1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نظام شمسی سے باہر پانچ نئے سیاروں کی دریافت

21 جنوری 2010

خلائی دوربین کیپلر (Kepler) نے نظام شمسی سے باہر پانچ نئے سیارے دریافت کئے ہیں۔ امریکی خلائی تحقیقی ادارے ناسا نے کیپلر کو نظام شمسی سے باہر زمین جیسے سیاروں کی تلاش کے مشن پر مارچ 2009ء میں خلا میں روانہ کیا تھا۔

تصویر: AP

کیپلر مشن کے پرنسپل سائنس انویسٹیگیٹر ولیم باروکی (William Baruki) کے مطابق یہ نئی دریافت، سیاروں کے بننے کے عمل اور خلائی دھند کے بارے میں ہمارے علم میں اضافے کا باعث بنی ہے۔ تاہم باروکی کا کہنا ہے کہ یہ تمام سیارے اتنے زیادہ گرم ہیں کہ ہماری قیاس آرائی کے مطابق ان پر زندگی کا وجود ناممکن ہے۔

نظام شمسی سے باہر موجود سیاروں کو ایکسو پلانیٹس (Exoplanets) کہا جاتا ہے۔ نئے دریافت کئے جانے والے ان سیاروں کو گرم مشتری یعنی ہاٹ جیوپیٹرز بھی کہا جارہا ہے جس کی وجہ ان کا بہت زیادہ حجم اور درجہ حرارت ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق یہ درجہ حرارت 1200 سے 1650 ڈگری سینٹی کے درمیان ہے جو کہ پگھلے ہوئے لاوا سے بھی زیادہ گرم ہے۔

ناسا کے مطابق یہ سیارے اپنے اپنے سورج یعنی ستاروں کے گرد تین سے پانچ دن میں چکر مکمل کرلیتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ اپنے ستاروں سے بہت کم فاصلے پر مدار میں چکر لگا رہے ہیں۔ یہ ستارے نظام شمسی کے سورج سے سائز میں بہت بڑے بھی ہیں اور بہت زیادہ گرم بھی۔

ان نئے دریافت شدہ ایکسوپلانیٹس میں سے سب سے چھوٹا، اپنے سائز میں نظام شمسی کے سیارے نیپچون کے قریباﹰ برابر ہے، جبکہ سب سے بڑا نو دریافت شدہ سیارہ مشتری یعنی جیوپیٹر کے برابر ہے۔ جیوپیٹر نظام شمسی کا سب سے بڑا سیارہ ہے۔

ولیم باروکی نے ان نئے سیاروں کی دریافت کا انکشاف امریکی ایسٹرونومیکل سوسائٹی کے واشنگٹن میں ہونے والی میٹنگ میں کیا۔ باروکی کے مطابق ان پانچ سیاروں کی دریافت کییپلر کی طرف سے گزشتہ برس مئی میں باقاعدہ کام شروع کرنے کے بعد سے چھ ماہ کے مختصر عرصے میں ہوئی ہے۔

کیپلر ٹیلی اسکوپ دراصل کسی بھی ستارے کی روشنی میں آنے والی ان تبدیلیوں کا حساب رکھتی ہے جو مختلف سیاروں کے اس کے سامنے سے گزرنے کی وجہ سے آتی ہیں۔ کسی بھی سیارے کا سائز دراصل روشنی میں آنے والی اس کمی کی مقدار سے کیلکولیٹ کیا جاتا ہے۔ جبکہ ان سیاروں کے درجہ حرارت کا اندازہ اس ستارے کے خواص جس کے گرد وہ چکر لگا رہے ہیں، اس سیارے کے مدار یعنی اپنے سورج سے اس کی دوری اور چکر مکمل کرنے کے وقت سے لگایا جاتا ہے۔

کیپلر مشن کے پرنسپل سائنس انویسٹیگیٹر ولیم باروکی کے مطابق کیپلر زمین کے سائز کے برابر ایسے سیاروں کی تلاش میں ہے جو اپنے سورج سے ایسے مناسب فاصلے پر گردش کررہے ہوں کہ ان پر پانی کی موجودگی ممکن ہو۔ باروکی کا کہنا ہے کہ کیپلر سے حاصل شدہ معلومات سے ہی ہمیں معلوم ہوپائے گا کہ کیا ایسے دیگر ستارے بھی ہیں جن کے گرد گردش کرتے سیاروں پر زندگی ممکن ہوسکتی ہے، یا یہ کہ کائنات میں ہم اکیلے ہی ہیں۔

ناسا کی جانب سے نظام شمسی سے باہر زمین جیسے سیاروں کی تلاش کے لئے کیپلر ٹیلی اسکوپ کو گزشتہ برس مارچ میں خلا میں روانہ کیا گیا تھا۔تصویر: AP

ناسا کے مطابق ایسے سیارے جن پر پانی ممکن ہوسکتا ہے وہ سورج جیسے ستاروں کے گرد سال میں صرف ایک چکر ہی مکمل کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ کیپلر سے حاصل ہونے والی معلومات کے نتیجے میں کسی سیارے کی دریافت کو یقینی بنانے سے قبل ہم کم از کم تین مرتبہ کسی ستارے کی گردش کو نوٹ کرتے ہیں۔ اس لئے زمین جیسے کسی سیارے کی حتمی دریافت میں کم از کم تین سال کا عرصہ درکار ہوگا۔

ناسا کے ایسٹرو فزکس ڈویژن کے واشنگٹن میں قائم ہیڈکوارٹر کے سربراہ جون مورس (Jon Morse) کا کہنا ہے کہ سائنسدان توقع کررہے ہیں کہ زمین جیسے چھوٹے سیاروں کی دریافت سے قبل کیپلر کے ذریعے ایسے سیارے دریافت ہونگے جو نہ صرف سائز میں بڑے، بلکہ اپنے ستاروں کے گرد بہت قریب گردش کررہے ہیں۔

ناسا کی کیپلر ٹیلی اسکوپ، زمین جیسے ایکسوپلانیٹس کی تلاش کے لئے خلا میں بھیجا جانے والا پہلا مشن ہے۔ اس میں خلا میں بھیجا جانے والا اب تک کا سب سے بڑا کیمرہ نصب ہے جو 85 میگا پکسل کی سلسلہ وار تصاویر بناتا ہے۔ امید ہے کہ کیپلر نئے سیاروں سے متعلق تفصیلات کم از کم نومبر سن 2012ء تک زمینی اسٹیشن کو ارسال کرتی رہے گی۔

کیپلر کی طرف سے سب سے پہلے سیارے یعنی ہاٹ جیوپیٹر کے بارے میں تفصیلات اس کے تجرباتی مدت یعنی اسے خلا میں بھیجنے کے 10 دن کے اندر ہی موصول ہوگئی تھی، جو سائنسدانوں کے لئے انتہائی حیران کن تھا۔ یہ ہاٹ جیوپیٹر زمین سے ایک ہزار نوری سال کے فاصلے پر ہے۔ ایک نوری سال تقریباﹰ 9460 بلین کلومیٹر کا فاصلہ بنتا ہے۔

رپورٹ : افسر اعوان

ادارت : کشور مُصطفیٰ

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں