نصف صدی گزرنے پر دیوارِ برلن کی تعمیر کی یاد
13 اگست 2011اس موقع پر جرمنی کے مشرقی حصے سے مغرب کی جانب فرار ہونے کی کوشش میں مرنے والوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی، جبکہ میموریل سروس بھی منعقد کی گئی۔ جرمن پارلیمنٹ پر قومی پرچم بھی سرنگوں رہا۔
پچاس سالہ یادگاری تقریبات کا آغاز جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب ایک چرچ سروس سے ہوا۔ اس دوران آزادی کی چاہ میں ہلاک ہونے والے افراد کے نام اور ان کی کہانیاں پڑھی گئیں۔ یہ سلسلہ سات گھنٹے جاری رہا۔
ہفتہ کو برلن میں مرکزی تقریب میں صدر کرسٹیان وولف، چانسلر انگیلا میرکل اور برلن کے میئر کلاؤس وووورائٹ شریک ہوئے۔ خیال رہے کہ جرمن چانسلر خود سابق مشرقی جرمنی میں پروان چڑھیں، جسے مغربی حصے سے الگ کرنے والی دیوار اٹھائیس برس سے زائد عرصے تک جرمنی کی تقسیم کا نشان رہی۔ اس کی تعمیر تیرہ اگست انیس سو اکسٹھ کو شروع ہوئی اور نو نومبر انیس سو نواسی کو اسے گرا دیا گیا تھا۔
انیس سو اکسٹھ سے انیس سو نواسی کے دوران مشرقی جرمنی سے مغربی حصے کی جانب دیوار پھلانگ کر فرار ہونے کی کوشش کے دوران ہلاک ہونے والوں کی تعداد ایک سو چھتیس ہے، لیکن فرار کی کوشش میں ہلاک ہونے والوں کی مجموعی تعداد چھ سو سے سات کے درمیان بتائی جاتی ہے۔
بیرنوئیر شٹراسے پر ہفتہ کو منعقدہ مرکزی تقریب سے خطاب میں صدر کرسٹیان وولف نے کہا: ’’اس دوران ہلاک ہونے والوں کی اصل تعداد کیا تھی، یہ کوئی نہیں جانتا۔‘‘
انہوں نے کہا: ’’اندرونی جرمن سرحد پر اور دیوار کے ساتھ ساتھ ہلاک ہونے والے تمام افراد کی یاد میں ہم اپنے سروں کو جھکاتے ہیں۔‘‘
جرمن صدر نے کہا کہ اس دیوار کی تعمیر کا نشانہ صرف وہی لوگ نہیں بنے جو ہلاک اور زخمی ہوئے، سینکڑوں ہزاروں وہ جنہیں قید کیا گیا اور سیاسی طور پر ہراساں کیا گیا، بلکہ وہ لاکھوں افراد بھی، جنہیں اپنا من چاہا طرز زندگی اختیار کرنے سے روکا گیا۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے عوام پر زور دیا کہ دیوار کی تعمیر سے جس ناانصافی کا عمل شروع ہوا، اسے دنیا بھر میں آزادی، جمہوریت اور شہری حقوق کے حصول کی لڑائی کے لیے محرک خیال کریں۔
اس تقریب سے خطاب میں برلن کے میئر کلاؤس ووورائٹ نے کہا: ’’دیوارِ برلن آمریت کے نظام اور غیرمنصفانہ ریاست کا حصہ تھی۔ اس سے دیوالیہ پن کے شکار نظام کی عکاسی ہوتی تھی، جس سے لوگ نکلنا چاہتے تھے۔‘‘
انہوں نے کہا: ’’یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اس کی یادوں کو زندہ رکھیں اور اپنی آئندہ نسلوں تک منتقل کریں تاکہ ایسی ناانصافیاں دوبارہ نہ ہو سکیں۔‘‘
رپورٹ: ندیم گِل / خبر رساں ادارے
ادارت: افسر اعوان