1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نظریہ ارتقا کے بارے میں پائے جانے والے چند عام مغالطے

12 فروری 2023

نظریہ ارتقا سے متعلق ’مجرمانہ خرافات‘ اور ’ڈارون کا بندری نظریہ‘ جیسی تراکیب کان پڑتی ہیں تو کبھی اکبر الہ آبادی جیسے شاعر طنز کرتے ہیں کہ منصور کا خود کو خدا اور ڈارون کا خود کو بوزنا کہنا ان کی فکری پرواز کا عکاس ہے۔

BG Charles Darwin | Abstammung des Menschen und die Selektion in Bezug auf das Geschlecht
برطانوی محقق چارلس ڈارون کی ان کے ہم وطن جان کولیئر کی اٹھارہ سو تراسی میں بنائی گئی ایک پینٹنگتصویر: ANDY RAIN/Epa/dpa/picture-alliance

آخر نظریہ ارتقا کو ایسے شدید ردعمل کا سامنا کیوں کرنا پڑا اور کیا یہ محض پاکستانی معاشرے تک ہی محدود ہے؟ کیا ڈارون نے خود کو واقعی بوزنا کہا تھا؟ اگر نہیں تو پھر ڈارون اور نظریہ ارتقا کے حوالے سے پائے جانے والے چند عام مغالطوں کی سائنسی حقیقت کیا ہے؟ آج اتوار بارہ فروری کے روز دنیا بھر میں منائے جانے والے ڈارون ڈے کے موقع پر ڈی ڈبلیو نے یہ تمام سوالات چند ماہرین کے سامنے رکھے۔

’مذہبی معاشرے نظریہ ارتقا کے مخالف ہیں اور ہم کوئی استثنیٰ نہیں‘

سماجی مؤرخ اور سائنسی علوم کے ماہر ظفر سید نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ڈارون اور نظریہ ارتقا کو شروع سے ہی چرچ کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں تک کہ 'اوریجن آف سپیشیز‘ کی اشاعت کے محض سات ماہ بعد آکسفورڈ یونیورسٹی میوزیم میں چرچ اور ڈارون کے حامیوں کے مابین مشہور مناظرہ بھی ہوا۔"

جنگلی بندر بادام توڑنے کے لیے اوزار استعمال کرنا کیسے سیکھے؟

وہ کہتے ہیں، ”مذہب کے نظریہ تخلیق پر سب سے گہری ضرب ڈارون نے لگائی۔ مذہبی معاشرے نظریہ ارتقا کے مخالف ہیں اور ہم کوئی استثنیٰ نہیں ہیں۔ مختلف سروے اور تحقیقات سے یہ بات واضح ہے کہ جو معاشرہ جتنا زیادہ مذہبی ہے، وہاں ڈارون اور نظریہ ارتقا اتنا ہی ناپسندیدہ ٹھہرا۔"

نامور ماہر تعلیم اور سائنس دان پرویز ہود بھائی کہتے ہیں، ''چونکہ نظریہ ارتقا ایک تسلیم شدہ سائنسی تھیوری ہے، اس لیے برطانیہ اور امریکہ میں عوامی سطح پر مخالفت کے باوجود وہاں کے تعلیمی اداروں میں اس کی تدریس کا عمل متاثر نہیں ہوا۔ دوسری طرف ہمارے ہاں اول تو سائنس ہے ہی کہاں اور اگر ہے بھی تو ایسے بے ڈھنگے انداز میں پڑھائی جاتی ہے کہ وہ سائنس رہتی ہی نہیں۔ اس لیے ہم ارتقا سمیت بہت سے سائنسی نظریات کے بارے میں ایسے فکری مغالطوں کا شکار ہیں جو سکول کی سطح پر ہی دور ہو جانا چاہییں۔‘‘

چارلس ڈارون کی مشہور زمانہ کتاب ’اوریجن آف سپیشیز‘ کے اولین ایڈیشن کی ایک تصویرتصویر: Natural History Museum/dpa/picture-alliance

1۔ یہ محض ایک نظریہ ہے حقیقت نہیں

بالعموم کہا جاتا ہے کہ ارتقا محض ایک نظریہ ہے کوئی ثابت شدہ سائنسی حقیقت نہیں۔ اس حوالے سے ظفر سید کہتے ہیں، ''یہ بات امریکہ کے مذہبی طبقے نے 1987 کے دوران سپریم کورٹ میں چلنے والے مشہور مقدمے کے وقت خوب اچھالی۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ کسی طرح اپنے نظریہ تخلیق کو بھی سائنسی تھیوری ثابت کریں یا نظریہ ارتقا کو ایک غیر سائنسی مفروضہ۔ وہ اس میں کامیاب تو نہ ہو سکے لیکن بے پناہ وسائل کی بدولت ایسا بہت سا لٹریچر شائع کیا اور آج بھی کر رہے ہیں جو ایسی غلط فہمیاں پھیلا کر عوام میں شکوک و شبہات پیدا کرتا ہے۔‘‘

’ڈارون کی تھیوری غلط ہے‘، بھارتی نائب وزیر تعلیم

ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے پروفیسر ہود بھائی کا کہنا تھا، ”روزمرہ یا سماجی مضامین کی زبان اور سائنس کی اصطلاحات میں فرق ہوتا ہے، جسے نظر انداز کرنے کی صورت میں یہ مغالطہ جنم لیتا ہے۔ سائنسی اصطلاح میں تھیوری یا نظریہ کسی قدرتی عمل کی ایسی وضاحت ہے جس میں ثابت شدہ سائنسی طریقہ کار کے استعمال سے نتائج برآمد کیے گئے ہوں اور ان کی بار بار تصدیق کی گئی ہو۔"

