1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نقیب اللہ قتل کیس کا فیصلہ، راؤ انوار کو بری کر دیا گیا

23 جنوری 2023

کراچی کی ایک انسداد دہشت گردی کی عدالت نے پانچ برس کے طویل عرصے بعد پیر کو نقیب اللہ قتل کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے سابق ملیر ایس۔ایس۔پی راؤ انوار سمیت تمام ملزمان کو بری کر دیا۔

Pakistan Rao Anwar
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Adil

13 جنوری 2018 ء کو کراچی کے ضلع ملیر میں اس وقت کے ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی جانب سے ایک مبینہ پولیس مقابلے میں 4 دہشت گردوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا گیا تھا تاہم بعد میں یہ خبر سامنے آئی کہ انہیں قتل کیا گیا اور ان تمام افراد میں کوئی دہشت گرد نہیں تھا بلکہ مختلف علاقوں سے اٹھائے گئے مزدور طبقے کے شہری تھے جنہیں ماورائے عدالت قتل کردیا گیا۔

نقیب اللہ محسود قتل کیس کا پس منظر

جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ نقیب اللہ کو 2018 ء میں سابق ایس ایس پی راؤ انوار کی جانب سے مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا تھا۔عدالتی بیان کے مطابق یہ پولیس مقابلہ جعلی تھا۔

پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ کراچی کے شاہ لطیف ٹاؤن کے عثمان خاص خیلی گوٹھ میں مقابلے کے دوران 4 دہشت گرد مارے گئے ہیں، جن کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تھا۔ ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی جانب سے اس وقت یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے افراد شہر قائد میں ہونے والے بڑے دہشت گردی کے واقعات میں ملوث تھے اور ان کے لشکر جنگھوی اور عسکریت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ سے تعلقات تھے۔

اس واقعے کے بعد نقیب اللہ کے خاندان کی طرف سے پولیس افسر انوار کے اس متنازعہ بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا گیا کہ مقتول حقیقت میں ایک دکان کا مالک تھا اور اسے ماڈلنگ کا شوق تھا۔

ان کے احباب کے مطابق انہیں سہراب گوٹھ پر واقع کپڑوں کی دکان سے سادہ لباس میں ملبوس افراد مبینہ طور پر اٹھا کر لے گئے تھے ۔

بعد ازاں چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار نے کراچی میں مبینہ طور پر جعلی پولیس مقابلے میں قتل کیے جانے والے نقیب اللہ محسود پر از خود نوٹس لیا تھا۔

آج پانچ سال بعد اس کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا ہے اور راؤ انور سمیت تمام ملزمان کو باعزت بری کردیا گیا ہے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ پراسیکیوشن ملزمان پر الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہی ہے۔

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں