دنیا بھر میں اہم خاتون شخصیات، فلمی ستارے اور عام خواتین ہیش ٹیگ ’می ٹو‘ استعمال کر کے جنسی طور پر ہراساں ہونے کی ذاتی کہانیوں کو سوشل میڈیا پر شیئر کر رہی ہیں۔
اشتہار
عالمی سطح پر اس مہم کا آغاز ہالی ووڈ کی نامور شخصیت ہاروی وائنسٹائن کے خلاف ان الزامات کے بعد ہوا جن کے مطابق انہوں نے کچھ دہائیوں قبل خواتین کو ریپ اور جنسی زیادتی کا شکار بنایا تھا۔ امریکی اداکارہ الیسا میلانو نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا کہ وہ تمام خواتین جو زندگی میں کبھی بھی جنسی زیادتی یا ہراس کا شکار ہوئی ہیں وہ ہیش ٹیگ ’می ٹو‘ استعمال کرکے سوشل میڈیا پر اس مسئلے کے حوالے سے آگاہی پیدا کریں۔
پاکستان میں بھی خواتین کی بہت بڑی تعداد اس ہیش ٹیگ کو استعمال کر رہی ہے۔ پاکستان کے سوشل میڈیا پر ’می ٹو‘ ٹاپ ٹرینڈننگ ہیش ٹیگ بنا ہوا ہے۔سوشل میڈیا کی ایک صارف حمیرہ کریم نے لکھا،’’ ہمیں مضبوط ہونا ہوگا۔ ہراساں کرنے والے کو شرمندہ ہونا چاہیے نا کہ متاثرہ عورت کو، بزدلی اور کمزوری مجرموں کو مزید طاقت دیتی ہے۔‘‘ سماجی کارکن اور حقوق نسواں کی علمبردار گلالئی اسماعیل نے اپنے فیس بک پیج پر لکھا،’’ جب آپ پشاور میں رہتے ہوں تو ہراساں ہونا ایک عام سی بات ہے۔‘‘
عینی زمان نے اپنے فیس بک پیج پر لکھا،’’ اگر ہر وہ عورت جو ہراساں ہوئی ہے ’می ٹو‘ ہیش ٹیگ لکھے تو اندازہ ہو کہ جنسی طور پر خواتین کو ہراساں کرنا کتنا بڑا مسئلہ ہے۔‘‘ صحافی فاریہ سحر نے لکھا،’’ میں اتنی بہادر نہ تھی کہ جنسی طور ہر ہراساں کیے جانے کو رپورٹ کر سکتی، اس لیے ہمیں ان عورتوں پر اعتراض نہیں کرنا چاہیے جو ہراساں ہونے کے کچھ عرصے بعد دنیا کو بتانا چاہتی ہے کہ انہیں ہراساں کیا گیا تھا۔‘‘
پاکستان میں ایسی کئی مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں جب عورتوں کو اس صورتحال میں شدید معاشرتی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ پاکستان اور اسلامی دنیا کی پہلی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو جب کئی برس جلا وطنی کی زندگی گزارنے کے بعد پاکستان پہنچی تھیں تو انہیں ایک دہشت گردانہ حملے میں قتل کر دیا گیا تھا۔ کئی ٹی وی پروگرامز میں سیاست دانوں کی جانب سے خواتین تجزیہ کاروں یا سیاست دانوں کو توہین آمیز جملے بھی سننے کو ملتے رہتے ہیں۔
پاکستان کی عالمی شہرت یافتہ خواتین شخصیات جیسے کہ شرمین عبید چنائے، ملالہ یوسف زئی، گلالئی اسماعیل اور نگہت داد کو اندرون ملک کچھ حلقوں کی جانب سے مغربی ایجنٹ ہونے جیسے الزامات کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔ کسی عورت سے اس کی زندگی ہی لے لینا ہراساں کیے جانے کی بدترین صورت کہلائی جاسکتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہر سال پاکستان میں ایک ہزار سے زائد خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کردیا جاتا ہے۔
ہیش ٹیگ ’می ٹو‘ استعمال کرتے ہوئے سماجی کارکن نائمہ بٹ نے اپنے فیس بک پیج پر لکھا،’’ حقیقت یہ ہے کہ عورت گلی اور سڑکوں پر ہراساں ہوتی ہے۔ طاقت کا ناجائز استعمال کیا جاتا ہے، نظروں اور الفاظ سے ہراساں کیا جاتا ہے۔ پیچھا کیا جاتا ہے، الزامات لگائے جاتے ہیں یہاں تک کہ دھمکیاں بھی دی جاتی ہیں۔‘‘
پاکستانی خواتین: روزگار اور مواقع
پاکستان کی آبادی میں مردوں کا تناسب اکاون فیصد اور خواتین کا تناسب انچاس فیصد ہے لیکن روزگار کی ملکی منڈی میں خواتین کی تعداد مردوں سے نصف ہے۔ پاکستان کی ملازمت پیشہ یا اپنا کوئی کام کرنے والی خواتین کے چہرے:
تصویر: DW/I. Jabeen
پہلی ٹرک ڈرائیور شمیم اختر
پیدائشی طور پر گوجرانوالہ اور آج کل راولپنڈی کی رہائشی شمیم اختر پاکستان کی پہلی ٹرک ڈرائیور خاتون ہیں۔ چون سالہ شمیم مالی مجبوریوں کی وجہ سے مال بردار ٹرک کی ڈرائیور بنیں حالانکہ اس شعبے میں ڈرائیونگ صرف مردوں کا پیشہ سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان کے چند بڑے شہروں میں خواتین ٹیکسیاں اور رکشے بھی چلاتی ہیں لیکن مرد ڈرائیوروں کے مقابلے میں ان کا تناسب انتہائی کم ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
ترقیاتی شعبے میں خدمات
اسلام آباد کی رہنے والی سیدہ مجیبہ بتول گزشتہ سولہ برسوں سے ترقیاتی شعبے میں کام کر رہی ہیں۔ وہ کئی بین الاقوامی غیر حکومتی تنظیموں کے لیے کام کر چکی ہیں اور اس وقت ترقیاتی شعبے میں انتظامی امور کے ایک مشاورتی ادارے کی اعلیٰ عہدیدار ہیں۔ مجیبہ کی طرح بہت سی دیگر پاکستانی خواتین بھی غیر حکومتی ترقیاتی شعبے میں کام کرتی ہیں لیکن مردوں کے مقابلے میں اس شعبے میں بھی خواتین کی تعداد بہت کم ہے۔
تصویر: Mujeebah Batool
سڑکوں سے کوڑے کرکٹ کی صفائی
چھپن سالہ شاہدہ شموئیل کو اسلام آباد میں سڑکوں پر صفائی کرتے برسوں گزر چکے ہیں۔ وہ اسلام آباد میں ترقیاتی امور کے نگران ادارے سی ڈی اے کی ملازمہ ہیں۔ شاہدہ کا کہنا ہے کہ ان کے آٹھ بچے ہیں جن میں سے چند شادی شدہ بھی ہیں لیکن خود شاہدہ کا مالی طور پر ان کی تنخواہ میں گزارہ مہنگائی کی وجہ سے ناممکن ہو چکا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
خواتین قیدیوں کی مدد
فوزیہ خالد ایک ماہر نفسیات ہیں، جو خواتین کی بہبود کے شعبے میں خاص طور پر ایسی عورتوں پر توجہ دیتی ہیں، جن پر پاکستانی معاشرے میں سب سے کم دھیان دیا جاتا ہے۔ فوزیہ جیلوں میں بے سہارا خواتین کی مدد کرنے والے ایک نجی فلاحی ادارے سے منسلک ہیں اور اپنا کافی وقت مختلف جیلوں، خاص کر راولپنڈی کی اڈیالہ جیل کی قیدیوں کے ساتھ گزارتی ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
خواتین کے زیر جاموں کی فروخت
سمعیہ بی بی اسلام آباد میں پشاور موڑ پر ہر اتوار بازار میں دو سال سے اپنا سٹال لگاتی ہیں اور خواتین کے زیر جامے فروخت کرتی ہیں۔ وہ یہ سامان خود پشاور سے لا کر اسلام آباد میں بیچتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ انہیں ان مردانہ نظروں پر غصہ آتا ہے، جن میں عورت کے لیے کوئی عزت نہیں ہوتی۔ سمعیہ کی طرح بہت سی پاکستانی خواتین مختلف مارکیٹوں میں کئی طرح کا سامان بیچتی ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
تعلیمی شعبے میں خدمات
شگفتہ اسد کی بچوں کے لیے تعلیم میں دلچسپی کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ اپنے قائم کیے ہوئے سپرنگ بورڈ اسکول سسٹم کی متعدد شاخیں چلاتی ہیں۔ شگفتہ کی بنیادی ذمہ داری ایک منتظمہ کی ہے، لیکن ایک ایسے معاشرے میں جہاں اسکول جانے کی عمر کے کئی ملین بچے اسکول جاتے ہی نہیں۔ تعلیمی ادارے سرکاری ہوں یا نجی، پاکستانی تعلیمی شعبے میں خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد کام کرتی ہے۔
تصویر: Shagufta Asad
ڈاکٹروں کے طور پر ناگزیر کردار
ڈاکٹر فرحت ارشد راولپنڈی میڈیکل کالج اور کئی دیگر طبی اداروں سے وابستہ زچہ و بچہ سے متعلق امراض کی ایک ماہر معالج ہیں۔ پاکستان میں بہت سے شہری طبی سہولیات سے محروم ہیں اور ملکی آبادی میں ڈاکٹروں کا مریضوں کی تعداد کے لحاظ سے تناسب بھی خوش کن نہیں۔ پاکستانی خواتین میں ڈاکٹر بننے کا رجحان کئی برسوں سے کافی زیادہ ہے۔ اکثر خواتین علاج یا معائنے کے لیے خواتین ڈاکٹروں کے پاس ہی جانا چاہتی ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
نرسنگ، ایک پسندیدہ پیشہ
کوئی ہسپتال سرکاری ہو یا نجی، شہر میں ہو یا دیہی علاقے میں، نرسنگ کے بغیر طبی شعبے کی کامیاب کارکردگی کا تصور کہیں بھی ممکن نہیں۔ پاکستانی طبی شعبے میں نرسنگ کرنے والے پیشہ ور اور تربیت یافتہ افراد میں خواتین کی تعداد ہمیشہ ہی بڑی اکثریت میں رہی ہے۔ مرد نرسوں کی تعداد ابھی بھی بہت کم ہے۔ پورے پاکستان میں کل وقتی یا جزوقتی عملے کے طور پر لاکھوں خواتین پیشہ ور نرسوں کے فرائض انجام دے رہی ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
گھریلو خواتین، نظر انداز کر دی گئی اکثریت
شبانہ حارث اسلام آباد میں رہتی ہیں، شادی سے پہلے باقاعدہ ملازمت کرتی تھیں لیکن اب دو بچوں کی والدہ ہیں اور ایک گھریلو خاتون۔ خانہ داری کرنے والی کسی بھی خاتون یا ہاوس وائف کا صبح سے شام تک جاری رہنے والا کام کسی کل وقتی ملازمت یا روزگار سے کم نہیں ہوتا۔ اس لیے ایسی خواتین معیشت اور روزگار کی ملکی منڈی میں اپنی کوئی جگہ نہیں بنا پاتیں۔
تصویر: Shabana Haris
لاکھوں گھریلو ملازمائیں
پاکستانی دارالحکومت میں پانچ افراد پر مشتمل ایک گھرانے میں گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کرنے والی بائیس سالہ ناصرہ کو ماہانہ دس ہزار روپے ملتے ہیں، جو دراصل اسے نہیں ملتے بلکہ اس کے والدین آ کر لے جاتے ہیں۔ ناصرہ اپنے آجر خاندان کے ساتھ ہی رہتی ہے۔ پاکستان میں کئی لاکھ خواتین اور نوجوان لڑکیاں ایسی ہیں جو گھریلو خادماؤں کے طور پر کام کرتی ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
فٹنس اور یوگا کی نجی تربیت
اسلام آباد کے سماجی حلقوں میں معروف فٹنس ٹرینر صنوبر نظیر خواتین کو بدلتے ہوئے معاشرتی تقاضوں سے ہم آہنگ بنانا چاہتی ہیں۔ وہ ملازمت اور بزنس پیشہ خواتین کو نجی طور پر جسمانی فٹنس اور یوگا کی تربیت دیتی ہیں۔پاکستان میں کئی ایسے شعبے ہیں، جن میں خواتین دوسری خواتین کی مدد کرتی ہیں۔ ان میں یوگا، فٹنس، پیراکی، اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی نجی ٹریننگ جیسے شعبے شامل ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
انٹیریئر ڈیزائننگ کے ذریعے خود انحصاری
آرٹ کے پس منظر کی حامل اور حیدرآباد سے تعلق رکھنے والی پارس محمود شاہ ایک انٹیریئر ڈیزائنر ہیں جنہوں نے ثقافتی ورثے سے اپنی محبت کے باعث گھروں اور غیر رہائشی عمارات کی اندرونی تزئین و آرائش کو اپنا پیشہ بنا رکھا ہے۔ وہ اس آرائش کے لیے ٹائلوں، دیواروں اور فرنیچر کی پینٹنگ سے کام لیتی ہیں۔ آرٹ اور ڈیزائننگ کو ملا کر جس طرح اپنا پیشہ انہوں نے بنایا ہے، ویسا بہت کم پاکستانی خواتین کرتی ہیں۔
تصویر: Paras Shah
بیوٹی پارلر چلانا بھی ایک کامیاب پیشہ
پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں ہزارہا خواتین نے اپنے میک اپ سیلون اور بیوٹی پارلر کھول رکھے ہیں، شادیوں پر دلہنوں کا خطیر رقوم دے کر پارلر سے میک اپ کروانا ایک روایت بن چکا ہے۔ اس طرح بہت سے ایسی خواتین کے لیے بھی، جو اعلیٰ تعلیم یافتہ یا کسی سائنسی پیشے کی ماہر نہیں بھی ہوتیں، اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کا ایک نیا اور کامیاب رستہ کھل چکا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
زرعی شعبے میں خواتین کا حصہ
ایک نیم دیہی علاقے میں مویشیوں کے لیے گھاس کاٹنے والی یہ خواتین پاکستان کی ان کئی ملین خواتین کے کردار کی علامت ہیں، جو دیہی علاقوں میں زرعی شعبے کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ پاکستان کی قریب 65 فیصد آبادی دیہی یا نیم دیہی علاقوں میں رہتی ہے۔ پاکستانی معیشت زیادہ تر ایک زرعی معیشت ہے، جس میں خواتین کھیتوں میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں۔