1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نمائش: جرمن امریکی تعلقات کے نشیب و فراز

22 مارچ 2013

جرمن شہر بون کے ہاؤس آف ہسٹری میوزیم میں جاری ایک نمائش میں جرمنی اور امریکا کے نشیب و فراز سے عبارت تعلقات کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اس نمائش میں جرمن معاشرے پر امریکی اثرات کی بھی ایک جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔

تصویر: DW/N. Fischer/Stiftung Haus der Geschichte

دوسری عالمی جنگ کے اختتامی دنوں میں بھی امریکی طیارے گرج دار آواز کے ساتھ جرمنی کے آسمان پر نمودار ہوتے تھے اور بم گرا کر لوٹ جاتے تھے۔ ایسے میں فطری سی بات ہے کہ بہت سے جرمن باشندوں کا امریکا کے با رے میں تصور یہ تھا کہ وہ ایک دشمن ملک ہے۔

تاہم تین ہی سال بعد سب کچھ بدل چکا تھا۔ جب مغربی برلن کا محاصرہ شروع ہوا اور زمینی راستے سے اَشیائے خوراک کا لے جانا ممکن نہ رہا تو اِنہی امریکی طیاروں کے ذریعے کھانے پینے کی اَشیاء پہنچائی جانے لگیں۔ تب ان طیاروں کو ’روزینن بومبر‘ یعنی مٹھائیاں پھینکنے والے بمبار کہا جانے لگا۔ امریکی اسکولوں کے طلبہ چھوٹے چھوٹے پیراشُوٹ بناتے تھے، جن میں چاکلیٹ اور دیگر مٹھائیاں رکھ کر شہر پر پھینکی جاتی تھیں۔ بون میں جاری نمائش میں اِسی طرح کا ایک پیراشُوٹ بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

پچاس کے عشرے کے اواخر میں Taunus 17M نامی کار کو حاصل کرنا بہت سے جرمنوں کا خواب ہوا کرتا تھاتصویر: Stiftung Haus der Geschichte/Axel Thünker

بون کے ہاؤس آف ہسٹری میوزیم کے انچارج ہنس والٹر ہیوٹر بتاتے ہیں:’’دنیا کا کوئی بھی دوسرا ملک جرمن باشندوں میں اتنے مختلف اور متصاد احساسات پیدا نہیں کرتا، جتنا کہ امریکا کرتا ہے۔‘‘

’’دی امیریکن وے، دی یُو ایس اے اِن جرمنی‘‘ کے عنوان سے منعقد ہونے والی اس نمائش میں انہی متضاد احساسات کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اِس نمائش میں تقریباً ایک ہزار اَشیاء رکھی گئی ہیں۔ آڈیو اور ویڈیو ریکارڈنگ اِس کے علاوہ ہے۔ یہ ساری چیزیں یہ بتاتی ہیں کہ امریکی طرزِ زندگی نے جرمن معاشرت پر کیا کیا اثرات مرتب کیے ہیں۔ ساتھ ساتھ اِس نمائش میں یہ بتایا گیا ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد کے دنوں سے لے کر موجودہ دور تک اِن دونوں ملکوں کے تعلقات میں کیا کیا اُتار چڑھاؤ آتے رہے ہیں۔

نمائش میں رکھی گئی اَشیاء میں گیارہ ستمبر 2001ء کے دہشت گردانہ حملوں میں تباہ ہو جانے والے ایک طیارے کے ملبے کا ایک حصہ بھی شامل ہے اور اِن حملوں میں تباہ ہو جانے والے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی 102 ویں منزل کی نشاندہی کرنے والی تختی بھی۔

جرمنی میں امریکی طرزِ معاشرت کے اثرات پچاس اور ساٹھ کے عشرے سے نظر آنا شروع ہوئے۔ اِس نمائش میں Taunus 17M نامی وہ کار بھی دیکھی جا سکتی ہے، جسے حاصل کرنا پچاس کے عشرے کے اواخر میں بہت سے جرمنوں کا خواب ہوا کرتا تھا۔ اِس کار کا ڈیزائن اُس دور میں امریکا کی سڑکوں پر چلنے والی کاروں کو دیکھ کر تیار کیا گیا تھا۔

جرمنی میں درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کی تنصیب پر جرمنی میں امریکا کے خلاف زبردست احتجاج کیا گیا تھاتصویر: DW/N. Fischer/Stiftung Haus der Geschichte

تیرہ اکتوبر تک جاری رہنے والی اِس نمائش میں سابق مشرقی جرمنی یعنی جرمن ڈیموکریٹک ری پبلک کی بھی ایک جھلک دیکھی جا سکتی ہے، جہاں کی کمیونسٹ حکومت امریکا کو مسلسل ہدفِ تنقید بناتی رہتی تھی۔ یہ اور بات ہے کہ وہاں کے نوجوان طبقے میں امریکی موسیقی اور اَشیائے صرف بے حد مقبول تھیں۔

 اُس وقت کے مغربی جرمنی میں بھی امریکی موسیقی کو بے حد پسند کیا جاتا تھا۔ اِس نمائش میں اُس دور کے ہِٹ گیت بھی سنے جا سکتے ہیں۔

اِس نمائش میں یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ کیسے ویت نام جنگ کے دوران یا پھر جرمنی میں درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کی تنصیب پر جرمن شہری امریکا کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ اِسی طرح جہاں گیارہ ستمبر 2001ء کے حملوں کے بعد جرمن شہری امریکا کے ساتھ ہمدردی کا اظہار  کر رہے تھے، وہاں امریکا کی عراق جنگ کو جرمنی میں سختی کے ساتھ مسترد کر دیا گیا تھا۔

(aa(ia(epd

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں