاجرین اور پناہ گزین (BAMF) کے اعداد و شمار کے مطابق ابتدائی جرمن زبان سکھانے کے لیے کرائے جانے والے ’انٹیگریشن‘ کورس کے بعد جن تارکین وطن کا امتحان لیا گیا، ان میں نصف سے زائد فیل ہو گئے۔
اتوار کے روز جرمن اخبار فرانکفٹرالگمائنے میں جرمن دفتر برائے مہاجرین اور پناہ گزین کے اعداد و شمار کے حوالے سے ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہےکہ گزشتہ برس جرمن زبان کے ان کورسز میں شریک تارکین وطن کی مجموعی تعداد تین لاکھ انتالیس ہزار پانچ سو اٹھہتر تھی، جن میں سے دو لاکھ نواسی ہزار سات سو اکیاون جرمن زبان کا یہ ابتدائی کورس پاس کرنے میں ناکام رہے۔
ان اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ ان تارکین وطن میں سے صرف 48 فیصد زبان کے اعتبار سے B1 کی سطح تک پہنچ پائے۔ جب کہ صرف چالیس فیصد زائد ایسے تھے جو A1 عبور کر کے A2 سطح کے کورسس تک بھی نہ پہنچ پائے۔
ترکی میں شامی مہاجرین کے لیے انضمام کے مسائل
شام میں جاری خانہ جنگی کے باعث اپنے آبائی وطن کو ترک کر کے تُرکی آنے والے شامی مہاجرین کے لیے یہاں ایک طویل عرصہ گزارنے کے باوجود ترک زبان میں مہارت اور مناسب ملازمتیں حاصل کرنا بڑے مسائل ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
اسکول سے باہر جھانکتا شامی بچہ
ایک بچہ جنوبی ترکی میں قائم نزپ 2 نامی مہاجر کیمپ میں ایک اسکول سے باہر جھانک رہا ہے۔ یہ کیمپ رہائش کے بین الاقوامی معیار کا حامل ہے تاہم کچھ شامی مہاجرین اب بھی سماج سے کٹ کر ہی رہنا چاہتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
توقع سے زیادہ بہتر
سن 2012 میں دریائے فرات کے کنارے تعمیر کیے گئے نزپ2 کیمپ میں صحت اور مفت تعلیم کی سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔ علاوہ ازیں یہاں رہنے والوں کے لیے سپر مارکیٹیں بھی بنائی گئی ہیں۔ نزپ2 میں فی الحال 4.500 شامی مہاجرین قیام پذیر ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
چالیس فیصد شامی مہاجر بچے تعلیم سے محروم
ترکی کی نیشنل ایجوکیشن کی وزارت کے مطابق اسکول جانے کی عمر کے قریب 40 فیصد بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ نزپ2 جیسے مہاجر کیمپوں میں ہر عمر کے طالبعلم بچوں کو عربی، انگریزی اور ترک زبانوں میں مفت تعلیم دی جاتی ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
برادری کے ساتھ زیادہ محفوظ
نزپ2 میں انگریزی کے استاد مصطفی عمر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ شامی بچوں کے لیے کیمپ سے باہر نکلنا اچھا ہے کیونکہ اُن کی ترکی زبان سیکھنے کی رفتار بہت آہستہ ہے۔ تاہم وہ کیمپ میں اپنی برادری کے ساتھ خود کو محفوظ تصور کرتے ہیں اور یہ ہمارے لیے اہم ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
ترکی اور شامی مہاجر بچوں کی دوستی
اقتصادی اور سماجی پناہ گزین انضمام کے ماہر عمر کادکوے کا کہنا ہے کہ شامی اور ترک بچوں کے درمیان بات چیت سماجی تناؤ کو دور کرنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
’ترک زبان سیکھنا اتنا بھی مشکل نہیں‘
ترک معاشرے میں شامی مہاجرین کے لیے زبان کی مشکلات اپنی جگہ، لیکن اس کے باجود اس مقصد میں کامیاب ہونے والوں کی کہانیاں بھی ہیں۔ سترہ سالہ ماہر اسماعیل کا کہنا ہے کہ وہ ایک ایک سال سے ترکی سیکھ رہا ہے اور یہ اتنا مشکل بھی نہیں۔ اسماعیل ستر فیصد ترکی سمجھ سکتا ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
مناسب روز گار کی تلاش
ترکی میں رہنے والے شامی مہاجرین عمومی طور پر بے روز گار ہیں۔ زیادہ تر کو سخت محنت والے شعبوں میں کم درجے کی ملازمتیں مل جاتی ہیں باقی ماندہ اپنی ذاتی کاروباری کمپنیاں کھول لیتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
12 گھنٹے روزانہ کی شفٹ
چوبیس سالہ قہر من مارش ہفتے میں سات دن روزانہ 12 گھنٹے کی شفٹ پر ایک کباب شاپ پر ملازمت کرتا ہے، جہاں سے اسے مہینے میں ایک ہزار لیرا ملتے ہیں۔ مارش کا کہنا ہے کہ وہ اسکول جانا چاہتا ہے لیکن اُس کے پاس وقت نہیں ہے کیونکہ اُس کے والدین اُس کی کمائی پر انحصار کرتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
گھر جانے کو بیتاب
نزپ2 مہاجر کیمپ کے باسیوں کے ذہن میں ایک خیال ہر وقت رہتا ہے کہ گھر کب جائیں گے۔
سترہ سالہ محمد حاجی(بائیں) جو 35 لیرا یومیہ پر پھل اور سبزیاں چنتا ہے، کا کہنا ہے کہ اسکول جانے کا تو سوال ہی نہیں کیونکہ وہ اپنے گھر شام جانا چاہتا ہے۔ ستاون سالہ زکریا ارید( دائیں) شام میں اپنے شہر رقہ کے جہادی گروپ ’اسلامک اسٹیٹ‘ سے آزاد ہونے کا انتظار کر رہا ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
شہریت کا سوال
شامی مہاجر خاتون آیوش احمد جو تصویر میں نظر نہیں آرہی ہیں، نے اپنی دو پوتیوں میں سے ایک کو گود میں لیا ہوا ہے۔ آیوش احمد کیمپ میں قریب 5 برس سے مقیم ہیں۔ اُن کی دونوں پوتیاں اسی کیمپ میں رہائش کے دوران پیدا ہوئی ہیں۔ آیوش احمد کا کہنا ہے،’’ اگر ہم ترکی میں رہے تو میری پوتیوں کی شہریت ترک ہو جائے گی اور اگر شام چلے گئے تو وہ شامی شہریت کی حامل ہوں گی۔
تصویر: DW/D. Cupolo
10 تصاویر1 | 10
اس کورس کے بعد توقع تھی کہ مہاجرین عام بول چال کو کسی حد تک سمجھ سکیں گے اور سادہ جملوں کے ذریعے اپنی بات کہہ پائیں گے۔
جرمن وفاقی دفتر برائے مہاجرین اور پناہ گزین کے مطابق ان تارکین وطن کی زبان سیکھنے کے معاملے میں اس ناکامی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ کئی ان کورسز کے دوران بیمار رہے اور بعض کو ملازمت مل گئی جب کہ کئی ایسے بھی تھے، جو ایک مقام سے دوسرے مقام پر منتقل ہو گئے۔
اس حوالے سے مہاجرین کی زبان سیکھنے میں ناکامی کی وجہ ماہرین کی نگاہ میں یہ بھی ہے کہ بہت سے تارکین وطن اب بھی اپنے ماضی کے بھیانک تجربات کی وجہ سے صدمے کا شکار ہیں جب کہ کئی ایسے ہیں، جنہیں ’زبان سیکھنے کا تجربہ‘ ہی نہیں ہے۔ جرمن حکام کا کہنا ہے کہ بہت سے تارکین وطن نے ان کورسز میں اپنی حاضری کو یقینی نہیں بنایا اور ان کی امتحان میں ناکامی کی وجہ یہ بھی ہے۔