2۔ ’انسان بندر کی اولاد ہے‘

 آکسفورڈ یونیورسٹی میوزیم میں ہونے والے مناظرے کے دوران بشپ سیموئل ولبرفورس نے ڈارون کے نمائندے تھامس ہکسلے سے سوال کیا تھا، ''وہ آپ کا دادا تھا یا دادی، جس سے آپ کا نسب بندر سے انسان کی طرف چلا؟" محققین کے مطابق بشپ کا یہ سوال ڈارون کے نظریے کی غلط تفہیم کی عکاسی کرتا ہے۔

جزائر گالاپاگوس میں سے ایک پر پایا جانے والا عظیم الجثہ کچھواتصویر: imago images/FLPA/Krystyna Szule

ظفر سید کہتے ہیں، ''نظریہ ارتقا کے بارے میں یہ غلط فہمی بہت عام ہے جبکہ ڈارون نے ایسا نہیں کہا کہ انسان بندر کی اولاد ہے بلکہ نظریہ ارتقا کے مطابق انسان اور جدید بندر مشترکہ آبا و اجداد رکھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ دونوں کے مابین اتنی گہری مماثلت ہے۔ بندر اور چمپینزی وغیرہ سب ہمارے قریبی رشتہ دار ہیں، جن سے انسانی آبا و اجداد تقریباً پانچ سے سات ملین سال پہلے الگ ہو گئے تھے۔"

3۔ چمپینزی انسانوں میں تبدیل کیوں نہیں ہو رہے؟

 جدید سائنسی تحقیق کے مطابق انسان اور چمپینزی اپنی جینیاتی ترتیب میں تقریباً 98 فیصد مماثلت رکھتے ہیں۔ اس کے بعد بہت سے لوگ سوال کرتے ہیں کہ کیا چمپینزی انسانوں میں تبدیل ہو سکتے ہیں اور ایسا کب تک ہو جائے گا؟

ڈارون تھیوری ترک نصاب سے خارج، ’ جہاد اور مقدس جنگ‘ شامل

ڈاکٹر طارق کہتے ہیں، ''اب یہ دو الگ الگ انواع ہیں اور کوئی ایک نوع اپنی انفرادی زندگی میں کسی دوسری نوع میں تبدیل نہیں ہو سکتی۔ جہاں تک ان کے آئندہ لاکھوں برسوں کے اجتماعی ارتقائی سفر کی بات ہے، تو ممکن ہے وہ انسانوں سے زیادہ ذہین اور زیادہ چست و چالاک مخلوق ثابت ہوں۔ مگر وہ انسان نہیں ہوں گے بلکہ کچھ اور ہی ہوں گے۔ انسان اپنے ماحول کی پیداوار تھا۔ وہ بھی اپنے ماحول ہی کی پیداوار ہوں گے۔"

4۔ ہمیں آج ارتقا عمل میں آتا نظر کیوں نہیں آ رہا؟

 پروفیسر ہود بھائی کہتے ہیں، ''اپنی اصل میں ارتقا ایک انتہائی سست رفتار عمل ہے لیکن بعض صورتوں میں اسے دیکھا جا سکتا ہے جس کی ایک مثال ایڈز کا وائرس ہے، جو دنیا کے تیز ترین ارتقا پذیر جانداروں میں سے ایک ہے۔"

ڈارون کے جمع کردہ نایاب فوسلز اچانک دریافت

ڈاکٹر طارق نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''دنیا میں آج کتوں کی مختلف نسلوں میں کتنا تنوع ہے۔ یہ تقریباً دو سو سال پہلے نہیں تھا۔ انسانوں کی آنکھوں میں نیلی رنگت اور بھورے بال محض چند ہزار سال قبل کی باتیں ہیں۔ ایسی بہت سی مثالیں ہیں۔ لیکن ان سب سے زیادہ ضروری چیز اپنے دماغ میں یہ واضح کرنا ہے کہ اپنی اصل میں ارتقا ایک انتہائی سست رو اور بتدریج عمل ہے، جس میں ہزاروں سال بھی انتہائی معمولی شمار ہوتے ہیں۔‘‘

5۔ تھرموڈائنامکس کا دوسرا قانون ارتقا کو غلط ثابت کرتا ہے

ظفر سید کہتے ہیں، ''اگر کوئی ایسی بات کرتا ہے تو اس کا مطلب ہوا، اسے ارتقا کے ساتھ ساتھ تھرموڈائنامکس کی بھی سمجھ نہیں ہے۔"

اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''تھرموڈائنامکس کا دوسرا قانون کہتا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ انتشار بڑھ رہا ہے۔ مثال کے طور پر اگر عمارتیں اپنے حال پر چھوڑ دی جائیں، تو وقت کے ساتھ ساتھ وہ خستہ ہو جائیں گی، نہ کہ کسی بہتر چیز میں تبدیل ہوں گی۔ لیکن اس قانون کا اطلاق ایسے بند نظاموں پر ہوتا ہے جن میں توانائی کا کوئی بیرونی ذریعہ شامل نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس زمین کوئی بند نظام نہیں ہے۔ زمین سورج سے مسلسل روشنی جذب کر رہی ہے جو توانائی کی نئی شکلوں میں تبدیل ہو کر ارتقائی سفر آگے بڑھانے میں مددگار ثابت ہو رہی ہے۔‘‘

کيا واقعی انسان قديم وقت ميں بندر تھا؟

02:12

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں